صورت حال کا جائزہ لیجیے
دوسری طرف پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے بھی تند و تیز بیان دیا ہے
پچھلے دنوں قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے سلسلے میں جو فیصلہ ہوا اس پر ملک کے مختلف حلقوں میں بڑی لے دے ہو رہی ہے۔ خصوصاً مرکزی حکومت میں شامل جماعتوں نے اس فیصلے پر اپنے شدید ردِ عمل کا اظہارکیا ہے۔ مسلم لیگ نواز کے سینیٹر عرفان صدیقی نے اس فیصلے پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ مخصوص نشستوں کے مقدمے میں آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ ملک میں ابہام، بحران اور کنفیوژن پیدا ہوئی ہے۔ 'پی ٹی آئی' کے لیے وسیع تر انصاف کا تصور پیدا ہوا ہے۔
دوسری طرف پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے بھی تند و تیز بیان دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا فیصلہ عدم استحکام کی کوشش ہے، میں کہتی ہوں کہ خدارا ملک کو چلنے دیں۔ یہ فیصلہ دراصل آئین کو 'ری رائٹ' کرنے کی کوشش ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ گزشتہ کئی ماہ سے جو عدالتی فیصلے آ رہے ہیں ان پر تنقید ہو رہی ہے اور یہ ملک اور اس کے مستقبل کے لیے کوئی خوش گوار صورت حال نہیں۔ ایسا عدم اعتماد اور متنازع صورت حال کسی کے لیے بھی خوش آئند نہیں کہی جا سکتی۔
اب اگر تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دیے جانے کے اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل کی جائے، تو اسے وہی بینچ سنے گا، جس نے یہ فیصلہ کیا ہے، مگر اسی کے دو جج صاحبان کا فیصلہ دے کر رخصت پر چلے جانا اس بات کا غماز ہے کہ اس پر فی الحال نظرثانی بھی ممکن نہیں رہی۔ دیکھتے ہیں کہ اس کی کیا صورت بنتی ہے، اگر فیصلہ برقرار رہا تو پھر موجودہ حکومت کے مستقبل کے مخدوش ہونے کا اشارہ ملے گا اور اگر یہ فیصلہ بدل جاتا ہے تو پھر دوبارہ تحریک انصاف کی جانب سے اپنی تنقید کا رخ عدالتوں کی جانب کرلیا جائے گا۔ یعنی یہ کتنا آسان ہوگیا ہے کہ جب فیصلہ آپ کے حق میں آئے تو نظام بہت اچھا ہے اور جوں ہی پسند کا فیصلہ نہ ہو تو آپ ایک پل کے اندر سارے نظام کو خراب قرار دے دیں اور دوبارہ حق میں فیصلہ آجائے تو پھر یہ 'حق کی فتح' ہو جائے۔
سیاسیات میں کسی بھی مملکت کے لیے جو تین، چار بنیادی ستون بیان کیے جاتے ہیں، اگر وہی ریاستی امورکے بہتر طور پر چلنے دینے میں رکاوٹ بنیں، تو پھر اس ملک کا مستقبل داؤ پر لگ سکتا ہے۔ ان ستونوں میں سب سے اہم ستون عدلیہ کا ہے، کیوںکہ دستورکی تعبیر و تشریح اور انصاف کی فراہمی کے لیے صرف اور صرف عدلیہ سے ہی رجوع کیا جا سکتا ہے اور اسی سے انصاف کی توقع کی جا سکتی ہے، اس پر عوام اور خواص سب کا مکمل بھروسا اور اعتماد ہونا ضروری ہے۔ اس حوالے سے ایسی باتیں ہونے پر ہم سب کو سوچنا چاہیے، لیکن اگر ایسا تاثر ہوکہ عدلیہ قانون اور دستور کے مطابق فیصلے نہیں کر رہی تو پھر اللہ ہی اس ملک کا محافظ و نگہبان ہوتا ہے۔
ایک اور خبر جو بہت سے اخبارات کی زینت بنی ہے، وہ خاصی مضحکہ خیز ہونے کے ساتھ ساتھ ' ہلاکت خیز' بھی قرار دی جا سکتی ہے، اگر قانون کے ساتھ اس نوعیت کی چھیڑ چھاڑ جاری رہے تو یہ اہل خرد کے لیے تشویش کی بات بھی ہے اور ہمارے لیے پریشانی کا سبب بھی۔ خبر کی صداقت پر گفتگو کی جائے تو یہ دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ خدا کرے یہ خبر بھی غلط ہو۔
تفصیل اس کی یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے گزشتہ دنوں عاشورے کے انتظامات کے معائنے کے لیے جس گاڑی پر سوار ہوکر جیکب آباد کا دورہ کیا وہ نہ صرف یہ کہ پچھلے ڈھائی سال سے محکمہ ایکسائزکی نادہندہ ہے، اس پر طرہ یہ کہ یہ گاڑی 'نیب زدہ' بھی ہے، اس کے کاغذات ضبط کیے جا چکے ہیں۔ایک صوبے کے سربراہ کا ایک ایسی گاڑی پر جس پر ایسے شدید الزامات عائد ہوں استعمال کرنا اچنبھے کا باعث ہے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو جس نے بھی یہ گاڑی فراہم کی، اس کے خلاف کارروائی ہونا ضروری ہے۔ اس سے نہ صرف حکومت سندھ کی بدنامی ہوئی ہے، بلکہ صوبے کا وزیراعلیٰ اب کسی گاڑی میں سوار ہونے سے قبل اس کے کاغذات کا معائنہ تو نہیں کرتا، یہ تو اس کے معاون عملے اور تحفظ کے ذمے داران کا فرض تھا کہ وہ ایسی گاڑی میں ہرگز چیف منسٹر کو سوار نہ کرواتے جس کے کاغذات اور دیگر امور حکومتی اداروں کے زیر عتاب ہوں یا ضبط کر لیے گئے ہوں۔
یہ اگر غفلت ہے تو ناقابل معافی ہے اور اگر کسی بھی قصد اور ارادے کو اس میں داخل ہے، تو پھر یہ وزیر اعلیٰ کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے۔ ہم نے تو سوچا تھا کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس خبر میں صداقت کتنی ہے؟ مگر اخبارات کی زینت بننے کے بعد سے تادم تحریر اس خبرکی تردید کسی حکومتی ادارے کی طرف سے نہ ہونا کم تعجب خیز نہیں۔اگر اتنی اہم شخصیات کو بھی ہم ایسی مضحکہ خیز صورت حال سے نہ بچا سکیں تو پھر اس کے تحفظ کی تو ضمانت ہی نہیں دی جا سکتی۔ اس لیے خود وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے حفاظتی انتظامات پر بھی نظرثانی کی جانی چاہیے۔