آبادی میں مسلسل کمی سے مغربی حکمران پریشان
درج بالا سوچ ہی سے خاندانی منصوبہ بندی کے نظریے نے جنم لیا۔
18 جولائی 2024ء کو وزیر منصوبہ بندی ، احسن اقبال نے سرکاری طور پہ ساتویں مردم شماری کے نتائج جاری کیے۔ان کی رو سے پاکستان کی آبادی چوبیس کروڑ پندرہ لاکھ تک پہنچ چکی۔ اس آبادی میں 79 فیصد باشندوں کی عمر چالیس سال سے کم ہے۔
آبادی میں سالانہ اضافہ 2.55 فیصد ہے۔یہی شرح رہی تو 2047ء تک پاکستان کی آبادی سینتالیس کروڑ ہو جائے گی ۔احسن اقبال کا کہنا ہے :''پاکستانی نوجوانوں کو ملازمتیں چاہئیں مگر جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آتا، معیشت کی حالت بھی سدھر نہیں سکتی۔ آبادی میں مسلسل اضافہ ریاست کے وسائل پہ بے پناہ دباؤ ڈال رہا ہے۔ اس نے فی کس آمدن اور شہریوں کے معیار زندگی کو بھی متاثر کیا ہے۔''
حیرت انگیز اور دلچسپ بات یہ کہ پاکستان میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے تو دنیا میں ایسے کئی ملک بھی ہیں جو اپنی کم ہوتی آبادی کے باعث پریشانی اور تشویش میں مبتلا ہو چکے۔ وجہ یہی کہ آبادی میں کمی کئی مسائل پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ حتی کہ یہ عمل ریاست کا مستقبل ہی یکسر طور پہ بدل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل مت کرو کہ انھیں پالنے پوسنے کے اخراجات سے افلاس کا شکار ہو جاؤ گے۔''تمھیں اور تمھاری اولاد کو رزق اللہ تعالی فراہم کرے گا۔بچے کو غربت کے ڈر سے مار دینا ایک بہت بڑا جرم ہے۔''(سورہ بنی اسرائیل۔13)سورہ انعام کی آیت 151 میں بھی یہ بات بیان فرمائی گئی۔رب ِ کائنات نے قران پاک میں جو ارشادات فرمائے ہیں، ان میں حکمت موجود ہے۔ان کے معانی ومطالب و اہمیت رفتہ رفتہ بنی نوع انسان پہ اجاگر ہوتے ہیں۔درج بالا ارشاد ہی کو لیجیے۔
نئی سوچ
بیسویں صدی کے اوائل سے دنیا کے سبھی ترقی یافتہ ممالک میں آباد بیشتر والدین میں یہ سوچ پروان چڑھنے لگی کہ زیادہ بچے ہونے سے اخراجات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔یوں والدین پہ معاشی بوجھ بڑھ جاتا ہے اور وہ پہلے کی نسبت غریب ہو جاتے ہیں۔اسی لیے اکثر مردوزن کم بچے پیدا کرنے لگے تاکہ مفلسی سے بچ سکیں۔ مگر مذہبی طور پر ایسا سوچنا درست نہیں۔
خاندانی منصوبہ بندی
درج بالا سوچ ہی سے خاندانی منصوبہ بندی کے نظریے نے جنم لیا۔اس نظریے کے مطابق خاندان کی وسعت اس کے وسائل تک محدود ہونی چاہیے۔ یعنی ایک گھرانے میں افراد کی تعداد اتنی ہو کہ دستیاب وسائل ان کی ضروریات مروجہ معیار کے مطابق پوری کر سکیں۔ مطلب یہ نہیں کہ اولاد کی پیدائش کا سلسلہ بالکل ہی منقطع کر دیا جائے بلکہ جہاں تک وسائل اجازت دیں، بچوں کی پیدائش ہونی چاہیے۔ جن کے پاس وسائل کی بہتات ہے ان پر کثرت اولاد کے سلسلے میں کوئی پابندی نہیں، لیکن قلیل وسائل رکھنے والے افراد کو تھوڑی اولاد پر قناعت کرنی چاہیے۔
