یہ ستر کی دہائی کا وہ دور تھا جسے اگر پاکستانی فلمی صنعت کے عروج کا دور کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب ہمارے شہر کے سینما گھروں میں کوئی نئی فلم آنے والی ہوتی تو ہاتھ سے بنے پوسٹرز تانگوں کے اردگرد لگائے جاتے۔ تانگے میں ایک ڈھول والا یا کوئی باجے والا موجود ہوتا جو اپنی تھاپ یا ساز سے لوگوں کو اپنی جانب کامیابی سے متوجہ کرتا۔
اس وقت ایک فلم کے تین شو ہوتے تھے۔ فلم یا اداکار کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ پہلے شو میں ہی ہوجاتا تھا۔ سینما بین کو تین طرح کی سہولیات میسر تھیں، پہلے نمبر پر ہال، پھر گیلری اور پھر باکسز بنے ہوتے تھے۔ اس فرق کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے جیسے آج کے مسافر طیارے میں اکانومی، بزنس اور فرسٹ کلاس۔ جبکہ ہفتہ وار ایک دن ایسا بھی مقرر ہوتا تھا جس دن صرف خواتین ہی فلم شو دیکھ سکتی تھیں۔
لوگوں کے پاس آج جتنے تفریحی مواقع بھی نہ تھے، ریڈیو، فلم اور تھیٹر کے علاوہ کوئی ذریعہ نہ تھا۔ ٹیلی ویژن ابھی اس طرح پھلا پھولا نہیں تھا، دوسری طرف تھیٹر کی اگر بات کریں تو اس میں موضوعات محدود تھے۔ تاریخی قصے، کہانیاں اور واقعات کا بیان گانوں کی صورت میں ہوتا تھا اور موسیقی حاوی تھی۔
اگر ہم فلم کی بات کریں تو اس کی اپنی ہی جداگانہ تاریخ اور مزاج رہا ہے۔ لامحدود موضوعات، مخصوص موسیقی، آلات و تکنیک، کہانی اور پھر بہترین اداکاری۔ لوگوں کی اپنے پسندیدہ ہیرو، ہیروئن اور ولن سے محبت اس قدر سادہ اور شدت والی ہوتی تھی کہ جب پردہ اسکرین پر ان کا من پسند ہیرو آتا تو وہ کرسیوں سے اٹھ کر سیٹیوں اور تالیوں سے اس کا استقبال یوں کرتے جیسے وہ پردہ اسکرین پر نہیں بلکہ حقیقت میں ان کے سامنے آکھڑا ہوا ہو۔ لوگوں کی محبت اپنے من پسند اداکار یا اداکارہ کےلیے اس قدر تھی کہ جہاں انہیں دیکھتے دیوانہ وار ان پر لپکتے۔ ایسا ہی ایک واقعہ اس اداکار کے ساتھ ہوا جن کی گاڑی ایک بار راستے میں کہیں خراب ہوگئی تو ان کے چاہنے والوں نے ان کے کپڑے تک پھاڑ دیے۔ جی ہاں یہاں ذکر ہورہا ہے ایک ایسے بہترین اداکار کا جسے ہم شاہد کے نام سے جانتے ہیں۔
ایک انٹرویو میں جب شاہد سے فلمی دنیا میں آنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اپنی مخصوص بے ساختگی سے جواب دیا کہ ایک بار کسی فلمی پروڈیوسر سے ملاقات ہوگئی تو اس نے دیکھتے ہی کہا کہ تم تو دلیپ کمار ہو اور وہ مجھے ایک دوسرے پروڈیوسر کے پاس لے گیا۔ انہوں نے مجھے ایک ڈائیلاگ بولنے کا کہا مگر میری حالت بہت بری تھی۔ ظاہر ہے میں نے تو ایسا کچھ سوچا نہیں تھا۔ انہوں نے مجھے بٹھا لیا اور مجھے کافی حد تک نارمل کیا اور تب میں نے جب وہ ڈائیلاگ بولا تو بس پھر یہ میری آمد تھی اور وہ ڈائیلاگ تھا ''اقبال پانی دا گلاس لاؤ''۔
شاہد کی پہلی فلم آنسو تھی جو 1971 میں ریلیز ہوئی۔ اپنی مشہور فلموں انمول اور تہذیب کے بارے میں شاہد کا کہنا تھا کہ اس میں ان کا رول ایک پاگل اور ذہنی معذور کا تھا، جس کےلیے وہ باقاعدہ پاگل خانے گئے اور وہاں وقت گزارا اور پاگلوں کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کیا۔ فلم انمول میں ان کا کردار ذہنی معذور کا تھا۔ اس کے پیچھے وہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار جب وہ گھر واپس آرہے تھے تو راستے میں انہوں نے 20/25 سالہ ذہنی معذور کو دیکھا جو سائیکل چلا رہا تھا۔ وہ اسے گلبرگ میں اپنے گھر لے آئے اور چار پانچ دن اس کا مشاہدہ کرتے رہے اور پھر جب انہوں نے اداکاری کی تو یہ دونوں فلمیں اپنے دور کی سپرہٹ ثابت ہوئیں۔
