غزہ کا سچ دنیا کے سامنے آرہا ہے

مظاہرین کے مطابق نیتن یاہو ایک جنگی مجرم ہیں جس کا ٹھکانہ کانگریس نہیں بلکہ جیل ہے


Editorial July 29, 2024
(فوٹو: فائل)

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ فلسطین میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری اپنی ذمے داریاں پوری کرے، دوسری جانب اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ خان یونس میں چار روز تک جاری رہنے والی شدید لڑائی کے دوران ایک لاکھ 80ہزار سے زائد فلسطینی نقل مکانی پر مجبور ہوئے، جب کہ امریکی صدارتی امیدوار کملا ہیرس نے امریکی غزہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کا عندیہ دیا اور نیتن یاہو پر امن معاہدہ کرنے پر زور دیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے نام پر اسرائیل کے ساتھ کھڑے تمام ملک فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والی اس دہشت گردی پرکیا موقف اختیار کریں گے؟ یہ ان کی بڑی آزمائش ہے۔ اسرائیل کے پیچھے کھڑے ہوکر وہ غزہ کو برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔ ان کے اتحاد کے باوجود بھی غزہ کا سچ دنیا کے سامنے آرہا ہے۔ کئی دہائیوں سے یہاں کے لوگ بناء حقوق کے زندگی گزار رہے ہیں، لوگ بناء کسی بنیادی سہولتوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ غزہ کے بچوں پر جو قہر برپا کیا گیا ہے کیا اسے کوئی بڑا عالمی لیڈر دہشت گردی قرار دے سکے گا؟

سوشل میڈیا کے دور میں اب حقائق چھپانا ممکن نہیں رہا، وہ پہلو جن پر اسرائیلی معاشرے میں بات کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا، اب ان پر قانونی مباحثے ہورہے ہیں۔ اس تبدیلی کی ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اب فلسطینی بدل چکے ہیں، وہ جو پہلے دو ریاستی ڈھانچے کو اسرائیل، فلسطین تنازع کا حل سمجھتے تھے، نوجوان فلسطینی اب الجیریا کے انقلابی ماڈل کو ماننے لگے ہیں کہ نو آبادیاتی قوت کو اپنی سر زمین سے بیدخل کرنا ہی قضیہ فلسطین کا واحد حل ہے۔

یہ کام سب فلسطینیوں کو مل کر کرنا ہے اور آنے والی نسلوں کو بھی آزادی کے لیے کوشاں رہنا ہے۔ اس سے ناخوش نئی اسرائیلی آواز یہ ہے، ''ہم پناہ گزین ہیں، فلسطینی مزاحمت جیت جاتی ہے تو ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں رہے گا۔'' اس آواز میں ایک المناک سچائی پوشیدہ ہے، اسرائیلی حکومت مستقل طور پر خود کو محفوظ کرنے کا واحد حل فلسطینیوں کی نسل کشی سمجھتی ہے۔ ہم سب سگمنڈ فرائڈ کی نفسیات کے نظریہ ڈیتھ ڈرائیو سے تو واقف ہیں جس میں انسان تباہی اور تکالیف پہنچا کر خوشی محسوس کرتا ہے۔ غزہ میں یہی کچھ ہو رہا ہے اور افسوس کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔

دوسری جانب اسرائیل کے بڑے شہروں تل ابیب، یروشلم، قیصریہ، حیفہ سمیت ملک بھر میں مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔ مظاہرین حماس سے معاہدے میں ناکامی پر نیتن یاہو حکومت سے مستعفیٰ ہونے اور فوری الیکشنز کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ اسرائیلی پولیس نے احتجاج کو کچلنے کے لیے اپنے یہودی شہریوں کو بھی نہ بخشا اور ان پر پل پڑی۔ پولیس نے رکن اسمبلی سمیت احتجاج میں شریک لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب میں بھی حکومت کے خلاف بڑا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق مظاہرین نے بعض مقامات پر آگ لگا کر سڑک بند کر دی، پولیس کو مظاہرین کے خلاف طاقت بھی استعمال کرنا پڑی۔