خاندانی منصوبہ بندی ایک ملک کی بڑھتی آبادی کم کرنے یا حد پر رکھنے کا ایک مصنوعی طریقہ ہے۔ دیگر پس ماندہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی آبادی کے اضافے پر قابو پانے کے لیے سرکاری طور پہ 1959 ء سے خاندانی منصوبہ بندی کا منصوبہ شروع کیا گیا جو ضبط تولیدسے متعلق مشورے دیتا، اور آلات و دوائیں مہیا کرتا ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی کے سلسلے میں علما کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔بعض علما اس کے حق میں ہیں۔ان کا موقف یہ ہے کہ دین اسلام اعتدال اور میانہ روی کا مذہب ہے۔وہ انسان پہ ضرورت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔اس لیے اگر کوئی مسلمان بیمار یا غریب ہے تو اسے زیادہ بچے پیدا نہیں کرنے چاہئیں۔یوں وہ اخراجات بڑھ جانے سے سب بچوں کو معیاری تعلیم وتربیت نہیں دے پائے گا۔لیکن اس کے دو تین بچے ہوں تو وہ کم وسائل میں بھی انھیں اچھی تعلیم وتربیت دے سکے گا۔اس لحاظ سے خاندانی منصوبہ بندی کا منصوبہ غریب گھرانے کے لیے مفید وکارآمد ہے۔
اس منصوبے کے مخالف علما یہی دلیل پیش کرتے ہیں کہ قران کریم کی رو سے ایک مسلمان کو مفلسی کے خوف سے کم بچے پیدا نہیں کرنے چاہئیں۔چونکہ یہ منصوبہ اس امر کو بھی ایک بنیاد بناتا ہے لہذا وہ ازروئے اسلام جائز نہیں۔
مہنگائی میں اضافہ
اکیسویں صدی میں مہنگائی میں اضافہ ہوا تو ترقی پذیر ملکوں میں اس سوچ نے جنم لیا کہ بچے پیدا ہی نہیں کرنے چاہئیں تاکہ زائد اخراجات سے بچا جا سکے۔اس سوچ کی تشریح یوں بھی ہو سکتی ہے کہ اس فکر کو اپنانے والے بچوں کی پیدائش وتربیت کی ذمے داریاں نہیں اٹھانا چاہتے۔یہ سوچ اختیار کرنے والے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی خواہش ہے کہ وہ جو کمائی کرتے ہیں، اسے اپنی آسائشوں کی فراہمی اور تمنائیں پوری کرنے پہ خرچ کیا جائے۔
مادہ پرستی
ترقی یافتہ اور مغربی ممالک میں یہ سوچ چند نوجوانوں تک محدود نہیں بلکہ اسے آبادی کا بیشتر حصہ اپنا چکا۔وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں مادہ پرستی اپنی جڑیں جما چکی۔اور مادہ پرستی میں جکڑے انسان صرف اپنی خواہشات مدنظر رکھتے ہیں۔ان کی دنیا اپنے گرد ہی گھومتی ہے۔اسی لیے وہ بچے پالنے کی ذمے داریوں سے گھبراتے ہیں۔جوڑے میں کسی ایک کو بچے پالنے کا شوق ہے تو اس کے اصرار پر ایک بچہ پیدا کر لیا جاتا ہے اور بس۔
نئے مسائل
بچے پیدا نہ کرنے کے رجحان میں اضافے کی وجہ سے کئی ترقی یافتہ ملکوں میں یہ خطرہ جنم لے چکا کہ ان کی آبادی کم ہو جائے گی۔صرف یہی نہیں، بچے نہ پیدا کرنے کی سوچ ایسے کئی مسائل سامنے لا چکی جن سے ترقی یافتہ ممالک اب بتدریج دوچار ہو رہے ہیں۔
اسی لیے ان ملکوں کی حکومتیں اب باقاعدہ کوششیں کر رہی ہیں کہ ملکی آبادی کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی جانب راغب کیا جائے۔مگر بیشتر نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنی حکومتوں کی بات ماننے کو تیار نہیں۔وہ ساری زندگی 'سنگل'ہی رہنا چاہتے ہیں اور شادی کے حقوق و فرائض ادا کرنے سے بھی کترانے لگے ہیں۔یہی وجہ ہے ، ترقی یافتہ ممالک میں کم ہوتی مقامی آبادی بہت بڑا مسئلہ بن چکا۔
