انڈیا آؤٹ
اس بھارتی خونی ڈرامے کانتیجہ وہی نکلا جو بھارتی حکومت اور مجیب الرحمن چاہتے تھے
انڈیا آؤٹ تحریک سب سے پہلے مالدیپ سے شروع ہوئی۔ پھر سری لنکا سے سفرکرتی ہوئی اب بنگلہ دیش پہنچ چکی ہے۔ بھارتی حکمرانوں کی شروع سے ہی یہ خواہش رہی ہے کہ بھارتی سرزمین کو مزید وسعت دی جائے یعنی رقبے کے لحاظ سے اسے ایشیا کا ایک قابل قدر ملک بنایا جائے۔ ان کا یہ پرانا خواب ہے کہ افغانستان سے لے کر برما تک پورے خطے کو بھارت میں شامل کر کے اسے '' اکھنڈ بھارت'' کی شکل دی جائے۔
مالدیپ بحر ہند میں ایک چھوٹا سا ملک ہے جو چاروں طرف سے سمندر سے گھرا ہوا ہے۔اس کی سیکیورٹی کا چین نے ذمے لیا ہوا ہے مگر چونکہ وہ بھارتی سرحد کے قریب واقع ہے، اس لیے بھارت کا یہ خیال ہے کہ اس کی حفاظت کی ذمے داری اس کی ہے۔ موجودہ صدر معیزو سے پہلے جو حکومت تھی اس کے دور میں بھارت نے اپنی فوج مالدیپ بھیج دی تھی مگر وہاں کے عوام بھارتی فوج کی آمد کے سخت خلاف تھے کیونکہ وہ بھارتی حکمرانوں پر اعتبار نہیں کر سکتے۔
چنانچہ صدر معیزو نے عوام کی خواہش کے مطابق اپنے انتخابی منشور میں بھارتی فوج کو ملک سے باہر نکالنے کی بھی شق رکھی تھی اور پھر الیکشن جیتنے کے بعد بھارتی فوج کو ملک سے باہر نکال دیا گیا۔ سری لنکا میں بھارت نے بہت جتن کیے کہ اس کی فوج کو وہاں ٹھکانہ نصیب ہو جائے مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ لاکھ کوشش کے بعد بھی نیپال میں بھارتی فوج اپنی جگہ نہ بنا سکی مگر بھوٹان میں وہ ضرور موجود ہے تاہم اس سے بہت پہلے بھارت سیکیورٹی کے نام پر سکم کو ہڑپ کرچکا ہے۔
بنگلہ دیش کو پاکستان سے علیحدہ کرنے میں بھارتی حکمرانوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ بنگلہ دیش اس وقت کہنے کو ایک آزاد ملک ہے مگر وہ مکمل طور پر بھارتی چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔ وہاں کس پارٹی کی حکومت بنے گی کہا جاتا ہے، اس کا فیصلہ دہلی میں ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام میں شیخ مجیب نے بھارت سے مدد طلب کی تھی۔ بھارتی حکمران تو پہلے سے ہی اس کے انتظار میں بیٹھے تھے کیونکہ وہ تو اس سے بہت پہلے جب مشرقی پاکستان پر حملہ آور ہو گیا تھا تاکہ اسے پاکستان سے چھین لیا جائے مگر وہ ناکام رہا تھا۔
دراصل مشرقی پاکستان بھارت کے مشرقی صوبوں تک پہنچنے کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے اور وہ اس رکاوٹ کو ختم کرنا چاہتا تھا۔بہرحال 1971 میں اسے یہ سنہری موقع میسر آگیا۔ عوامی لیگ کی درخواست پر اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے پاکستانی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی فوج کو روانہ کر دیاتھا۔ ساتھ ہی ایک یہ کام بھی کیا کہ مشرقی پاکستان کے عوام جو اس وقت مکمل طور پر پاکستان کے محب وطن شہری تھے کی پاکستان سے محبت کودشمنی میں تبدیل کرنے کے لیے ان کے قتل و غارت گری کرنے کے لیے بنگالیوں پر مبنی مکتی باہنی نامی ایک فورس تیارکی۔
اسے چھاپہ مارجنگ کی تربیت دی گئی، اس کے علاوہ اس نے اپنی فوج کے ہزاروں جوانوں کو پاکستانی فوج کی یونیفارم میں مشرقی پاکستان میں عام لوگوں کاخون خرابہ کرنے اور لوٹ مارکرنے کے لیے بھیج دیا۔ اس کے بعد مشرقی پاکستان کے شہروں میں عوام کے ساتھ جو ہوا اس کا بیان بڑا تلخ ہے۔گوکہ ظلم و جبر کرنے والے بھارتی فوجی تھے مگر پاکستانی فوجیوں کی ڈریس میں تھے چنانچہ عوام میں یہ تاثر اجاگر ہوا کہ پاکستانی فوج عام لوگوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہی ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت کے مطابق 30 لاکھ بنگالی مارے گئے ، حالانکہ یہ سب کچھ بھارتی فوج نے کیا مگر پاکستانی فوج کو بدنام کیا گیا۔
