برآمدات کا ہدف بہترحکمت عملی کا متقاضی
معیشت کو واپس ٹریک پر لانے کے لیے متبادل توانائی کے منصوبے بنانا ہوں گے
وزیراعظم شہباز شریف نے ملکی برآمدات کو 60 ارب ڈالر سالانہ پر پہنچانے کا ہدف دیتے ہوئے ہدایت کی کہ وزارتِ تجارت و متعلقہ ادارے آیندہ تین برس میں برآمدات کے 60 ارب ڈالر کے ہدف کے لیے عملی اقدامات کریں۔ دوسری جانب پاکستان اور ترکمانستان کا معیشت دفاع سمیت تمام شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوگیا ہے۔
بلاشبہ ملک کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے برآمدات میں اضافے پر مبنی حکمت عملی کی تشکیل، معاشی خود مختاری کی جانب پیش رفت کی مثبت علامت ہے۔ ہم ان سطور میں چند اہم شعبہ جات کو بطور مثال پیش کریں، جن میں بہتر منصوبہ بندی سے برآمدات کے ہدف تک پہنچنے میں آسانی ہوگی۔ بلوچستان میں معدنیات بالخصوص گریفائٹ جیسی قیمتی دھات وافر مقدار میں پائی جاتی ہے، جس سے ہم استفادہ کرکے بھاری زر مبادلہ کما سکتے ہیں۔
شعبہ زراعت اور فشریز میں بہت بہتری کی گنجائش ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے معدنیات اور زرعی وسائل کو ترقی دینے کے لیے پالیسی سطح پر منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے، اسی طرح اسمال میڈیم انٹرپرائز کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ملک بھر میں چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کا جال پھیلانے سے ملک میں روزگار اور ترقی کے مواقعے پیدا کیے جاسکتے ہیں۔
اس مد میں قوانین اور ضوابط کو بھی کاروبار دوست بنانا ہوگا۔ معیشت کو واپس ٹریک پر لانے کے لیے متبادل توانائی کے منصوبے بنانا ہوں گے اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ فاضل پانی کو صاف کر کے صنعتوں کو فراہم کرنے کی جدید ٹیکنالوجی پر کام کرنا ہوگا اور ہائیڈروجن اکنامی کی جانب پیش قدمی شروع کرنی ہوگی۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ روایتی طور پر پاکستان کی برآمدات کا زیادہ تر انحصار اسی شعبے پر ہے۔
یہ شعبہ ملک میں روزگار کی فراہمی کا بھی سب سے بڑا ذریعہ ہے، جس سے نہ صرف لاکھوں مزدوروں کا روزگار وابستہ ہے بلکہ ٹیکسٹائل ویلیو چین میں شامل دیگر کئی سیکٹرز میں کاروباری سرگرمیوں کا انحصار بھی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے فروغ پر منحصر ہے، تاہم آئی ایم ایف پروگرام کے مالیاتی اہداف پورے کرنے کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے باعث یہ شعبہ پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے، چنانچہ بہت سی ٹیکسٹائل ملز پہلے ہی جزوی طور پر بند ہوچکی ہیں اور جہاں کچھ نہ کچھ کام ہو رہا ہے وہاں بھی حالات سازگار نہیں۔ بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں کمی اور دیگر مسائل کے باعث صنعتی عمل پہلے ہی زوال پذیر ہے۔
ایسے میں یہ ضروری ہے کہ برآمدات بڑھانے کے لیے ٹیکسٹائل انڈسٹری پر خصوصی توجہ دی جائے۔ اس سے نہ صرف پاکستان کی معاشی مشکلات میں کمی آئے گی بلکہ ملک میں روزگار کی فراہمی میں بھی اضافہ ہو گا۔ ٹیکسٹائل کے شعبے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے ذریعے برآمدی مراعات کی فراہمی اور پاکستانی برآمد کنندگان کے لیے مارکیٹ تک رسائی کو بہتر بنانے سے برآمدی حجم کو بڑھانے اور تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ پاکستان نعمتوں سے مالا مال ہے، جس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے بہترین افرادی قوت پیدا کرنی ہے۔ کالے دھن کے مالک لوگوں کو ایمنسٹی اسکیم دے کر ملک میں ایمانداری سے ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ پاکستان کے شعبہ سیاحت میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی بہت گنجائش ہے۔ بلاشبہ ملکی برآمدات کو بڑھانے کے لیے ہمیں ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ دوست ممالک اور آئی ایم ایف کی جانب سے مثبت پیش رفت سامنے آرہی ہے۔
دوسری جانب عالمی اقتصادی غیر یقینی صورتحال کے درمیان پاکستان کی مارکیٹ کی لچک اور ترقی کی صلاحیت نے منافع بخش مواقعے کی تلاش میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کیا ہے، حکومت کی حالیہ پالیسیوں کا مقصد مارکیٹ کی شفافیت کو بڑھانا اور ریگولیٹری اصلاحات نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو تقویت دی ہے، جس سے غیر ملکی سرمائے کی آمد میں مدد ملی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے کو پاکستان کی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے نئے اعتماد کا اشارہ ہے۔ اس سے مالیاتی منڈیوں میں جان ڈالنے ، اقتصادی ترقی کو تحریک دینے اور ملک میں سرمایہ کاری کے مزید مواقعے کی راہ ہموار کرنے کی توقع ہے۔