اس وقت تمام مغربی ممالک میں بنیادی طور پہ ہجرت یا نقل مکانی کر کے دوسرے ملکوں سے آنے والے مردوزن کے ذریعے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔مقامی آبادی میں اضافہ بہت تھوڑا ہے، اسی لیے اس کی تعداد بھی مسلسل گھٹتی چلی جا رہی ہے۔
''کُل شرح پیدائش''
ایک مملکت میں بچوں کی پیدائش کی شرح جاننے کا سب سے مشہور پیمانہ ''کُل شرح پیدائش'' (Total fertility rate) ہے۔ اس پیمانے کی مدد سے دیکھا جاتا ہے کہ ایک عورت اپنے زرخیز دور میں کتنے بچے پیدا کرتی ہے۔ماہرین کی رو سے ایک ملک میں ہر عورت کو کم ازکم دو بچے پیدا کرنے چاہئیں۔تب ہی اس ملک کی آبادی برقرار رہتی ہے۔یعنی اس میں نہ خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے اور نہ کمی آتی ہے۔ 'کُل شرح پیدائش' کے مطابق آئیڈئیل شرح 2.1 فیصدہے۔یعنی ملک میں بعض خواتین کے تین بچے پھی پیدا ہونے چاہئیں تاکہ ملکی آبادی میں تھوڑا بہت اضافہ بھی ہوتا رہے۔
نائیجر سرفہرست
اقوام متحدہ کی رو سے اس وقت افریقی ملک، نائیجر میںکُل شرح پیدائش دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے ، یعنی 7 فیصد۔ گویا اس ملک میں ایک خاتون اپنے زرخیز دور میں سات بچے پیدا کرتی ہے۔بڑے ممالک میں سب سے کم کُل شرح پیدائش جنوبی کوریا کی ہے جو فی الوقت 0.9 فیصدفیصد ہو چکی اور مسلسل کم ہو رہی ہے۔گویا جنوبی کوریا میں زیادہ تر خواتین ایک بچہ بھی پیدا نہیں کر رہیں۔اور کوئی جوڑا بچہ پیدا کرنا چاہے تو صرف ایک بچے پر ہی اکتفا کرتا ہے۔
ماہرین کی رو سے تمام امیر اور ترقی یافتہ ممالک میں سعودی عرب اور اسرائیل کے علاوہ سبھی ملکوں میں کُل شرح پیدائش اعشاریہ 1 فیصد فیصد سے کم ہو چکی۔سعودی عرب میں یہ شرح2.3فیصد اور اسرائیل میں2.9فیصد ہے۔معاشی طور پہ مستحکم ان ملکوں میں بھی کُل شرح پیدائش زیادہ ہے: قازقستان 3 فیصد، الجزائر2.7 فیصد، عمان2.5 فیصد اور جنوبی افریقا2.3 فیصد۔
نائیجیریا و پاکستان میں شرح زیادہ
آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ملکوں میں سب سے زیادہ کُل شرح پیدائش نائیجیریا کی ہے یعنی 5 فیصد۔ گویا وہاں ایک خاتون اپنی شادی شدہ زندگی میں کم ازکم پانچ بچے پیدا کرتی ہے۔اس کے بعد پاکستان کا نمبر آتا ہے۔وطن عزیز میں کُل شرح پیدائش3.3 فیصد ہے۔گویا ایک پاکستانی خاتون تین تا چار بچے پیدا کر رہی ہے۔
' 'خام شرح موت ''
ایک ملک کی کُل شرح پیدائش دیکھتے ہوئے' 'خام شرح موت ''(Crude Mortality Rate)کو مدنظر رکھنا ضروی ہے۔ایک ملک میں عموماً ایک سال کے دوران بڑھاپے، امراض، حادثات، قدرتی آفات، غرض کسی بھی طرح آبادی میں جو اموات ہوتی ہیں، اسے خام شرح موت کہا جاتا ہے۔جس ملک میںکُل شرح پیدائش زیادہ ہے، اگر وہ خام شرح موت بھی بلند رکھتا ہے تو قدرتاً اس کی آبادی میں زیادہ اضافہ نہیں ہو گا کیونکہ بہت سے لوگ تو لقمہ اجل بن جائیں گے۔فی الوقت دنیا کی خام شرح موت7.70 فیصد ہے۔اس سے بلند شرح زیادہ تصّور ہو گی۔