سچی بات تو یہ ہے کہ تنازع جاری رہنے کی صورت میں فریقین کو بہت زیادہ نقصان ہوگا۔ بائیڈن نے اپنے اتحادی اسرائیل کو متنبہ کیا کہ 'مکمل فتح' کے مبہم تصورکے تعاقب میں غیر معینہ مدت کی جنگ کا نتیجہ صرف یہ نکلے گا کہ اسرائیل غزہ میں پھنس جائے گا۔ اس کے معاشی، فوجی اور انسانی وسائل بری طرح متاثر ہوں اور پوری دنیا میں مزید تنہا ہوجائے گا۔ ماہرین کے مطابق حماس اپنی بقا کی جدوجہد میں مصروف ہے اور اس کا ماننا ہے کہ وہ اپنا وجود قائم رکھ سکتی ہے۔ درحقیقت اسرائیل حماس کا صفایا نہیں کر سکتا۔ اسرائیل کی جنگی منصوبہ بندی کی ناکامیوں اور فلسطینی معاشرے میں حماس کی گہری جڑوں کی وجہ گروپ کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کے لیے کوئی قابل عمل فوری متبادل موجود نہیں۔

سابق امریکی صدر اور ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی نائب صدر اور ڈیموکریٹ پارٹی کی صدارتی امیدوار کملا ہیرس کے اسرائیل سے متعلق بیان کو توہین آمیز قرار دے دیا ہے۔ فلوریڈا میں اپنی رہائش گاہ پر اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کے موقعے پر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکا کی نائب صدر اور ڈیموکریٹ صدارتی امیدوارکملا ہیرس کا اسرائیل سے متعلق بیان توہین آمیز ہے۔ دراصل 2020 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے پر جو بائیڈن کو مبارکباد کا پیغام بھجوانے پر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے خفا ہوگئے تھے، تاہم ملاقات کے موقع پر کسی اختلاف یا ناراضی کی تردید کردی۔

اپنے دور صدارت میں امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے اور ایران سے نیوکلیئر ڈیل ختم کرنے جیسے پالیسی معاملات کا حوالہ دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہمارے تعلقات بہت ہی اچھے ہیں۔ ملاقات کے موقع پر نیتن یاہوکا کہنا تھا کہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے وفد اگلے ہفتے روم جائے گا۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات میں کملا ہیرس نے غزہ میں اموات پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم پر یہ واضح کیا تھا کہ وہ غزہ کی صورتحال پر خاموش نہیں رہیں گے۔

غزہ کے اب تک 40,000 سے زیادہ فلسطینیوں کی ہلاکتوں کے ذمے دار صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو نے تین روز قبل کانگریس سے خطاب کیا جب کہ اسی دوران ہزاروں افراد کیپٹل کے باہر ان کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔ یہ تقریباً ایک دہائی میں امریکی قانون سازوں سے ان کا پہلا خطاب تھا۔ جیسے ہی امریکی قانون سازوں نے کانگریس میں نیتن یاہو کے لیے تالیاں بجائیں، کانگریس کے باہر انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکن غزہ میں فلسطین پر وحشیانہ مظالم کی وجہ سے ان پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

مظاہرین کے مطابق نیتن یاہو ایک جنگی مجرم ہیں جس کا ٹھکانہ کانگریس نہیں بلکہ جیل ہے۔ اسرائیل غزہ کو بجلی دیتا نہیں ہے بلکہ غزہ کو یہ بجلی خریدنی پڑتی ہے۔ غزہ کے واحد پاور پلانٹ میں نصف گنجائش رہ گئی ہے، اس کا ڈیزل بھی اسرائیل سے آتا ہے باقی آدھی بجلی اسرائیل سے خریدی جاتی ہے۔ اس بجلی میں بھی اسرائیل کٹوتی کرتا رہتا ہے جس کا غزہ کی عام زندگی کے علاوہ وہاں کے اسپتالوں پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ اسرائیل کو غزہ کی فکر نہیں ہے اس مرتبہ وہ کئی دہائیوں کے لیے غزہ کی صورت بگاڑنا چاہتا ہے، اس لیے آج دنیا کے سامنے سب سے بڑا سوال ہے کہ آیا غزہ میں رہنے والے 23 لاکھ لوگ کیا مٹا دیے جائیں گے۔