یہ وہ دہائی تھی جب اردو فلمیں اپنے عروج پر تھیں اور پردہ اسکرین پر فلم اسٹار ندیم، وحید مراد اور محمد علی چھائے ہوئے تھے۔ ایسے میں ایک اور اداکار کا جگہ بنانا اور کامیاب ہونا آسان نہیں تھا۔ مگر شاہد کی سحر انگیز شخصیت، چال ڈھال اور ڈائیلاگ ڈلیوری نے انہیں فلمسازوں کی مجبوری بنا دیا تھا۔ ان میں لالچ نہ ہونے کی بنا پر ہر فلمساز انہیں مرکزی کردار آفر کرتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وحید مراد کی فلموں کی تعداد گھٹتی گئی۔ ایک واقعے کا ذکر شاہد یوں کرتے ہیں کہ ایک وقت آیا جب اداکارہ وحید مراد پروڈیوسرز کی بے رخی کا شکار ہوکر تنہائی کا شکار ہوچکا تھا۔ ایک دن وہ مجھے خود ملا اور میں نے اسے گلے سے لگایا اور ایک فلم آفر کی کہ اس میں سرمایہ بھی لگاؤں گا اور بطور آرٹسٹ کام بھی کروں گا، مرکزی کردار وحید مراد کا ہی ہوگا۔ فلم شروع ہوئی، اس کا نام ''مقدر'' تھا۔ مگر اسی دوران وحید مراد کا انتقال ہوگیا اور وہ پروجیکٹ ادھورا ہی رہ گیا۔ وحید مرادکے بارے میں آج بھی ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک باکمال اداکار تھا اور اس جیسا ایماندار میں نے کوئی نہیں دیکھا۔ ایک ایک پیسے کا حساب لکھ رہا تھا یہاں تک کہ چائے وغیرہ کا بھی حساب کتاب میں ذکر تھا۔
شاہد نے ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے، جن میں ''یہ آسمان، تہذیب، امراؤ جان ادا، ٹھاہ، بہاروں کی منزل، انمول، دیدار، نوکر وہٹی دا، بن بادل برسات، تیرے میرے سپنے، ایک گناہ اور سہی، زینت، شبانہ، ثریا، بیگم جان، شمع محبت، سیتا مریم مارگریٹ، مسٹر رانجھا، خوشبو، آپ کی خاطر، چھوٹے نواب، بڑا آدمی، مرزا جٹ، دو ہتھکڑیاں، چن پنجاب دا'' شامل ہیں۔ اس دور کی صف اول کی اداکاراؤں، جن میں شبنم، زیبا، رانی، سنگیتا اور شامل تھیں، ان کے ساتھ کامیاب فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ امراؤ جان ادا ان کی ایک شاہکار فلم تھی، جس میں ان کے مدمقابل رانی نے ایک طوائف کا کردار ادا کیا جبکہ خود ان کا کردار (نواب سلیم) اپنی جگہ لازوال تھا۔
شاہد کی صلاحیتوں کے اعتراف میں انہیں کئی ایوارڈ بھی دیے گئے۔ وہ اپنی لازوال و بااعتماد اداکاری اور مقناطیسی شخصیت کی وجہ سے آج بھی کشش رکھتے ہیں۔ شاہد 24 جولائی 1950 کو پیدا ہوئے۔ اس بلاگ کا مقصد انہیں خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ ان کے چاہنے والے آج بھی ان کی اداکاری سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں اور یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ہماری فلمی تاریخ کے ان ستاروں کو گم نہ ہونے دیا جائے بلکہ یہ موجودہ اداکاروں کےلیے مشعل راہ بنیں تاکہ ان کے کام میں بھی پختگی آئے اور ان کی اداکاری بھی انہیں امر کردے۔ ایک بہترین اور منجھا ہوا فنکار وہی ہوتا ہے جو سوشل میڈیا یا موبائل اسکرین سے زیادہ اپنے چاہنے والوں کے دل و دماغ میں رہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