نائیجر کی خام شرح موت8.99فیصد ہے۔یہ خاصی بلند ہے۔یوں یہ شرح آبادی میں اتنا اضافہ نہیں کرتی جتنا مملکت کی کُل شرح پیدائش سے ہونا چاہیے۔نائیجیریا کی خام شرح موت8.42 فیصد ہے۔یوں وہ بڑھتی آبادی پہ اثرانداز ہوتی ہے۔ پاکستان میں یہ شرح کم ہے یعنی5.94 فیصد۔اس لیے وطن عزیز میں آبادی بڑھنے کی رفتار زیادہ تیز ہے۔
بدقسمت ملک
لیتھونیا مشرقی یورپ کا ترقی یافتہ ملک ہے۔اس کی خام شرح موت،15.71 فیصد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔اس کی کُل شرح پیدائش بھی صرف1.6 فیصد ہے۔اسی لیے اس مملکت کی آبادی میں بھی تیزی سے کمی آ رہی ہے۔1915ء میں اس ملک کی آبادی اکیس لاکھ سینتیس ہزار تھی۔اب اٹھائیس لاکھ چھیاسی ہزار ہے۔گویا ایک سو چودہ سال میں ملکت کی آبادی صرف ساڑھے سات لاکھ ہی بڑھ سکی۔اس کے برعکس پاکستان کی آبادی 1950ء میں تین کروڑ چالیس لاکھ تھی۔وہ پچھلے چوہتر برس میں بڑھ کر چوبیس کروڑ پندرہ لاکھ تک پہنچ چکی۔
حد ِ اعتدال
آبادی میںحد ِ اعتدال سے زیادہ اضافہ بہرحال ملکی وسائل پہ بے جا بوجھ ڈال دیتا ہے۔خاص طور پہ ساری آبادی کو ضروریات ِ زندگی نہیں مل پاتیں اور خوراک کی کمی دیکھنے کو ملتی ہے۔یہ عجوبہ پاکستان میں جنم لے چکا جہاں بھوک اور غربت کی وجہ سے لوگ خودکشیاں تک کر رہے ہیں۔مگر اس خرابی کا ذمے دار حکمران طبقہ ہے جو وسائل اور آمدن کی تقسیم عدل وانصاف سے نہیں کر سکا۔یوں چوہتر سال پہلے جو غریب تھے، ان میں سے بیشتر کی اولاد بھی ترقی کے مواقع نہ ہونے سے غربت کی چکی میں پس رہی ہے۔حکمران طبقے کی نااہلی اور کوتاہیوں کی وجہ سے ہی پاکستان میں ملازمتیں بھی کم جنم لیتی ہیں، اس میں مذہب کو کوئی دوش نہیں۔
دین اسلام جامد مذہب نہیں، اس لیے مسلمانوں کو صورت حال اور حالات کے مطابق اجتہاد کی اجازت دی گئی ہے۔بچے کم یا زیادہ تعداد میں پیدا کرنے کے معاملے میں بھی اجتہاد کرنا ممکن ہے۔مثال کے طور پہ ایک مسلم ملک میں قدرتی آفات کی وجہ سے خوراک کم پیدا ہوتی ہے۔وہ ملک غیر ملکی زرمبادلہ کم ہونے کے باعث یا کسی بھی وجہ سے باہر سے مطلوبہ مقدار میں خوراک حاصل بھی نہیں کر پاتا۔تب مفتیان کرام اجتہاد کر کے یہ فتوی دے سکتے ہیں کہ جوڑے معین تعداد میں بچے پیدا کریں۔مقصد یہ ہو کہ ساری آبادی کو وافر خوراک مل جائے اور سبھی پیٹ بھر کر کھانا کھا لیں۔
مثال کے طور پہ نائیجر میں کُل شرح پیدائش دنیامیں سب سے بلند ہے۔یہ ایک غریب اسلامی ملک ہے۔غربت کا عالم یہ ہے کہ حکومت اپنے آدھے اخراجات عالمی امداد کی شکل میں ملی بھیک کی رقم سے پورے کرتی تھی۔پچھلے سال فوج نے اقتدار پہ قبضہ کیا تو یہ عالمی امداد بھی بہت کم رہ گئی۔اب وہ کسی بھی وقت دیوالیہ ہو سکتا ہے کہ اس کے پاس قرضے اتارنے کے لیے ڈالر نہیں۔اسی لیے نائیجر کے معاشی حالات بہت سنگین ہیں۔لہذا وہاں بعض علما نے یہ تحریک چلا رکھی ہے کہ بچوں کی تعداد کم رکھی جائے تاکہ ہر خاندان اپنے وسائل کے مطابق گذارا کر سکے۔
نقصانات کا جائزہ