غزہ کی لمبائی 41 کلومیٹر اور چوڑائی بارہ کلومیٹر ہے، ایک مقام پر تو چوڑائی صرف 6 کلو میٹر رہ گئی ہے۔ چھوٹی سی جگہ پر 23 لاکھ لوگ مقیم ہیں یہ اس کرہ ارض پر تیسری ایسی جگہ ہے جہاں سب سے زیادہ آبادی ہے اس جگہ کی حالت بتاتی ہے کہ کس طرح یہاں کے رہنے والے لوگوں کو ایک تنگ جگہ میں ٹھونس دیا گیا ہے اور ہوا پانی بند کردیا گیا، اس لیے اسے دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کہا جاتا ہے۔ اسرائیل لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ وہ غزہ چھوڑ دیں لیکن وہ یہ نہیں بتاتا کہ غزہ چھوڑ کرکہاں جائیں، کس راستے سے جائیں؟ کیا اسرائیل انھیں اپنی زمین سے کہیں اور جانے کا راستہ دے گا۔کیا یہ اپنے آپ میں یہ دہشت گردی نہیں کہ مغربی کنارہ میں فلسطینی لوگوں کو 565 طرح کی چیک پوائنٹس رکاوٹوں سے گزرنا پڑتا ہے یہاں تک کہ لوگوں کو اسپتال جانے کے لیے کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں کیا یہ دہشت گردی نہیں؟

اس تنازے کی بنیادی وجہ مشرق وسطیٰ میں ناجائز طریقہ پر ریاستِ اسرائیل کا قیام ہے۔ اس کا دوسرا سبب 1967 میں ہونے والی چھ روزہ جنگ کے بعد سے مشرقی بیت المقدس پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ ہے۔ اسرائیل کے اس اقدام کو عالمی برادری کی اکثریت نے تسلیم نہیں کیا ہے اور اقوام متحدہ کی کئی قراردادیں اس عمل کو غیر قانونی قرار دیتی ہیں، تاہم اسرائیل کی یہ ہٹ دھرمی ہے کہ وہ یروشلم کو اپنا دارالحکومت کہتا ہے۔ اسرائیل کی اس دھاندلی کو مسلمانوں نے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا کیونکہ ان کے نزدیک القدس فلسطین کا دارالحکومت ہے۔ مسلمان اس کے لیے مزاحمت کرتے رہے ہیں اور اس کو کچلنے کی خاطر اسرائیل بدترین مظالم کرتا رہا ہے۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی موقر بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی اپنی تحقیق و تفتیش کے بعد اس بات کی گواہی دی ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں اور اپنے عرب شہریوں کے خلاف اسرائیل نسلی امتیاز اور ریاستی جبر و استبداد کے جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔

دنیا کے نظریات میں آتی اس تبدیلی کے تناظر میں یہ سوال ذہن کے پردے پر ابھرتا ہے کہ کیا ہی ہو، اگر اسرائیل کی ریزرو فوج اور فوج میں نئے نئے بھرتی ہونے والے نوجوان ایک صبح اٹھیں اور فیصلہ کریں کہ اب وہ کسی کو نہیں ماریں گے اور اس جنگ میں حصہ نہیں لیں گے، اگر ایسا ہوجاتا ہے تو انھیں بھی اسرائیل چھوڑنا ہوگا لیکن وہ شکست خوردہ نو آبادیاتی قوت کے طور پر نہیں بلکہ ایک پناہ کے متلاشی افراد کی طرح یہ زمین چھوڑیں گے، جرمنی، آسٹریا، سویڈن اور دیگر یورپی ممالک میں نئی زندگی بسانے والے دیگر ہزاروں یہودی نوجوانوں کی طرح جنھوں نے مذہب کے نام پر تاریخ کی بدترین نسل کشی میں حصہ لینے سے انکار کردیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں