بچوں پر تشدد کے واقعات ملزمان کو سزا ملنے کی شرح 3فیصد سے بھی کم ہے

زیادہ تر مقدمات میں ملزمان سے صلح کرلی جاتی ہے اور کیس ختم ہو جاتا ہے


آصف محمود July 25, 2024
(فوٹو فائل)

بچوں پر جنسی، جسمانی تشدد کرنے والوں کے خلاف مقدمات تو درج کر لیے جاتے ہیں لیکن کیس مینجمنٹ اینڈ ریفرل سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے تشدد کا شکار اکثر بچوں کے ورثا کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کا کیس اب کس سطح پر ہے، اس وجہ سے زیادہ تر مقدمات میں ملزمان سے صلح کرلی جاتی ہے اور کیس ختم ہو جاتا ہے۔

بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کے مطابق بچوں کے تشدد کے واقعات میں ملزمان کو سزا ملنے کی شرح بمشکل تین فیصد تک ہے۔

گزشتہ سال 24 جولائی کو اسلام آباد میں ایک 12 سالہ گھریلو ملازمہ رضوانہ پر سول جج کے گھر تشدد کا واقعہ سامنے آیا تو ہر دل لرز اٹھا تھا۔ پولیس، وزارت انسانی حقوق اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو نے واقعے کا نوٹس لیا۔ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا لیکن سوائے سول جج کو او ایس ڈی بنائے جانے کے آج ایک سال بعد بھی ملزمان کو کوئی سزا نہیں مل سکی اور مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔

بدترین تشدد کا شکار گھریلو ملازمہ رضوانہ کو علاج کے لیے اسلام آباد سے لاہور کے جنرل اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں سرجری اور علاج معالجے کے بعد بچی کو چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو لاہور کی تحویل میں دیا گیا۔ یہ بچی اور اس کے ورثا ابھی تک انصاف کے منتظر ہیں۔

اسی طرح 14 فروری 2024 کو جوہر ٹاؤن لاہور میں ایک 10 سالہ گھریلو ملازمہ گلناز فاطمہ کو ملزم جاوید اقبال اور انکی اہلیہ نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ پولیس نے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا جبکہ تشدد کا شکار بچی چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی تحویل میں ہے۔ اس بچی پرتشدد کا کیس چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں بنائی گئی پہلی ماڈل عدالت میں زیر سماعت ہے۔

تشدد کا شکار بچی رضوانہ کی والدہ شمیم بی بی اور گلناز فاطمہ کی والدہ ممتاز بی بی کہتی ہیں کہ وہ اپنی بیٹیوں پر تشدد کرنے والے ملزمان کو سزا ملنے کی منتظر ہیں، پولیس اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو نے ان کی بہت مدد کی ہے۔ ان کے کیس عدالتوں میں ہیں، وہ پرامید ہیں کہ انہیں ایک نہ ایک دن انصاف ضرور ملے گا۔

رضوانہ کی والدہ شمیم بی بی نے بتایا وہ نہیں جانتی کہ ان کی بیٹی کے کیس میں وکیل کون ہے اور انہیں فیس کون ادا کر رہا ہے۔ تاہم ان پر مختلف افراد نے صلح کے لیے دباؤ ضرور ڈالا، انہیں پیسے دینے کی آفر بھی کی گئی لیکن وہ چاہتی ہیں کہ انہیں انصاف ملنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ سرگودھا میں رہتی ہیں، کیس اسلام آباد کی عدالت میں ہے جبکہ ان کی بیٹی لاہور میں ہے۔ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ ہر پیشی پر اسلام آباد عدالت جا سکیں یا اپنی بیٹی سے ملنے لاہور جا سکیں۔

گلناز فاطمہ کا کیس تو ابھی چار ماہ پہلے شروع ہوا جبکہ رضوانہ کے کیس کو ایک سال ہوگیا ہے۔ یہ کیس مزید کتنا عرصہ چلے گا اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے تعاون سے غیر سرکاری تنظیم ساحل نے 2023 میں بچوں پر جنسی، جسمانی تشدد کے واقعات کی رپورٹ مرتب کی تھی جس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں مجموعی طور پر 4213 واقعات رپورٹ ہوئے۔ متاثرین میں 2251 (%53) لڑکیاں اور 1962 (47%) لڑکے تھے۔