ایسا مگر انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں ہی ہو سکتا ہے۔اور جیسا کہ جدید دور کے ماہرین بتا رہے ہیں، آبادی میں اضافے کے نقصانات اتنے زیادہ نہیں جو آبادی میں کمی سے ایک ملک میں جنم لیتے ہیں۔گویا ایک مملکت میں انسانی آبادی میں کمی زیادہ نقصان دہ ہے اور یہ جان کر ہی ہمیں اللہ تعالی کے فرمان کی حکمت آشکارا ہوتی ہے کہ بچوں کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو۔ آبادی کم ہونے کے بڑے نقصان درج ذیل ہیں:
پہلا نقصان
آبادی میں کمی کے کچھ نقصان تو فوری ہیں اور بقیہ طویل المعیادی طور پہ ایک قوم یا ملک کو متاثر کرتے ہیں۔پہلا فوری نقصان یہ ہے کہ ملک کی افرادی قوت میں کمی آ جاتی ہے۔نئی ملازمتوں کے لیے موزوں مرد وزن نہیں ملتے۔ تب ملازمتیں بھرنے کے لیے بیرون ممالک سے افرادی قوت منگوانا پڑتی ہے۔ یہ عمل مزید تبدیلیوں کو جنم دیتا ہے۔
دوسرا نقصان
آبادی میں کمی کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ ملک میں بوڑھے مردوزن کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ان کی دیکھ بھال پر پھر زیادہ پیسا ، وقت اور توانائی خرچ ہوتی ہے۔نیز پنشن کی رقم میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ظاہر ہے، جتنے زیادہ بوڑھے ہوں گے، پنشن کی رقم بھی اتنی ہی زیادہ بڑھ جائے گی۔یوں ملکی وسائل پہ بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے۔
تیسرا نقصان
کم آبادی کا ایک اہم نقصان یہ ہے کہ ملک میں نوجوانوں کی تعداد گھٹ جاتی ہے۔اس طرح مسلح افواج کو بھی کم نوجوان میّسر آتے ہیں۔یوں افواج اور دیگر سیکورٹی فورسز نفری میں کمی کے سنگین مسئلے کا نشانہ بن جاتی ہیں۔اگر اس ملک کے پڑوسیوں سے اچھے تعلقات نہیں تو یہ مسئلہ ملک وقوم کی سلامتی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ کیونکہ مسلح افواج کی تعداد میں کمی دفاع کو کمزور کر تی ہے۔
چوتھا نقصان
کم آبادی کے بطن سے جنم لینے والا ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ ملک پہ حاکم قوم کی تعداد کم ہونے لگتی ہے۔جبکہ بیرون ممالک سے آئے لوگوں کی تعداد میں اضافہ جاری رہتا ہے۔ یوں وہ قوم رفتہ رفتہ اپنی اکثریت کھو کر اپنے اقتدار و حاکمیت سے محروم ہو سکتی ہے۔یہ عجوبہ برطانیہ میں جنم لے چکا۔
پچاس سال قبل برطانیہ میں تقریباً سو فیصد برطانوی سفید فام بستے تھے۔ اب ان کی تعداد 73 فیصد رہ گئی ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ برطانوی سفید فام جوڑے اب کم بچے پیدا کرتے ہیں۔ ان میں کُل شرح پیدائش 1.24 فیصد ہے جو کافی کم تصور کی جاتی ہے۔اور ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر برطانوی سفید فاموں نے زیادہ بچے پیدا نہ کیے تو اگلے تیس چالیس برس کے دوران وہ برطانیہ میں اقلیت بن جائیں گے...گویا اپنی مملکت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
پانچواں نقصان
