تاریخ میں کردار کبھی نہیں مرتے

میں ایک معمولی سا فلسفی ہوں میرے دل میں کوئی تمنا ہے تو بس یہ کہ مجھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے


Aftab Ahmed Khanzada July 28, 2024
[email protected]

آرتھر شوپن ہاور کہتا ہے ''جہالت انسان کو اس سے زیادہ ذلیل نہیں کرتی جب کہ اس کے ساتھ دولت ہو۔'' غریب ضرورت اورکمی کی وجہ سے محدود ہیں۔ کام آپ کے خیالات پر قبضہ کرتا ہے اور جاننے کی جگہ لے لیتا ہے۔ دوسری طرف جاہل امیر صرف اپنی خوشیوں کے لیے جیتے ہیں اور درندوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ ایسی چیز ہے جسے ہم ہر روز دیکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ،آپ ان پر الزام لگا سکتے ہیںکہ انہوں نے اپنی دولت اور فارغ وقت کا استعمال نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ہم سب تکلیفوں کے دریا میں بیچوں بیچ اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں ہم میں سے ہر شخص اپنی بساط کے مطابق بحفاظت اسے پارکرنے کی جدوجہد میں کر رہا ہے، ظلم تو یہ ہے کہ جب ہم دریا کے کنارے پر پہنچ جاتے ہیں، تو دریا کے کناروں پرکھڑے موٹی موٹی تندوں والے عالیشان سوٹوں میں ملبوس اور محسورکن خوشبو میں ڈوبے سرمایہ دار، جاگیردار، وڈیرے، بڑے بڑے بزنس مین، بلڈرز، بیوروکریٹس، ملا، بااختیار اورطاقتور سیاست دان واپس ہمیں دریا میں دھکیل دیتے ہیں، ہم پھر کوشش کرتے ہیں اور پھر واپس دھکیل دیے جاتے ہیں، دریا کے چاروں کناروں پر جو لوگ کھڑے ہیں وہ اگر چاہتے تو نجانے کب کے ہم دریا پارکر چکے ہوتے ہیں لیکن کریں توکریں کیا؟ اصل بات چاہنا ہی تو ہوتا ہے اور جو لوگ خود ہمیں دریا میں دھکیلنے کے ذمہ دار ہیں وہ ہمیں بچا بھی کیسے سکتے ہیں، اگر بچانا ہی مقصود ہوتا تو پھر پھینکتے ہی کیوں؟

روم میں ایک قصہ مشہور ہے کہ جب فلسفی شہنشاہ مارکیوز اور لیوس کا انتقال ہوا تو اولمپائی دیوتاؤں نے اس کے اعزاز میں پرتکلف دعوت کا اہتمام کیا۔ اس دعوت میں اس کے دائیں طرف شہنشاہ اگسٹس، طبرس اور ویسپا سین بیٹھے تھے جبکہ اس کے بائیں جانب دوسرے عظیم رومی شہنشاہ براجمان تھے، ان میں نروا، ٹراجن، ہڈرین اور اس کا سوتیلا باپ انٹونی نس پیوس شامل تھے نیرو اورکیلی گلاکو البتہ دروازے پر ہی روک لیا گیا تھا۔ اس ضیافت میں دیوتا جیوپیٹر نے ایک مقابلے کا اعلان کیا، جس کے ذریعے یہ طے کرنا مقصود تھا کہ ان میں سے عظیم ترین رومی شہنشاہ کون ہے؟ یہ سب شہنشاہ اس مقابلے میں امیدوار تھے وہ باری باری اٹھے اور انہوں نے اپنے بارے میں مختصر تقریریں کیں، اکثر نے اپنی اپنی فتوحات کی شیخیاں بگھاریں پھر مارکیوز اور لیوس کی باری آئی وہ کھڑا ہوا اس نے بس یہ کہا کہ ''میں ایک معمولی سا فلسفی ہوں میرے دل میں کوئی تمنا ہے تو بس یہ کہ مجھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔''

اسی لیے توکہتے ہیں کہ اصل چیز چاہنا ہوتی ہے۔ ایک طرف فلسفی شہنشاہ مارکیو ز اور لیوس کی تمنا ہے کہ مجھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے اور دوسری طرف ہماری بدقسمتی اور بدنصیبی کہ ہمیں ایسے لوگ نصیب ہوئے ہیں، جن کی تمنا یہ ہے کہ کوئی ان کی تکلیف سے محفوظ نہ رہے۔ تکلیفوں کو جنم بھی خود دیتے پھرتے ہیں اور ان کے جوان ہونے پر دہائیاں بھی خود دیتے پھرتے ہیں، یعنی قاتل بھی خود ہیں اور مقتول کے ورثاء بھی خود ہیں لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ یہ اس کے علاوہ اورکر بھی کیا سکتے ہیں۔

