کسی پارٹی پر پابندی درست سوچ نہیں
پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی بات کرکے حکومت نے خود کوایک مصیبت میں ڈال دیا ہے
حکمراں پارٹی مسلم لیگ نون کو نجانے کس نے مشورہ دیا کہ PTI سے نمٹنے کا بہترین طریقہ اُسے سیاسی طور پر میدان سے باہرکر دیا جائے اور اس پر پابندی لگا دی جائے، وہ بھی ایسے دور میں جہاں عدلیہ کسی بیرونی دباؤ کو قبول کرنے کو قطعاً تیار نہیں ہے۔
ستر سالہ عدالتی تاریخ میں ہم نے یہ پہلی بار دیکھا ہے کہ ہماری عدلیہ مکمل طور پرآزادانہ اورخود مختارانہ فیصلے کر رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک تاریخی فیصلہ آیا جو بظاہر PTI کے حق میں دکھائی دیتا ہے اورجس پر حکمراں اتحاد کوکچھ تحفظات اور اختلاف بھی ہے مگر حکومت نے اس پر ردعمل دینے میں کچھ زیادہ ہی جلدی اور غیرذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے PTI پر پابندی لگانے کا عندیہ دے دیا۔ پابندی لگانے کا جواز نو مئی کے واقعات کو بنایا گیا ہے حالانکہ اس واقعہ کو ایک سال سے بھی زیادہ کا وقت گزرچکا ہے، اگر ایسا ہی کرنا تھا تو پہلے کردیتے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایسا کرنا یا سوچنا کچھ صائب اور درست معلوم نہیں ہو رہا ہے، جب کہ حکومت کے پاس اس فیصلے پر نظرثانی کا آپشن بھی موجود ہے۔ مختلف حلقوں کی جانب سے اس پر زبردست تنقید کے بعد شاید حکومت نے اپنی اس تجویزکو فی الحال مؤخرکر دیا ہے۔
اس کے لیے بہتر ہوتا کہ یہ تجویز قبل از وقت لائی جاتی ہی نہیں۔ تجویز لاکر اس نے خود کو بلاوجہ مشکل اور مخمصے میں ڈال دیا ۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو اس حکومت کے لیے حالات اتنے سازگار نہیں ہیں۔ وہ ایک کمزور مینڈیٹ اور دوسری پارٹیوں کی بے ساکھیوں پرقائم ہے جو کسی بھی لمحہ ایک اشارہ ملنے پر ختم کی جاسکتی ہے۔ اس حکومت نے اگرعوام کو ریلیف دینے کے لیے کچھ اقدامات کیے ہوتے تو عوام اس کے ہر غلط اور صحیح فیصلے پر اس کا ساتھ دیتے۔ عوام تو اس سے پہلے ہی نالاں ہیں۔
اس نے سوائے آٹے کے ابھی تک کسی چیز میں ریلیف نہیں دیا ہے، بلکہ بجلی کے دام بڑھا کر اس نے عوام کو بیزارکردیا ہے۔ کہنے کو وہ IMF کے حکم پر بجلی کے دام بڑھا رہی ہے لیکن اس بجلی کے بلوں میں جو اضافی چارجز لگے ہوئے ہیں وہ اگر چاہتی تو انھیں ہی کم کرکے اپنے عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف دے سکتی تھی۔ اس نے نہ لائن لاسزکم کرنے پرکچھ کام کیا ہے اور نہ بجلی کی چوری روکی ہے اور تو اور آئی پی پیز سے کیے گئے نامناسب یکطرفہ معاہدوں کو بھی ری وزٹ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔
1993-94 میں کیے گئے اِن معاہدوں کے نتیجے میں ہمارے عوام اب تک نجانے کتنے اربوں اورکھربوں روپے اِن کمپنیوں کو دے چکے ہیں، وہ اگر یہی اضافی چارجزکم کردیتی تو ہمارے عوام آج اس کے ساتھ کیوں کھڑے نہ ہوتے۔ یہاں عوام سے ہمدردی کی باتیں تو بہت کی جاتی ہیں لیکن عملاً ایک بھی قدم اس جانب بڑھایا نہیں جاتا۔ لگتا ہے جس طرح اس ملک میں شوگر اور دیگر مافیا موجود ہیں اسی طرح ان آئی پی پیز کے پیچھے بھی کسی ایسے ہی گروہ کے مفادات جڑے ہوئے ہیں۔ عوام اس وقت بجلی کے بلوں سے بہت ہی تنگ ہیں، وہ اگر کم نہ ہوئے تو اس حکومت کی بقاء خطرے میں ہے۔ ایسی صورتحال میں اسے پھونک پھونک کر قدم اُٹھانا چاہیے نہ کہ جذباتی فیصلے کر کے اپنے لیے مزید مشکلات پیدا کی جائیں۔
پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی بات کرکے حکومت نے خود کوایک مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ سیاست دان سیاسی میدان میں ایک دوسرے کا مقابلہ کیا کرتے ہیں، نہ کہ کسی کو میدان سے باہرکر کے۔ گزشتہ انتخابات میں اس جماعت سے بلے کا نشان لے کر ہی بہت بڑی غلطی کی گئی تھی جس کا نتیجہ عوام کے غم وغصہ کی شکل میں 8 فروری کو سامنے آیا۔ عوام نے اس نشان کے بغیر ہی اسے اکثریت دلوا دی۔ انتخابات سے چند دن قبل دو اہم مقدمات میں فیصلے صادرکر کے اس جماعت کو اور بھی مظلوم اور معصوم ثابت کردیا گیا۔ عدت میں نکاح اور توشہ خانہ جیسے مقدمات میں پولنگ سے چند دن قبل فیصلے کرکے اس کی جیت کو مزید یقینی بنادیا گیا۔
ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں سیاست میں ایسے فیصلے کبھی بھی درست اور پائیدار نہیں سمجھے جاتے ہیں۔ اِن کا ری ایکشن الٹا ملزم کے حق میں ہی سامنے آتا ہے۔ قید اور سزائیں بھی عارضی ہوا کرتی ہیں، بلکہ سیاستدانوں کے لیے جیل جانا اُن کے لیے نعمت غیرمترقبہ ہی ثابت ہوتی ہیں۔ اسی طرح کسی پارٹی کو بین کر دینا بھی جمہوری روایات کے خلاف ہی گردانہ جاتا ہے، وہ پارٹی پھرکسی اور نام سے معرض وجود میں آجاتی ہے اور عوام اس سے اور بھی زیادہ محبت کرنے لگتے ہیں۔ مسلم لیگ نون ماضی میں ہمیشہ ایسی غیر مناسب تجاویزکے خلاف اپنا نقطہ نظر رکھتی تھی لیکن نجانے اسے کس نے یہ مشورہ دیا کہ اس نے فوراً ہی اس پر عملدرآمد کا عندیہ دے دیا۔
مسلم لیگ نون بلاوجہ خود کو اس جھمیلے میں پھنسا رہی ہے۔ سوا سال بیت چکا ہے نو مئی کے ملزمان یا مجرمان کو عدلیہ سے کوئی سزا نہیں ہوئی ہے۔ رفتہ رفتہ یہ کیس بھی وقت کے دھندلکوں میں چھپ جائے گا ۔ہو سکتا ہے کہ آنے والے وقت میں ترجیحات بدل جائیں اور معافی تلافی بھی ہو جائے۔ پھر مسلم لیگ نون بھی اپنی خفت مٹانے کے لیے یہ کہتی پھرے گی کہ ہم نے اپنے طور پر یہ فیصلہ نہیں کیا تھا۔
ہم پر دباؤ تھا، جس طرح مسلم لیگ نون کے خلاف کی جانے والی زیادتیوں کے بارے میں PTI کی قیادت حکومت کے جانے کے بعد کہتی رہی ہے۔ مسلم لیگ نون اپنا دامن کیوں داغدار کر رہی ہے۔ جمہوری اور سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف پابندیاں لگانے کی باتیں نہیں کیا کرتی ہیں۔ یہ اقدام آئین و دستور کے مطابق بھی تصور نہیں کیا جاتا ہے اور ہماری عدلیہ آج جس مقام پر کھڑی ہے وہ ایسی کسی بھی تجویزکی حمایت نہیں کرسکتی ہے۔ پھر ایسا سوچ کر کیوں اپنے لیے سیاسی خفت کا سامان کیا گیا۔ جب اچھی طرح معلوم ہے کہ PTI پر پابندی کا فیصلہ فورا ہی باؤنس بیک ہوجائے گا۔ عوام تو عوام کوئی باشعور اور سمجھ دار شخص بھی کسی ایسے فیصلے کی حمایت نہیں کرسکتا ہے۔
حکومت کو چاہیے ایسے کاموں میں وقت اور توانائی ضایع کرنے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں پر اپنی توجہ مرکوز کرے۔PTI کی سیاست کا مقابلہ اپنی کارکردگی کے ذریعے ہی کرے۔ عوام کو اگر اس بار ریلیف نہیں ملا تو خود اس کا اپنا بوریا بستر ہی گول ہوجائے گا اور پھر کوئی اتحادی اس کے کام نہیں آئے گا۔ جب برا وقت آتا ہے تو سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں بلکہ سب اپنی اپنی گردنیں بچانے لگتے ہیں۔
حکومت ہوش کے ناخن لے اور اپنی ساری توجہ ملک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی پر مرکوز کرے۔ اس کے پاس وقت بہت کم ہے، اگر اس نے اس مختصر دور میں ملک وقوم کو مشکلات سے باہر نکال دیا تو پھر اس کی بقاء کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ بصورت دیگر اس کے لیے اگلا الیکشن بھی جیتنا مشکل ہوجائے گا۔