آپریشن ضرب عضب سیاسی مفاہمت وقت کی ضرورت

پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اس کی حکومت تعمیر و ترقی کے اپنے ایجنڈے کی اہمیت و افادیت پر کامل یقین رکھتے ہوئے اپنے۔۔۔


فیاض ولانہ July 02, 2014
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اس کی حکومت تعمیر و ترقی کے اپنے ایجنڈے کی اہمیت و افادیت پر کامل یقین رکھتے ہوئے اپنے فرائض کی بجا آوری پر توجہ مرکوز رکھے۔ فوٹو : فائل

آج ہم اپنی تاریخ کے اہم ترین اور مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں کہ اس سے قبل پاک فوج نے دشمن فوج سے بارہا آمنے سامنے انتہائی جرأت و بہادری سے مقابلہ کیا ۔

مگر ازبک، چیچن اور تاجک دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد سے گوریلا جنگ کا یہ پہلا موقع ہے اور شمالی وزیرستان سے اب تک موصولہ اطلاعات کے مطابق پاکستان ائیرفورس کی بھرپور فضائی کارروائیوں کے نتیجے میں شمالی علاقوں کو اپنے لیے محفوظ پناہ گاہ سمجھنے والے ان دہشت گردوں کو راہ فرار اختیار کرنے کے علاوہ کچھ اور سجھائی نہیں دے رہا۔ یکم رمضان المبارک سے پاکستان کی بری فوج نے بھی شمالی وزیرستان کے خطرناک ترین علاقوں میں زمینی پیش قدمی شروع کر دی ہے۔

آپریشن ضرب عضب کا یہی مشکل ترین مرحلہ تصور کیاجا رہا ہے اور ملکی تاریخ کے اس اہم ترین موڑ پر پوری قوم کو پہلے سے زیادہ متحد ہو کر مسلح افواج کے افسران و اہلکار ان کے پیچھے پوری مضبوطی کے ساتھ کھڑے رہنا ہوگا۔ عمومی سطح پر پاکستان بھر کے عوام اس آپریشن کی اہمیت و افادیت سے آگاہ ہیں اور اپنی فوج کو سپورٹ بھی کر رہے ہیں ۔

مگر پھر بھی ہمارے ذرائع ابلاغ اور اس سے متعلق افراد کی یہ دوہری ذمہ داری بنتی ہے کہ بحیثیت ایک شہری اور ذرائع ابلاغ کے نمائندے کے اپنی ذمہ داریوں سے انصاف کرتے ہوئے نہ صرف پاکستان میں امن عامہ کے دشمنوں کا قلع قمع کرنے کے لیے شروع کیے گئے آپریشن ضرب عضب کی بروقت کوشش کو کامیاب کرنے میں اپنا کردار ادا کریں بلکہ قومی وحدت اور یکجہتی کو نقصان پہنچانیوالے تمام سیاسی و غیر سیاسی عناصر کی حوصلہ شکنی بھی کریں۔

ادارہ منہاج القرآن اور علامہ طاہرالقادری کی لاہور میں واقع ایک رہائش گاہ کے باہر سے بیرئیر ہٹانے کے دوران درجن بھر افراد کی ہلاکتوں کے انتہائی افسوسناک، دل سوز اور ناقابل یقین واقعہ کے علاوہ حکومت وقت مجموعی طور پر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے والی جماعت پیپلز پارٹی نے بھی اب تک آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے سنجیدگی، پاک فوج سے بھرپور اظہار یکجہتی اور آئی ڈی پیز کی امداد و بحالی کے کاموں میں قابل تعریف دل چسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔

قومی اسمبلی میں نمبر وں کی گیم میں پیپلز پارٹی سے پیچھے رہ جانے کے باوجود حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ان کی جماعت پاک فوج اور آپریشن کی حمایت کرنے اور آئی ڈی پیز کے لیے عملی طور پر میدانِ عمل میں مصروفِ کار ہونے کے باوجود اپنی قیادت سے لے کر عام کارکن تک کنفیوژن کا شکار نظر آتی ہے۔ ایسی صورت میں سیاسی تجزیہ کار بھی اب اس خوف کا شکار نظر آتے ہیں کہ غیر انتخابی موسم میں بھی اسلام آباد، فیصل آباد اور سیالکوٹ کے ساتھ ساتھ بہاولپور جیسے دور دراز علاقے میں بھی انتہائی کامیاب سیاسی جلسے کرکے اپنی سٹریٹ پاور کا بھرپور اور موثر کن مظاہرہ اور انتہائی خوش آئند سیاسی پریشر گروپ کی شکل اختیار کر جانے والی یہ سیاسی جماعت اگر خدانخواستہ اہم قومی مواقع پر غلط فیصلے کر بیٹھی تو قومی وحدت کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ ایک مدت بعد پاکستان کے سیاسی کھیت میں اگنے والی یہ خوشنما فصل ثمر دینے سے پہلے ہی اجاڑ نہ دی جائے۔