بچوں کے استحصال کے کل 4213 کیسز میں سے 75 فیصد پنجاب، 13 فیصد سندھ، سات فیصد اسلام آباد، تین فیصد خیبر پختونخوا اور دو فیصد بلوچستان، جموں و کشمیراور گلگت بلتستان سے رپورٹ ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق صرف بچوں کے جنسی استحصال کے کیس 2021 تھے۔ ریپ کے بعد قتل کے کل 61 واقعات اور اغوا کے 1833 واقعات رپورٹ ہوئے۔ اسی طرح 121 بچوں کی تشدد سے اموات ہوئیں، 111 زخمی ہوئے، 110 نے خودکشی کی جبکہ 103 کو بجلی کے جھٹکوں سے مارا گیا۔ رپورٹ شدہ ان واقعات میں سے 91 فیصد پولیس کے پاس رجسٹرڈ ہیں لیکن ان مقدمات میں ملزمان کو سزا ملنے کی شرح بمشکل تین فیصد یا اس سے بھی کم ہے۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم سرچ فار جسٹس کے سربراہ افتخار مبارک کہتے ہیں کہ ہماراعدالتی نظام سب کے سامنے ہیں۔ اس طرح کے مقدمات میں اگر ملزم طاقت اور بااثر ہو تو مقدمات سالوں چلتے رہتے ہیں جبکہ مدعی بھی عدالتوں میں پیشیوں، وکلا کی فیس، آنے جانے کے اخراجات سے تنگ آکر یا کسی اور مجبوری، پیشکش کی وجہ سے ملزمان سے صلح کر لیتے ہیں۔

افتخار مبارک کہتے ہیں کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے کیسوں میں خود ریاست مدعی بنے اور سرکاری وکلا کیس لڑیں لیکن ہمارے یہاں سرکاری پراسیکیوٹرز کی تعداد کم جبکہ کیس بہت زیادہ ہیں۔ چائلڈ پروٹیکشن پالیسی کے ڈرافٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ ایسے مقدمات میں بہترین اور قابل وکلا کی خدمات حاصل کی جائیں گی لیکن ان وکلا کی فیس کون ادا کرے گا۔ اس بارے کچھ واضع نہیں کیا گیا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تشدد کا نشانہ بننے والے بچوں کے ورثا کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے بچے کا کیس لڑنا کس محکمے کی ذمہ داری ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید پولیس اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو ہی سب کچھ کریں گے۔ اسی لیے ہمارا یہ طویل عرصہ سے مطالبہ رہا ہے کہ کیس مینجمنٹ اینڈ ریفرل سسٹم ہونا چاہیے تاکہ جب ایک کیس رجسٹرڈ ہو جائے تو خودبخود وہ متعلقہ محکمے کو منتقل ہو جائے اور تمام متعلقہ محکموں کو معلوم ہوکہ کیس کی اب کیا نوعیت ہے۔

چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئرپرسن اور پنجاب اسمبلی کی رکن سارہ احمد نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ کیس مینجمنٹ اینڈ ریفرل سسٹم، چائلڈ پروٹیکشن پالیسی کا حصہ ہے۔ پالیسی حتمی منظوری کے لیے صوبائی کابینہ کو بھیجی جا چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کابینہ کی منظوری کے بعد جب چائلڈ پروٹیکشن پالیسی کا نفاذ ہوگا تو کیس مینجمنٹ و ریفرل سسٹم بھی کام شروع کر دے گا، یہ سسٹم یونیسف نے تیار کیا ہے۔

سارہ احمد کے مطابق اس سسٹم سے چائلڈ پروٹیکشن بیورو، بیورو، محکمہ صحت، لیبر ڈیپارٹمنٹ اور پراسیکیوشن ایک ہی پیج پر آجائیں گے۔ ایک ڈیش بورڈ کے ذریعے تشدد کا شکار بچے کا کیس سب کے پاس ہوگا جبکہ مدعی کو بھی معلوم ہوگا کہ ان کا کیس اب کس سطح پر ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم شریف کو تجویز دی ہے کہ جس طرح خواتین کے لیے ورچوئل پولیس اسٹیشن بنایا گیا ہے اسی طرح بچوں کے لیے بھی ورچوئل پولیس اسٹیشن بنایا جائے۔ اس سے بچوں پر تشدد کرنے والے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے اور متاثرہ خاندانوں کو جلد سے جلد انصاف فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