وسط ایشیائی ریاستیں، مشرقِ وسطیٰ اور خلیجی خطے کی ریاستوں کے ساتھ اقتصادی تعلقات پاکستان کی معیشت کو فروغ دینے کے لیے اہم ہیں۔ ان کی اہمیت یوں مزید بڑھ جاتی ہے کہ اگست 2019سے بھارت کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات معطل ہیں اور کابل میں طالبان حکومت کی وجہ سے افغانستان کے ساتھ معاشی بات چیت بھی اکثر مشکلات کا شکار رہتی ہے، یہ امر غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کا سبب ہیں۔ ایک اور حوصلہ شکن عنصر دہشت گردی ہے، خاص طور پر چینی کارکنوں پر حملے۔ یہ صورتحال پاکستان میں بڑے منصوبے شروع کرنے کے لیے بیرونی ممالک کے سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کا باعث ہے۔دوسری جانب عالمی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن پر اب ہمیں اپنی معاشی پالیسیاں ترتیب دینی پڑتی ہیں اور بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا فارمولا بھی عالمی مالیاتی ادارے طے کر کے دیتے ہیں جس پر عملدرآمد کے باعث عام عوام خود کشیاں کرنے کی نوبت تک پہنچ چکے ہیں۔
عوام بھی قرض لینے کے سخت مخالف ہیں۔ سی پیک منصوبہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی سب سے بڑی مثال ہے کہ چین نے اربوں ڈالر براہ راست پاکستان میں خرچ کر کے پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر کا آغاز کیا۔ اس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان کو بہت زیادہ فوائد حاصل ہوں گے جب کہ چین کی سرمایہ کاری پر اسے مناسب فوائد حاصل ہوتے رہیں گے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے جب سے عسکری قیادت سنبھالی ہے، انھوں نے پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری لانے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے کے اقدامات بہت ضروری ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی پاکستان میں جائیدادوں، اثاثوں اور کاروبار کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جائیں اور ملک بھر میں کہیں بھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جائیدادوں اور اثاثوں پر قبضوں کا معاملہ سامنے آئے، اسے پہلی ترجیح میں حل کرنے کے لیے نہ صرف واضح اعلانات کیے جائیں بلکہ ایسا پورٹل بنایا جائے جس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے درخواستیں اور اس پرکارروائی کا سارا عمل مکمل ہو۔ کسی کی جائیداد پر غیر قانونی قبضے کو واگزار کرنے کے لیے قانون تو موجود ہے جس میں جج 3ماہ میں فیصلہ کر کے قابض شخص کو بھاری جرمانے اور سزائیں دے سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں دیوانی مقدمات تیسری نسل تک چلتے رہتے ہیں اور فیصلے نہیں ہوپاتے۔
اس لیے جب تک اس قانون پر سختی سے عملدرآمد کر کے لینڈ گریبرز مافیا کو نشان عبرت نہیں بنادیا جاتا، اس وقت تک بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا اعتماد بحال نہیں ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ اس سلسلے میں مزید موثر قانون سازی کرکے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو فوری انصاف کی فراہمی کا طریقہ کار وضع کرے۔ پاکستان معدنی، قدرتی وسائل اور دنیا کی تمام نعمتوں سے مالا مال ملک ہے اور یہاں دنیا کے ہر شعبے میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقعے موجود ہیں اور پاکستان میں سرمایہ کاری پر مناسب ترین منافع بھی ملتا ہے، اسی لیے دنیا کے بڑے برانڈ کئی دہائیوں سے پاکستان میں مسلسل اپنے نیٹ ورک میں اضافہ کرکے بھاری منافع کما رہے ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان میں لاکھوں لوگوں کو روزگار بھی ملا ہوا ہے اور حکومت کو بھاری ٹیکس بھی ملتا ہے۔
برادر اسلامی ممالک کو بڑے قومی اداروں میں 52%کی شراکت داری دینے کی پیشکش کی جائے جس سے ہمارے بڑے قومی ادارے ایک بار پھر بھاری منافع میں چلے جائیں گے تو دوسری جانب معیشت پر بوجھ بھی ختم ہوگا اور حکومت کو غیر ملکی سرمایہ کاری سے بھاری ٹیکس آمدن ملے گی اور لاکھوں لوگوں کو روزگار کے نئے مواقع میسر آئیں گے۔
پاکستان میں زراعت کے شعبے میں جدید ترین سہولتیں استعمال کر کے خوراک کی عالمی منڈیوں تک رسائی، ڈیری اور گوشت کی صنعتوں میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقعے موجود ہیں۔ اسی طرح معدنیات کے شعبے میں پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے تمام قدرتی وسائل بھی موجود ہیں۔ صرف محنت کی ضرورت ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو سہولتیں اور آسانیاں فراہم کرکے بہت تیز رفتاری سے غیر ملکی سرمایہ کاری پاکستان میں بڑھائی جاسکتی ہے۔
اب امید ہوچلی ہے کہ عنقریب پاکستان کو امداد و قرض سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی اور پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری سے بے روزگاری میں نمایاں کمی ہونے کے ساتھ ساتھ معیشت بھی تیزی سے مستحکم ہوجائے گی۔ اسی طرح ڈالر کی قدر میں مسلسل کمی ہوتی جارہی ہے اور مہنگائی کی شرح میں بھی مسلسل کمی ہونے سے ملک مثبت اعشاریوں کی جانب گامزن ہے۔