ایک اعتبار سے پاکستان میں فروغ پانے والے جمہوری کلچر کو تہس نہس کرنے کے لیے کینیڈا سے تشریف لائے ہوئے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے اقوال و افکار سے ڈھکے چھپے انداز میں اپنے ارادے ظاہر کر چکے ہیں۔ ان سے زیادہ قابل تشویش اور قابل توجہ کردارسابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین اور سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کا نظر آ رہا ہے انہیں اپنی سیاسی بقاء کی جنگ لڑنے کا پورا پورا حق حاصل ہے مگر اس جائز کوشش میں ناجائز اور ناقابل قبول ارادوں کے حامل اقدامات کا انہیں کس حد تک ساتھ دینا ہے ۔

اس کا فیصلہ انہوں نے اس ملک سے اپنی وابستگی، سابقہ خدمات اور عوام کی ایک قابل ذکر تعداد کی نگاہوں میں اپنے لیے پائے جانے والے احترام کو پیش نظر رکھ کر کرنا ہے۔ علامہ طاہر القادری اس ملک کے ساتھ ساتھ کینیڈا کے ایک انتہائی ذہین و فطین انسان ہیں۔ انکے خیالات سے اتفاق کرنے والوں کی تعداد بھی یقیناً لاکھوں میں ہے اور اگر انہیں اظہار رائے کی آزادی یا دوسرے لفظوں میں کتھارسس کا موقع ہر چند ماہ بعد نہ دیا جاتا رہا تو یہ ان کے ماننے اور چاہنے والوں کے علاوہ خود ان کی صحت کیلئے بھی ٹھیک نہیں اسلئے حکومت وقت انہیں ہر سال ایک آدھ بار ایسا تماشا لگانے کی اجازت دیتی رہے تو اچھا ہے۔

وہ ہم سے کچھ زیادہ کی توقع بھی نہیں کرتے، محض مجمع لگانے اور تقریر کی آزادی چاہتے ہیں البتہ ہمارے انتظامی و قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذمہ داران کو ان سے خائف ہونے کی بجائے انہیں اور ان کے کارکنوں کو جلسہ اور تقریر کی آزادی کی فراہمی یقینی بنا کر ملک کا کارآمد شہری ہی رہنے دیا جائے وہ پڑھے لکھے اور ملکی معاملات و مسائل کو سمجھنے والے اور ان کے بارے میں فکر مند طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اس کی حکومت تعمیر و ترقی کے اپنے ایجنڈے کی اہمیت و افادیت پر کامل یقین رکھتے ہوئے اپنے فرائض کی بجا آوری پر توجہ مرکوز رکھے، اس میں ان کی اور ملک و قوم کی بہتری اور فلاح مضمر ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ تھری جی اور فور جی کی کامیاب نیلامی اور پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ کے حصص کی توقع سے بھی زائد تعداد اور قیمت میں فروخت کے بعد او جی ڈی سی ایل ایسے قومی اہمیت کے دیگر اہم اداروں کی نج کاری کا عمل بھی تیز کیا جا رہا ہے جبکہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں وزیراعظم نواز شریف اب کی بار حجاز مقدس تشریف لے جائیں گے تو ان کی ملاقات خادم الحرمین الشرفین سے بھی ہو گی اور کچھ عرصہ قبل حکومت پاکستان کو دیے گئے ڈیڑھ ارب ڈالر کے تناظر میں جوابی تعاون کی بھی بات ہو گی۔

یوں بھی برادر اسلامی ملک سے ہمیں تحفتاً کچھ دیا جائے یا نہ دیا جائے ہمارے دو طرفہ تعلقات اس بات کے متقاضی ہیں کہ دونوں ممالک کو جب بھی کسی بھی صورت میں ایک دوسرے کی ضرورت پڑی ہمیں تمام مصلحتیں بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے۔ادھر سینٹ کے ایک روزہ خصوصی اجلاس میں حکومت نے ایوان بالا میں اپنی عددی اکثریت نہ ہونے کے باوجود ملک سے دہشت گردی، لاقانونیت، اغواء برائے تاوان جیسی برائیوں کے خاتمے کے لیے اپوزیشن کو قائل کر لینے اوران کی حمایت حاصل کر لینے کے بعد تحفظ پاکستان بل منظور کرا لیا ہے، اب چوبیس گھنٹے کے اندر اندر قومی اسمبلی سے بھی یہ بل منظور کرا لیا جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی اس اہم ترین قانون سازی کے بعد یقین کی حد تک امکان ہے کہ وفاقی اورتمام صوبائی حکومتوں سے وابستہ قانون نافذ کرنے والے ادارے سکھ کا سانس لیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