ایک ملک کی حاکم قوم کم بچے پیدا کرنے کے باعث اپنی حاکمیت کھو بیٹھے تو اس کا مذہب بھی اپنی برتر حیثیت سے محروم ہو جاتا ہے۔یہ عجوبہ بھی برطانیہ میں جنم لے چکا۔ پچاس سال پہلے برطانیہ میں 99 فیصد لوگ عیسائی تھے۔مگر اب وہاں ان کی تعداد 50 فیصد سے کم ہو چکی۔آج برطانیہ میں عیسائیوں سے زیادہ دہریے، مسلمان ، ہندو اور دیگر مذاہب کے باشندے بستے ہیں۔
برطانیہ ہی نہیں عیسائیوں کے دیگر بڑے ممالک مثلاً امریکا، برازیل، میکسکو، فلپائن، ایتھوپیا، جرمنی ، اٹلی، روس، جنوبی افریقا وغیرہ میں عیسائی باشندوں کی کُل شرح پیدائش میں خاصی کمی آ چکی۔اس لیے ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگلے تیس چالیس برس میں عیسائیت نہیں اسلام دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔یاد رہے، مسلمانوں کی کُل شرح پیدائش مجموعی طور پہ تمام مذاہب کے ماننے والوں میں سب سے زیادہ ہے۔
دنیا پہ ڈھیلی پڑتی گرفت
مسلمانوں کی بڑھتی تعداد مغربی ملکوں کے ان حکمران طبقوں کے لیے اچھی خبر نہیں جو اسلام اور مسلمانوں کو اپنا حریف سمجھتے ہیں۔ یہ حکمران طبقات ہی مقبوضہ کشمیر، فلسطین، یمن، شام، عراق، صومالیہ، لیبیا، لبنان، مالی ، سوڈان وغیرہ میں مسلمانوں کے خلاف چلتی مہمات کی حمایت کرتے ہیں۔ان مہموں کا مدعا یہی ہے کہ عالم اسلام انتشار وافراتفری کا نشانہ بنا رہے اور کبھی معاشی و سیاسی ترقی نہ کر سکے۔
مغربی حکمران طبقوں کے لیے اب مگر یہ سنگین مسئلہ بن چکا کہ ان کے ملکوں میں سفید فام اکثریت کم کُل شرح پیدائش کی وجہ سے رفتہ رفتہ گھٹ رہی ہے۔جبکہ مسلمانوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔یہ مسلمان اب مسلم مخالف حکومتی اقدامات کے خلاف احتجاج کرنے لگے ہیں۔
مثال کے طور پر کچھ عرصہ قبل سپر پاور امریکا کی کئی یونیورسٹیوں میں ہزارہا طلبہ وطالبات نے فلسطینیوں کے قاتل، اسرائیل کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔اس احتجاج کا آغاز مسلم طلبہ ہی نے کیا اور بعد ازاں سبھی مذاہب سے تعلق رکھنے والے طالبان علم بھی اس میں شریک ہو گئے۔امریکی یونیورسٹیوں کا یہ احتجاج ویت نام جنگ کے بعد سامنے آنے والا طالبان علم کا سب سے موثر اور بڑا احتجاج تھا۔اس نے امریکی و اسرائیلی حکمران طبقوں کو ہلا کر رکھ دیا جو امریکا کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔عوامی احتجاج نے انھیں مگر بتا دیا کہ اب وہ مزید من مانیاں نہیں کر سکتے۔
انسانی آبادی کی اہمیت
غرض انسانی آبادی کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ اس کی کمی بیشی کسی بھی ملک میں سیاسی، معاشرتی، معاشی اور مذہبی انقلاب برپا کر سکتی ہے۔اور کئی ممالک میں یہی عجوبہ جنم لے چکا۔اگر بیشتر ممالک میں کُل شرح پیدائش میں کمی جاری رہی تو ایک سو سال بعد وہاں کی سیاست و معاشرت میں حیران کن تبدیلیاں جنم لے سکتی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ برطانیہ میں کوئی مسلمان وزیراعظم بنا ہو اور امریکا کی حکومت میں مسلم وزیر سرگرم عمل ہوں۔یہ بھی بعید نہیں کہ آبادی زیادہ ہونے سے عالم اسلام پھر دنیا کا لیڈر بن جائے یا کم ازکم ایک برتر طاقت کا روپ دھار لے۔