مہنگی بجلی دُہائی ہے دُہائی

وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ جلد یا بدیر کوئی نہ کوئی آئینی میلٹ ڈاؤن ہونے والا ہے


Zamrad Naqvi July 22, 2024
www.facebook.com/shah Naqvi

ملک کے معروف صنعتکار ڈاکٹر گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظر ثانی تک ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ انھوں نے انتہائی اہم سوال یہ اٹھایا جس پر پوری پاکستانی قوم اس وقت زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہے کہ پرائیویٹ بجلی کمپنیوں کو حکومت عوام کی خون پسینے کی کمائی سے سالانہ دو ارب نہیں دو ہزار ارب روپے کیپسٹی چارجز کی مد میں ادائیگی کر رہی ہے جب کہ یہ بجلی گھر بند پڑے ہیں۔ غور فرمائیں۔ ظلم کی انتہا ہے۔ یہ تو عوام کی رگوں سے خون نچوڑنے والی بات ہوئی۔

عوام بجلی کے بل ادا کریں یا بچوں کو بھوکا ماریں۔ انھوں نے سب سے اہم سوال یہ اٹھایا کہ آئی پی پیز سے معاہدوں کے ذمے دار کون ہیں۔ یہ سوال بلین نہیں ٹریلین ڈالر کا ہے۔ ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کی ججز کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جائے تاکہ اصل ذمے داران کے چہرے سامنے آسکیں جنھوں نے قوم و ملک کے خلاف یہ بھیانک سازش کی۔ یہ بھی پتہ چلے گا کہ جب یہ ملک دشمن معاہدہ ہو رہا تھا تو ملک کے اصل ذمے داران کہاں سو رہے تھے۔ انھوں نے بروقت ایکشن کیوں نہیں لیا۔ اس معاہدے کو ہونے سے کیوں نہیں روکا۔ اس طرح کے معاہدے کبھی بھی شفاف نہیں ہوتے۔

ان کے پیچھے اربوں ڈالرز کی کرپشن ہوتی ہے۔ سابق نگران وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے کہا کہ ان بددیانت معاہدوں سے نہ انڈسٹری چل سکتی ہے نہ گھریلو صارفین بل دے سکتے ہیں۔ گوہر اعجاز نے کہا کہ میں نے جو باتیں کی ہیں وہ سچی حقیقت ہیں۔ میں اس وقت تک لا علم تھا جب تک میں نے ان آئی پی پیز کی معاہدوں کی تفصیلات نہیں پڑھی تھیں۔ مجھے امید ہے کہ حکومت اور وزیر توانائی 106آئی پی پیز ڈیٹا عوام کے ساتھ شیئر کریں گے۔ ڈاکٹر گوہر اعجاز نے دعویٰ کیا کہ بجلی کی اصل قیمت 30روپے یونٹ کے بجائے 60روپے فی یونٹ ناجائز وصول کی جا رہی ہے۔

پاکستان میں مافیاز کس قدر طاقتور ہیں اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ پچھلے چار مہینوں میں ٹیکس ریفنڈ میں 800ارب روپے کا فراڈ پکڑا گیا۔ یہ تو صرف چند مہینوں کی بات ہے۔ مزید یہ کہ یہ مافیا سالانہ چالیس ارب روپے کی گیس چوری کر رہا ہے۔ پچھلے پچاس برسوں میں کتنی ٹیکس چوری ہوئی شاید سیکڑوں ارب روپے کی۔ وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ مختلف عدالتوں اور ٹربیونلز میں ٹیکس کے حوالے سے 3000ہزار ارب سے زائد مالیت کے کیس زیر التواء ہیں۔ وزیر اعظم کو یہ بھی بتایا گیا کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ٹیکس دینے کی استطاعت رکھنے والے 49 لاکھ افراد کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اگر یہ سب لوگ ٹیکس دینا شروع کر دیں تو نہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت ہو اور نہ ہی غریب عوام پر ٹیکس لگانے کی ضرورت پڑے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ جلد یا بدیر کوئی نہ کوئی آئینی میلٹ ڈاؤن ہونے والا ہے۔ مارشل لا کی بات نہیں کر رہا مگر آئینی بریک ڈاؤن نظر آرہا ہے۔ پی ٹی آئی نے امریکا کے خلاف اتنی ہائپ پیدا کی پھر بھی پورا امریکی نظام ان کے حق میں بول رہا ہے۔ موجودہ صورتحال پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ گھمبیر ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن نے کہا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو ملک میں آئینی نظام گر جائے گا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ الیکشن منسوخ کرنے کی بات ہو رہی ہے مگر ہم ایسی کسی صورتحال کا دفاع کریں گے حکومت بچانے کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔ اس سلسلے میں ہمارے پاس جو 'دوا، موجود ہے استعمال کریں گے انھوں نے کہا کہ اس وقت سارے حالات دیکھیں تو پریشان کن ہیں۔ عمران خان کی مقبولیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف عالمی ریٹنگ ایجنسی فچ نے پیش گوئی کی ہے کہ عمران خان مستقبل قریب میں زیر حراست ہی رہیں گے جب کہ موجودہ حکومت 18ماہ تک برقرار رہے گی اگر یہ حکومت ختم ہوئی تو ٹیکنو کریٹس کا سیٹ اپ آئے گا۔

بہر حال اس وقت پاکستان بہت بڑے بحران سے دوچار ہے۔ اگر بہت دور نہ بھی جائیں تو یہ بحران2017سے شروع ہوتا ہے جب نواز شریف کو قبل از وقت ہٹایا گیا۔ 2025 اور 2026 میں اس بحران کی شدت ٹوٹے گی۔ پاکستان کی تباہی کا آغاز پچاس کی دہائی سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن موجودہ تباہی کی بنیاد 1985 کے غیر جماعتی انتخابات سے شروع ہوتی ہے۔ 2024میں قوم غیر جماعتی انتخابات کے اثرات سے نکل جائے گی۔ مارچ 2022 کے حوالے سے پہلا اہم وقت8جولائی تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب سپریم کورٹ نے کئی دن کے غوروغوض کے بعد 12جولائی کو اہم ترین فیصلہ جاری کیا۔ اگست اور اگست کا پہلا اور دوسرا ہفتہ اس حوالے سے پھر ایک اہم وقت ہے۔

اس کے بعد اکتوبر نومبر ہیں۔ عمران خان کی قید کے حوالے سے ستمبر اکتوبر انتہائی اہم ہیں جس کا آغاز اگست کے دوسرے ہفتے سے شروع ہو جائے گا۔ تاریخیں ملتی جلتی ہیں کیونکہ تبدیلیوں کی رفتار انتہائی تیز ہے۔ موجودہ حکومت کے لیے اگست ایک مشکل وقت ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے مزید اہم تاریخیں 26-25-24-23 جولائی ہیں۔ دعا کریں ۔ وقت دعا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