پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقررکرنے کا اختیار
بجلی کی طرح پٹرول بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
حکومت وقت تیل کمپنیوں کو کھلی چھٹی دینے کی تیاری کر رہی ہے۔ ڈیلرز و پمپ مالکان ناجائز منافع خوری کے خدشے کے پیش نظر آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقررکرنے کا اختیار دینے پر مخالفت پرکمربستہ ہے۔ قوم پہلے ہی بجلی کمپنیوں کی آئی پی پیز سے نالاں ہے، اب یہ سمجھ لیں پٹرولیم کی آئی پی پیز ثابت ہونے والی ہے۔ اس فیصلے سے پٹرولیم کمپنیاں من مانی کریں گی اور اپنے من پسند ریٹس مقرر کیے جائیں گے، جس سے پوری قوم پر اب بجلی بموں کی طرح پٹرولیم بم گرائے جائیں گے۔
بجلی کی طرح پٹرول بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ برآمد کنندگان ممالک کے لیے یہ سیال سونا ہے اور اس کی کھپت رکھنے والوں کے لیے گزشتہ نصف صدی سے مالیاتی درد سری کا سبب ہے۔ پاکستان کے کئی علاقوں میں تیل اس وقت دریافت ہوا تھا جب مشرق وسطیٰ میں کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ یہ 1960 کی بات ہے جب تیل پیدا کرنے اور برآمد کرنے والے ممالک نے اپنی تنظیم آرگنائزیشن آف پٹرولیم ایکسپورٹنگ کنٹریز (اوپیک) قائم کی ہے۔ اس تنظیم میں زیادہ تر مشرق وسطیٰ کے ممالک ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کا دفتر ''ویانا'' میں ہے۔
1960 تک تیل کی تجارت پر امریکا اور اس کے حلیف مغربی ممالک کی بین الاقوامی کمپنیوں کی اجارہ داری تھی، یعنی کلی اختیارات تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک یا دیگر چند ممالک کے پاس نہیں تھے بلکہ ان مغربی یا امریکی کمپنیوں کو مکمل اختیارات حاصل تھے، لہٰذا زیادہ تر منافع اور دولت دوسرے لے اڑتے اور جو پیداواری ممالک تھے وہ منہ تکتے رہ جاتے۔ بہرحال 1960 کے بعد 10 سال تک اوپیک کی شرائط پر ان اجارہ دار کمپنیوں سے کبھی مذاکرات، کبھی صلاح مشورے چلتے رہے۔ یعنی 10 سال گزر جانے کے بعد بھی ان کمپنیوں نے ہٹ دھرمی سے کام لیا اور اوپیک کی شرائط تسلیم کرنے سے ہی انکارکردیا۔
بات دراصل یہ بھی تھی کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی کمپنیاں ہی مختلف ملکوں میں تیل کی تلاش کا کام کر رہی تھیں۔ 3 مارچ 1938 کو سعودی عرب میں تیل کی دریافت ہوئی۔ دمام کے مقام پر پہلا کنواں اس کے بعد دیگرکنوئیں اور دیگر عرب ممالک میں بھی یہ سلسلہ جاری ہوگیا۔
کمپنیوں نے دونوں ہاتھوں سے عربوں کی اس دولت کو جی بھرکر لوٹا۔ ادھر 1970 تک غیر ملکی کمپنیاں اوپیک ممالک کی شرائط تسلیم کرنے سے انکاری تھیں کہ اوپیک تنظیم کے ممالک نے ہمت سے کام لیتے ہوئے الٹی میٹم دے دیا کہ شرائط تسلیم کر لیں ورنہ تیل کی پیداوار بند کر دی جائے گی۔ چنانچہ اجارہ دار کمپنیوں نے اوپیک شرائط کو تسلیم کر لیا۔ اوپیک نے اپنی طاقت کا لوہا اس وقت منوایا جب مصر، اسرائیل جنگ جس میں دیگر کئی عرب ممالک بھی شامل ہوگئے تھے میں تیل کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا اور پھر مغربی ممالک میں ایک کہرام مچ گیا۔