ان ہی کے لیے عظیم لونجائنس نے کہا ہے'' مزید غورکرنے پر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر ہم بے پناہ دولت حاصل کرنے کی قدرکرتے ہیں یا بات کو سچائی کے ساتھ بیان کرتے ہوئے یوں کہیں کہ اسے دیوتا سمجھتے ہیں تو پھرکیسے ہم ان بدیوں کو جو دولت سے وابستہ ہیں، اپنی روحوں میں سرائیت کرجانے سے روک سکتے ہیں کیونکہ بے شمار و بے حساب دولت کے ساتھ ساتھ قدم بہ قدم اصراف بے جا اور فضول خرچی آتی ہے اور جیسے ہی وہ شہروں اورگھروں کے دروازے کھول دیتی ہے ویسے ہی دوسری برائیاں داخل ہوجاتی ہے اور وہاں اپنے گھر تعمیرکرلیتی ہیں۔

وقت گزرنے پر وہ ہماری زندگیوں میں گھونسلے بنا لیتی ہیں اور جلدی بچے دینے لگتی ہیں۔ ظاہرداری، بے جا غرور، آرام طلبی و عیش پسندی اس کے بچے ہیں جو اس کے جائز بچے ہیں اور دولت کے یہ بچے جب سن بلوغت کو پہنچتے ہیں تو یہ ہمارے دلوں میں سنگدل آقاؤں کی گستاخی، بدتمیزی، لاقانونیت اور بے حیائی و بے شرمی کو جنم دیتے ہیں پھر اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ نہ نظر اٹھاکر دوسروں کو دیکھیں گے اور نہ نیک نامی کا خیال کریں گے اور ان کی زندگی رفتہ رفتہ برباد ہوجائے گی۔'' ایسے لوگ جو دولت کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں وہ دوسروں کو تکلیف میں مبتلا کرکے وہ تسکین حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں جس کے لیے وہ ساری زندگی مارے مارے پھررہے ہوتے ہیں۔

اصل میں یہ خود اذیتی کی ہی ایک شکل ہے کیونکہ وہ اس احساس سے بھی مبرا ہیں کہ دوسروں کو تکلیف پہنچا کرکبھی بھی سکون حاصل نہیں ہوسکتا ہے اور جب انہیں تسکین یا سکون نہیں مل پاتا تو وہ طیش میں آکر اور زیادہ تکلیفیں پہنچانا شروع کردیتے ہیں۔ اس طرح ان میں اور زیادہ بے سکونی اور بے چینی جنم لے لیتی ہے پھر وہ اور زیادہ طیش میں آجاتے ہیں اور یہ سلسلہ آخری سانس تک اسی طرح جاری رہتا ہے۔

تاریخ میں نہ توکبھی کردار مرتے ہیں اور نہ ہی کرداروں کے کردارکو موت آتی ہے،کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج بھی فالج زدہ گورنرجنرل غلام محمد اپنے بستر پر پڑا کراہ رہا ہے۔ کیا آج بھی اسکندر مرز اکی سازشیں زندہ نہیں ہیں؟ کیا صدر ایوب خان کی اقتدار سے محبت مرگئی ہے؟ کیا یحییٰ خان کے اقدامات کو موت آگئی ہے؟ کیا ذوالفقارعلی بھٹو سولی پر چڑھ گئے ہیں؟ کیا ضیاالحق کا قصہ تمام ہوگیا ہے؟ کیا محترمہ بے نظیر بھٹو قتل ہوگئی ہیں؟ نہیں بالکل نہیں، ہمارے سب کردار اور ان کے کردار آج بھی زندہ ہیں وہ سب آپ میں اور مجھ میں سانسیں لے رہے ہیں۔ آپ اور میں انہیں کبھی مرنے نہیں دیتے ہیں۔

اسی طرح ہمارے آج کے کردار بھی ہمیشہ زندہ رہیں گے اور ان کے کرداروں کو بھی کبھی موت نہیں آئے گی۔ ہماری تکلیفیں تو ایک روز ختم ہو ہی جائیں گی لیکن ہمارے دل سے نکلے الفاظ تمہارا پیچھا کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ یاد رکھنا الفاظ کو بھی کبھی موت نہیں آتی ہے، سب لفظ کہیں نہ کہیں جمع کیے جا رہے ہیں، اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ الفاظ کوکبھی موت نہیں آتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