حکومت اور عوام میں بڑھتی ہوئی خلیج
ریاستی نظام طاقت ور اور سیاسی و جمہوری نظام کمزور ہوکر رہ گیا ہے
جدید ریاست اور حکمرانی کا نظام بنیادی طور پر عوامی مفادات سمیت بنیادی حقوق کی منصفانہ رسائی و شفافیت کے ساتھ جڑا ہوتا ہے ۔ان ہی اصولوں کی بنیاد پر نظام کی ساکھ قائم ہوتی ہے اور ریاست ، حکومت اور شہریوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم ہوتا ہے۔ جو نظام بھی عوام کے جان ومال کو تحفظ اور عوامی ترقی کو بنیاد نہیں بناتا تو وہاں انتشار اور تقسیم کی سیاست میں نفرت اور لاتعلقی کی پہلو نمایاں ہوتا ہے ۔
ہم بطور ریاست ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں جہاں اوپر سے لے کر نیچے تک لوگوں کے ذہنوں میں سوالات سے جڑی ایک لمبی کہانی ہے ۔ کہانی کا لمبا ہونا فطری امر ہے کیونکہ جب سوالوں کے جوابات دینے کے بجائے ہم مزید سوالوں پر سوالات کھڑے کررہے ہیں تو جوابات کی کہانی پس پشت چلی جاتی ہے۔ بحران یا مسائل کا پیدا ہونا حکومتی نظام میں فطری امر ہوتا ہے ۔لیکن بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ریاست اور حکومت کا مجموعی نظام کیسے بحرانوں یا مسائل سے نمٹتے ہیں ۔اصل مسئلہ ریاستی و حکومتی نظام کی جہاں ساکھ کا ہوتا ہے وہیں ایک بڑا مسئلہ اس نظام کی صلاحیت اور اس سے جڑے افراد کی قابلیت یا عوام سے کمٹمنٹ سے جڑا ہوتا ہے ۔
پاکستان کا مسئلہ اب کسی فلسفہ یا تاریخ کا سوال نہیں اور نہ ہی لوگوں میں کوئی بڑی علمی و فکری مباحث کی بحث موجود ہے ۔ لوگ اس نظام میں اپنا سیاسی ، سماجی ، معاشی اور قانونی حق تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ شہریوں کا یہ حق ریاست پر ان کا کوئی احسان کا درجہ نہیں رکھتا بلکہ یہ ریاست اور حکومت کا بنیادی حق ہے اور اس کا اظہار آئین پاکستان میں شہریوں کے حقوق کی ضمانت کی صورت میں نظر آتا ہے ۔لیکن ہمارا مسئلہ شفاف ریاست اور حکمرانی کے نظام سے جڑا بحران ہے ۔ کیونکہ ہم شہریوں کے بنیادی حقوق کی پاسداری کو ہر ممکن بنانے کے بجائے ''طبقاتی بنیادوں پر مفاداتی نظام '' کو تقویت دیتے ہیں ۔
یہ سوچ حکومت اور شہریوں کے درمیان ایک بڑی خلیج کو پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے ۔ایسے لگتا ہے کہ ہمارے حکومتی نظام پر '' طاقت ور حکمران یا فیصلہ ساز طبقہ '' کی سیاسی ، سماجی سمیت معاشی اجارہ داری ہے ۔فیصلوں کی بنیاد عام آدمی یا ریاستی مفادات کے بجائے اقتدار یا طاقت میں موجود افراد یا گروہ ہوتے ہیں اور ہمارا یہ ریاستی نظام ان طاقت ور طبقات کی سیاست میں سہولت کاری کا کردار ادا کرتا ہے ۔
لوگوں کا مسئلہ محض معاشی نہیں بلکہ ان کے سیاسی ، سماجی ، قانونی حقوق ایک طرف اور دوسری شہری آزادیاں ، اظہار رائے، انسانی حقوق اور فیصلہ سازی یا ووٹ کی سیاست میں ان کی موثر شمولیت اور رائے کو تسلیم کرنے سے بھی جڑا ہوا ہے ۔لوگوں کو لگتا ہے کہ جمہوریت کے ماڈل میں موجود یہ بنیادی افکار سے ہماری ریاست اور حکومت سمیت گورننس کا نظام محروم ہے ۔ نوجوانوں کی سطح پر ریاست سے لاتعلقی یا ناراضگی کا پہلو بڑھ رہا ہے ۔لیکن ہماری حکومتی پالیسیوں میں نئی نسل کے مسائل پر توجہ دینے اور ان کا حل تلاش کرنے کے بجائے ان کی سوچ کو ریاستی نظام سے بغاوت کے طور پر دیکھ رہے ہیں ۔
اس کا ایک بڑا نتیجہ دونوں اطراف سے ایک '' سخت گیر ردعمل '' کی سیاست کے طور پر سامنے آرہا ہے اور اسی وجہ سے انتہا پسندی اور پرتشدد رجحانات کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے ۔دنیا جدید ریاستوں اور حکمرانی کے نظام سے جڑے نئے تجربات سے سیکھنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ نظام اور شہریوں کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں ، خلیج اور تحفظات کو کم کیا جاسکے ۔ لیکن ہم بضد ہیں کہ دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں سے کچھ نہیں سیکھنا اور ان ہی فرسودہ حکمرانی کے نظام اور اس سے جڑے تضادات کی بنیاد پر ہی نظام کو چلانا ہے ۔
