جماعت اسلامی کا دھرنا
تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کے دھرنے میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے
جماعت اسلامی نے بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور آئی پی پی معاہدوں کے خلاف لیاقت باغ راولپنڈی میں دھرنا دے دیا ہے۔ پہلے مرحلہ میں حکومت کی کوشش تھی کہ جماعت اسلامی دھرنا نہ دے سکے۔ لیکن جماعت اسلامی نے اپنے تجربے سے حکومت کی کوشش ناکام بنا دی۔ جماعت اسلامی نے اعلان کیا کہ وہ اسلام آباد کے مشہور ڈی چوک میں دھرنا دے گی۔ ریاست کی پوری مشینری اس کوشش میں لگ گئی کہ جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کو اسلام آباد میں داخل نہیں ہونے دینا۔
اسلام آباد جانے والے تمام راستے کنٹینر لگا کر بند کر دیے گئے۔ موٹر وے سمیت تمام شاہرائیں بھی بند کی گئیں۔ غرض کہ ہر وہ قدم اٹھایا گیا جس سے دھرنے کو اسلام آباد میں ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔ لیکن یہاں جماعت اسلامی کا تجربہ کام آگیا۔ اگر ان کی جگہ بانی تحریک انصاف اور ان کی جماعت ہوتی تو ساری لڑائی ڈی چوک پر ہی ہو جاتی۔ لیکن جماعت اسلامی جانتی تھی کہ دھرنا تو دھرنا ہوتا ہے۔
اس لیے جب جماعت اسلامی نے چند ہزار لوگ اسلام آباد کے اطراف میں جمع کر لیے تو انھوں نے لیاقت باغ میں دھرنا دے دیا۔اس موقع پر جب ساری انتظامیہ ڈی چوک پر دھرنا روکنے کی کوشش میں تھی۔ لیاقت باغ انھیں بھی قابل قبول تھا۔
اس طرح جماعت اسلامی نے لیاقت باغ میں دھرنا دے دیا ہے۔ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق جماعت اسلامی وہاں چند ہزار لوگوں کو جمع کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اور وہ اب وہاں اپنی تعداد بڑھانے پر کام کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے ذرایع کے مطابق انھوں نے پورے ملک میں اپنے کارکنوں کو کال دی ہے کہ وہ دھرنے کے لیے لیاقت باغ پہنچ جائیں۔اب جماعت اسلامی کا پہلا امتحان یہی ہے کہ وہ کتنے دن اور کتنے لوگوں کو وہاں جمع رکھ سکتی ہے۔ یہی تعداد اس کی جیت اور ہارکا فیصلہ کرے گی۔
ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق جماعت اسلامی اپنے لوگوں کو کہہ رہی ہے کہ کم از کم ایک ماہ کی تیاری کر کے وہاں آئیں۔ اس لیے ابھی تو جماعت اسلامی کا اگر ان کے مطالبات نہ مانے جائیں تو کم از کم ایک ماہ تک دھرنا دینے کا موڈ ہے۔ اب وہ ایک ماہ تک کیا لیاقت باغ میں ہی بیٹھے رہیں گے یا ایک مناسب طاقت جمع کر کے اسلام آباد کی طرف رخ کریں گے۔ ابھی اس بات کا جواب جماعت اسلامی کے پاس بھی نہیں ہے۔ اگر ان کے مطالبات مان لیے گئے تو وہ جشن فتح کے ساتھ گھر چلے جائیں گے۔ لیکن اگر ان کی کوئی بات بھی نہ مانی گئی تو پھر خالی ہاتھ گھر جانا ان کے لیے بھی ممکن نہیں ہوگا۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ حافظ نعیم الرحمٰن نے امیر جماعت اسلامی بن کر پہلا بڑا سیاسی داؤ کھیل دیا ہے۔ وہ ملک کی سیاست میں جماعت اسلامی کو صف اول میں لانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ آج ہر طرف جماعت اسلامی کی بات ہو رہی ہے۔ جماعت اسلامی مرکز نگاہ بن گئی ہے۔ لیکن یہ سب کب تک۔ اگر جیت گئے تو کمال ہو جائے گا۔ جماعت اسلامی کو ایک نیا جنم مل جائے گا۔ اس کی ایک نئی سیاسی پیدائش ہو جائے گی۔ لیکن اگر ہار گئے تو یہ ہار ان کا بہت عرصہ تک پیچھا کرے گی۔ اس لیے حافظ نعیم الرحمٰن کو جیت اور ہار کے درمیان کچھ تلاش کرنا ہوگا۔ یہی بہترین سیاسی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔
تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کے دھرنے میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالانکہ اگر تحریک انصاف جماعت اسلامی کے دھرنے میں شامل ہوتی تو اس کا تحریک انصاف کو فائدہ ہوتا۔ اگر وہ دھرنے میں اپنے لوگ زیادہ تعداد میں جمع کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو وہ دھرنے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے تھے۔ لیکن شاید تحریک انصاف کسی بھی قسم کا کوئی احتجاج کرنے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتی۔ وہ صرف عدالتوں میں درخواستیں دے کر ایک ماحول اور بیانیہ بنانا چاہتے ہیں کہ انھیں احتجاج کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ حقیقت میں وہ کوئی احتجاج کرنے میں دلچسپی میں ہی نہیں رکھتے۔
جماعت اسلامی کے دھرنے نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ عوامی احتجاج نہ تو کسی حکومتی اجازت اور نہ ہی کسی عدالتی اجازت کا محتاج ہوتا ہے۔ عوامی احتجاج صرف اور صرف عوامی طاقت کا محتاج ہوتا ہے۔ اگر عوام ہیں تو احتجاج کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اور پھر کسی اجازت کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ایسی باتیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ آئی پی پی مالکان کی تحریک انصاف میں لابی بھی بہت مضبوط ہے۔ اسی لیے تحریک انصاف بجلی کی مہنگائی کے خلاف کسی بڑی احتجاجی تحریک کو چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
جماعت اسلامی نے ہزاروں لوگ جمع کر لیے ہیں لیکن ایک گملہ بھی نہیں ٹوٹا ہے۔ ابھی تک دھرنا اور احتجاج پر امن ہے۔ حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔ لیکن جماعت اسلامی کے مطالبات منظور کرنا حکومت کے بس میں نہیں ہے۔ اگر بجلی سستی کرنا حکومت کے بس میں ہوتا تو اس کے لیے جماعت اسلامی کے دھرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت خود ہی بجلی سستی کر دیتی۔ اب جہاں تک آئی پی پی کا معاملہ ہے تو یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے۔
ایک طرف حکومت کے اپنے لوگ بھی آئی پی پی معاہدوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کر رہے ہیں۔ دوسری طرف جماعت اسلامی دھرنا دے چکی ہے۔ بجلی کے معاہدے منسوخ کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ ریاست کے لیے یہ بہت مشکل ہے۔ ریاست سمجھتی ہے کہ یہ معاہدے پاکستان کی معیشت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ لیکن معاہدے ایسے ہیں کہ بیک جنبش قلم ختم نہیں کیے جا سکتے۔ ریاست پاکستان ان معاہدوں سے باعزت طور پر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہی ہے۔
کیا جماعت اسلامی کا دھرنا حکومت کو ایسا کوئی راستہ دے سکتا ہے؟ قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن پاکستانی نجی پاور کمپنیوں کو بھی ملکی حالات کی سنگینی کو پاکستان کا متوسط اور غریب طبقہ بجلی کی مہنگائی سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ جماعت اسلامی کو سب کے ناموں کی تشہیر کرنی چاہیے کیونکہ قوم کو جاننے کا حق ہے کہ یہ معاہدے کن شرائط پر ہوئے ہیں؟ معاہدوں پر کس کس سرکاری عہدیدار یا وزیر نے دستخط کیے ہیں۔
جماعت اسلامی کا دھرنا کوئی حکومت گرانے کے لیے نہیں ہے۔ وہ حکومت حاصل کرنے کے لیے بھی نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو جماعت اسلامی کا سستی بجلی کا مطالبہ ہر گھر اورہر شہری کا مطالبہ ہے۔ حکومت بھی اس کے حق میں ہے۔ راستے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا دھرنا یہ ممکن کر سکتا ہے۔ یہی اصل امتحان ہے۔