اس بھارتی خونی ڈرامے کانتیجہ وہی نکلا جو بھارتی حکومت اور مجیب الرحمن چاہتے تھے۔ اس سے عام بنگالیوں کو پاکستان سے بدظن کرنے میں بہت مدد ملی، ساتھ ہی بنگلہ دیش کے موقف کو تقویت ملی۔ پاکستانی فوج مکتی باہنی سے یقینا نمٹ لیتی مگر بھارتی فوج نے عام لوگوں کے ساتھ جو ظلم و ستم کیا اس سے پاکستان کی ساکھ خراب ہوئی۔ پھر بھی سمجھنے والے سمجھ گئے تھے کہ یہ بھارتی چال ہے جس سے وہ بنگالیوں کی پاکستان سے وفاداری تبدیل کرانا چاہتا ہے۔
رضاکار بھی اتنی قلیل تعداد میں تھے کہ کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ بالآخر وہ گھڑی بھی آ پہنچی کہ پاکستانی فوج کو سرنڈرکرنا پڑا۔ مکتی باہنی کے جوان جنھوں نے بھی قتل و غارت گری مچا رکھی تھی قومی ہیرو قرار دیے گئے۔ جو نوجوان پاکستان کے حامی تھے اور دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہے تھے انھیں '' رضاکار'' کہا گیا۔ اس کے بعد رضاکار ہونا نہ صرف جرم بن گیا بلکہ ایک گالی کی شکل اختیارکرگیا۔
اس وقت بنگلہ دیش میں جو طلبا اورپولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں ہیں، ان میں حسینہ واجد کے جاں نثار مکتی باہنی کی اولادیںبھی شامل ہیں، یہ خونی جھڑپیں بلاوجہ نہیں تھیں۔شیخ حسینہ نے احتجاجی طلبا کو ''رضاکار''کہہ دیا تھا۔ شیخ حسینہ کا خیال تھا کہ اس سے ان کی بے عزتی ہوگی اور وہ پیچھے ہٹ جائیں گے مگر پھریہ ہوا کہ ہر طالب علم اور سیاسی کارکن خود کو رضاکار کہہ رہا تھا۔ ان کا نعرہ تھا کہ ہاں ہم رضاکار ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش میںہرسال ہزاروں طلبا یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہو رہے ہیں مگر انھیں نوکریاں نہیں ملتیں۔نوکریوں کو بھی کوٹے میں بانٹ دیا گیا ہے اور اس کی آڑ میں اپنے چہیتوں کو نوازا جا رہا ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش کی آزادی میں حصہ لینے والے ہیروزکی اولادیں حسینہ حکومت کی محافظ ہیں چنانچہ اپنے ورکرز اور مکتی باہنی کی اولادوں کو اصل فائدہ پہنچایا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیشی عوام کو حسینہ واجد کا یہ رویہ پسند نہیں ہے۔
حزب اختلاف کی پارٹیاں پہلے ہی حکومت کے آمرانہ رویے سے بے زار ہیں۔ ملک میں بے روزگاری مہنگائی اور سب سے بڑھ کرکرپشن نے معیشت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ حالانکہ ملک 40 ارب ڈالرکا مال برآمد کرتا ہے مگرنوجوانوں کے لیے نوکریاں نہیں ہیں۔ حسینہ واجد پر عوام کو بہت غصہ ہے مگر ان کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھا سکتا۔ میڈیا پر بھی حکومت کے خلاف بولنے اور لکھنے پر بھی پابندی ہے، گویا کہ ملک میں مکمل ڈکٹیٹر شپ ہے۔ حزب اختلاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتارکرنا اور غائب کر دینا معمولی بات ہے۔
بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد 18 سال سے مسلسل برسر اقتدار ہیں گوکہ اس عرصے میں تین عام انتخابات ہو چکے ہیں مگر ہر ایک میں بھارت کا حسینہ واجد کا دم بھرنے کی وجہ سے کسی پارٹی نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا کیونکہ نتیجہ تو حسینہ واجد کے حق میں ہی آناتھا۔ حسینہ واجد نے دریاؤں کے پانی میں بھی بھارت کو سہولت دی ہے اور اب اسے اپنی مشرقی ریاستوں کو جانے کے لیے بنگلہ دیش کی سرزمین سے راہ داری دے دی ہے۔ عوام حسینہ واجد کی بھارت نوازی کی وجہ سے پہلے ہی بہت تنگ تھے اور اب سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ بھارت آؤٹ کا نعرہ اب ہر طرف گونج رہا ہے گوکہ حکومت کے طلبا کے مطالبات مان لیے ہیں، مگر عوام کی بے چینی طلبا اور حزب اختلاف کا احتجاج کیا رنگ لاتا ہے؟ ڈیڑھ سو افراد کا مارا جانا بھی ایک بڑا سوال ہے۔