1973 کے بعد تیل کی قیمتوں میں کئی بار اضافہ کیا گیا۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں خوش حالی آنے لگی، اب یہاں پر مغربی ممالک کی تعمیراتی کمپنیوں نے اس دولت کو دوسرے طریقے سے لوٹنا شروع کردیا۔ ترقیاتی منصوبے، روڈز کی تعمیر، بندرگاہوں، ایئرپورٹس، بڑی بڑی بلڈنگز، محلات، بنگلوں کی تعمیر انھی مغربی ممالک کی کمپنیوں کے ذریعے تشکیل پاتی رہی۔ 1973 کے بعد پاکستان نے یہ فائدہ اس طرح سے اٹھایا کہ بڑی تعداد میں اپنے مزدور، ہنرمند مستری، الیکٹریشن، پلمبرز، کلرک، ڈرائیورز اور دیگر افرادی قوت کو باآسانی ان ملکوں کو فراہم کیا گیا جس سے ڈالرزکی ملک میں ریل پیل ہوئی۔
یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن تعداد کم اور مشکلات زیادہ کھڑی کر دی گئی ہیں۔ پاکستانی حکام اس بارے میں خاموش ہیں اور سعودی عرب کویت اور دیگر ملکوں کو افرادی قوت کی فراہمی میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے، لہٰذا مجبوراً بہت سے افراد غیر قانونی طریقوں سے یورپ میں داخلے کے دوران کشتی میں ڈوب رہے ہیں یا سرحدی محافظوں کے ہاتھوں زخمی ہو رہے ہیں۔ بصورت دیگر ایجنٹس لاکھوں روپے لے کر غائب ہو جاتے ہیں۔
بہرحال بات کر لیتے ہیں کہ پاکستان کتنی مالیت کا پٹرولیم مصنوعات درآمد کرتا ہے۔ جولائی 2023 تا جون 2024 کے دوران پاکستان نے 47 کھرب 81 ارب روپے کی پٹرولیم مصنوعات درآمد کی ہیں۔ گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کے دوران صرف 41 کھرب 81 ارب 63 کروڑ روپے کی درآمد کے باعث 14.33 فیصد کا اضافہ نوٹ کیا گیا۔ جہاں تک خام تیل کی بات ہے تو 90 لاکھ 54 ہزار 5 سو میٹرک ٹن یعنی کروڈ آئل گزشتہ مالی سال درآمد کیا، اس کے بالمقابل مالی سال یعنی جولائی 2022 تا جون 2023 کے دوران 78 لاکھ 23 ہزار 3 سو میٹرک ٹن کروڈ آئل درآمد کیا گیا یوں 15.74 فی صد اضافہ نوٹ کیا گیا۔
اس طرح کھلی چھوٹ دینے سے یہ بات یقینی ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں اور مختلف کمپنیوں کے اسٹیشنوں کے درمیان پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں فرق ہوا۔ اس سلسلے میں دو اہم ترین فریقین کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اسی حکومت نے اگست 2022 میں اعلان کیا تھا کہ تیل کی صنعت کو آزادی دی جائے گی۔ حکومت اس سلسلے میں بہت سوچ بچار اور مختلف فریقین کے مشورے اور بہت سی سخت شرائط کے ساتھ قلیل مدت کے لیے اجازت دے کر نتائج دیکھے۔ بصورت دیگر یہ کمپنیاں بھی آئی پی پیز کی طرح ہونے کا خدشہ ظاہرکیا جا رہا ہے۔
بہرحال حکومت ہر حال میں مہنگائی کو کم سے کم کرنے اور عوام کے بھرپور مفاد کا خیال کرکے کوئی قدم اٹھائے۔ کیونکہ ہر شہری اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہی بنیادی طور پر مہنگائی میں شدید اضافے کا سبب بن رہا ہے اور یہ انتہائی حساس ترین معاملہ ہے۔ ظاہر سی بات ہے وہ اپنا منافع بڑھانے کے سلسلے میں تیل کی قیمتیں بڑھا دیں گے تو غریب موٹرسائیکل و رکشہ ٹیکسی، سوزوکی ویگن، بس والے کدھر جائیں گے؟