خواہش ہماری جدید ترقی کی ہے جب کہ حکمت عملی فرسودہ سوچوں سے جڑی ہوئی ہے اور اسی ٹکراؤ کی وجہ سے ہم مزید نئے مسائل کو پیدا کررہے ہیں۔ ہمارے حکومتی اور ادارہ جاتی نظام پر داخلی و خارجی دونوں سطحوں پر نہ صرف سوالات اٹھ رہے ہیں بلکہ ان تمام معاملات پر تسلسل کے ساتھ ہماری درجہ بندی میں کمی واقع ہورہی ہے ۔اسی وجہ سے معاشرے میں موجود کمزور طبقات کو اس نظام میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔وہ مڈل کلاس جس نے کچھ برسوں میں خود کو بدلا اور معاشی ترقی کی بنیاد پر اپنے رہن سہن کی سطح پر کچھ تبدیلیاں کی وہ ہی طبقے آج سب سے زیادہ بدحال نظر آرہے ہیں ۔
حکومت کا نظام غیر ضروری مباحث، غیر اہم مسائل اور ترجیحات میں حقیقی ترجیحات کے فقدان کا عمل سمیت سیاسی مہم جوئی کا کھیل ، جمہوری اور سیاسی نظام میں رکاوٹوں کے باعث ہم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی جانب جا رہے ہیں ۔ریاستی نظام طاقت ور اور سیاسی و جمہوری نظام کمزور ہوکر رہ گیا ہے ۔یہ نظام نوجوانوں کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے ان کو اسی نظام سے لاتعلقی پر مجبور کررہا اور اسی بنیاد پر ملک سے نوجوان نسل باہر جانے کو ترجیح دے رہی ہے ۔نیا روزگار پیدا کرنا ، نئی چھوٹی اور بڑی صنعتوں کو قائم کرنا یا ان نوجوانوں کے لیے سازگار معاشی حالات پیدا کرنے میں ریاستی نظام ناکامی سے دوچار ہے ۔
یہ جو امیری اور غریبی کا فرق ہے یا یہ جو طاقت ور اور کمزور کا رشتہ ہے اسے محض طاقت ہی کی بنیاد پر چلایا جائے گا یا اس میں سے ایک منصفانہ اور ذمے دار ریاست کے نظام سے جڑی جھلک کو بھی ہم دیکھ سکیں گے ۔یہ جو حکومتی یا سیاسی نظام میں ہمیں'' سیاسی فتوؤں پر مبنی کھیل'' جن میں غداری ، باغی، دہشت گردی، سیکیورٹی رسک کو چیلنج کرنا۔ مذہب کا سیاسی استعمال، جمہوریت کے نام پر جمہوریت ، آئین و قانون کی بربادی کاکھیل، حکومتوں کو بنانا اور گرانے کا شوق ، کنٹرولڈ نظام کو ہی بنیاد بنا کر آگے بڑھنا یا وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور بری طرز حکمرانی جیسے مسائل سے ہم دوچار ہیں، ان کا علاج کیسے ممکن ہوگا۔ جدید سطح پر مبنی اچھی طرز حکمرانی ، آئین وقانون کی بالادستی ، پارلیمنٹ اور سیاسی اداروں کی فوقیت اور مربوط ادارہ جاتی نظام کیا ہماری ترجیحات ہوسکتی ہیں اور اگر ہیں تو پھر ہم پیچھے کیوں ہیں اور اگر نہیں ہیں تو اس ناکامی کا ذمے دار کون ہے اور کیونکروہ احتساب سے بالاتر ہیں ۔
یہ حکومتی نظام جس انداز سے چلایا جا رہا ہے وہ کارگر نہیں اور نہ ہی یہ ہمارے حقیقی اہداف کے حصول میں ہماری کوئی بڑی مدد کرسکے گا۔ یہ واقعی رانگ نمبر ہے اور اس نمبر پر بدستور کھڑے رہنے کی ضد ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔ اس ملک کے سیاسی نظام کو جس بے رحمی سے چلایا جارہا ہے اس نے سیاست اور جمہوریت کے معاملات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور کمزور بھی کر دیا ہے ۔ سیاسی جماعتوں ، سیاسی قیادت اور سول سوسائٹی نے اپنی خود مختاری کے نام پر جو سیاسی سمجھوتے کیے یا جو اپنے مفاد کو بنیاد بنا کر سیاسی فیصلے کیے یا طاقت کے سامنے کھڑے ہونے کے بجائے خود کو سرنڈر کیا وہ خود بڑے جرائم ہیں۔
آج کا سیاسی نظام اور اس کی بنیاد پر جڑی سیاسی جماعتیں عوام کی سیاست نہیں بلکہ اپنے اپنے اقتدار کی جنگ لڑرہی ہیں ۔ اسلام آباد میں جاری اس اقتدار کی جنگ میں عام آدمی کی حیثیت محض ایک تماشائی کی رہ گئی ہے۔ تماشائی بھی ایسا ہے جس کے پاس سوائے ماتم کے اور کچھ نہیں یا وہ اپنی جعلی امیدوں کی بنیاد پر روزانہ نئے خواب دیکھتا ہے اور پھر روز ہی نہ صرف ان خوابوں کو ٹوٹتا دیکھتا ہے بلکہ جن لوگوں پر اعتماد کرتا ہے وہ خواب بھی ٹوٹ جاتا ہے ۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ یہ نظام عوام کے مفاد کی تکمیل کی بنیاد پر ہی چل سکتا ہے۔ اس وقت یہ نظام اپنی اہمیت کھوتا جا رہا ہے اس کی بحالی پر ہمیں مجموعی طور پر ان غیر معمولی حالات میں سب کو غیر معمولی اقدامات کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہے، نیا روڈ میپ تیار کرنا ہے اور سابقہ غلطیوںکی ہر سطح پر اصلاح کرنی ہے تو شاید بات آگے بڑھ سکے ۔