لیڈر کی پہچان
پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں اقتدار پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا ہارگردانا جاتا ہے
پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں اقتدار پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا ہارگردانا جاتا ہے اورکبھی کبھی تو صاحب اقتدار کے لیے تخت و تاج کا یہ اختیار پاؤں کی بیڑیاں اور گلے کا پھندا بھی بن جاتا ہے۔ آج کا پاکستان تو اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے اور اس کے 18 کروڑ عوام خوف و ہراس، دہشت، وحشت، بربریت، قتل و غارت اور آگ و خون کے شعلوں میں گھرے ہوئے ہیں ایسے ملک میں حکومت کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
اس کوچہ اقتدار میں وہی لیڈر کامیاب و کامران ہے جو نہ صرف نڈر، بہادر اور بے خوف ہو بلکہ صاحب بصیرت، دور اندیش، حالات کی نزاکتوں اور وقت کے تقاضوں کو سمجھنے والا، تدبر و فراست سے الجھی ڈور کا سرا ڈھونڈنے کی قدرت رکھنے، جمہوریت کے اسرار و رموز سے واقف، طاقتور قوتوں سے معاملہ فہمی کا ادراک رکھنے والا اور جرأت مندانہ اقدامات بے خوفی سے اٹھانے کی صلاحیت کا حامل ہو۔ آپ گزشتہ دو تین دہائیوں کی قومی سیاست اور ملکی سیاستدانوں و لیڈروں کے سیاسی رویوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا محترمہ بے نظیربھٹو، آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے درمیان ایک خاص قسم کی تفریق نظر آتی ہے۔
بالخصوص محترمہ بے نظیربھٹو اور آصف علی زرداری کے مقابلے میاں نواز شریف یکسر مختلف رویوں کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ شہید بے نظیربھٹو ایک نڈر، بہادر، بے خوف اور جرأت مند و زیرک لیڈر تھیں وہ جمہوریت کے استحکام، ملکی دفاع، انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف ایک واضح و دوٹوک موقف رکھتی تھیں اور یہ سیاسی ورثہ انھیں اپنے والد شہید بھٹو سے منتقل ہوا تھا جنھوں نے قوتوں کے آگے سر جھکانے کی بجائے عزت کے ساتھ تختہ دار کو قبول کر کے تاریخ میں امر ہو جانا پسند کیا اور یہی حقیقی لیڈر کی پہچان ہے۔
بے نظیر بھٹو نے 2008ء میں جب جلاوطنی ختم کر کے وطن واپسی کا فیصلہ کیا تو انھیں ہر جانب سے خوفناک انداز سے ڈرایا دھمکایا گیا کہ اگر وہ پاکستان گئیں تو دہشت گرد انھیں جان سے مار دیں گے لیکن شہید بی بی نے ہر قسم کے خطرات کے باوجود ملک و قوم، جمہوریت اور غریب عوام کی خاطر وطن واپس آئیں 18 اکتوبر 2008ء کو خدشات کے عین مطابق ان کے تاریخی استقبالی جلوس پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا لیکن بی بی محفوظ رہیں۔
اگلے ہی دن ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں بی بی نے واضح طور پر کہا تھا کہ ''میں پاکستان کے عوام کو تنہا نہیں چھوڑوں گی، میں جمہوریت دشمن، دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو یہ موقع نہیں دوں گی کہ وہ اپنی مرضی اور اپنا ایجنڈا ہم پر مسلط کریں'' شہید بی بی نے اپنا قول نبھایا وہ بہادری کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف ڈٹ گئیں اور اپنی انتخابی مہم جاری رکھی بالآخر 27 اکتوبر کی شام راولپنڈی میں دہشت گرد انھیں ٹارگٹ کرنے میں کامیاب ہو گئے اور پاکستان کے کروڑوں عوام اور عالم اسلام ایک جری، بہادر اور مدبر لیٹر سے محروم ہو گیا۔
شہید بے نظیربھٹو نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وطن، جمہوریت اور غریب عوام کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے بہادری و قربانی کی جو لازوال مثال قائم کی اسے ان کے شوہر آصف علی زرداری نے آگے بڑھایا۔ 2008ء میں جب وہ ملک کے صدر منتخب ہوئے تو انتہا پسندی و دہشت گردی سے ملک کو نجات دلانے کے لیے دلیرانہ اور ٹھوس موقف اپنایا اور جرأت مندانہ اقدامات اٹھائے جس کا اعتراف غیرملکی ذرایع ابلاغ میں بھی کیا گیا۔
ممتاز امریکی تجزیہ نگار راجر کوہن نے انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبون اور نیویارک ٹائمز میں شایع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں واضح طور پر لکھا ہے کہ زرداری طالبان کے حوالے سے اپنے الفاظ میں وہ کافی سمجھدار، سیکولر، بہادر اور جمہوریت کے لیے پرعزم ہیں۔
راجر کوہن نے مزید لکھا کہ زرداری کہتے ہیں کہ ''یہ میرا فیصلہ ہے کہ ہم ان سے نمٹیں گے، ہم اپنے ملک کو ان سے آزاد کروائیں گے، یہ میری پہلی ترجیح ہے کیونکہ میرے پاس کوئی دوسرا ملک نہیں ہے، اگر جنگجوؤں کو ختم نہ کیا جا سکا تو میں کس ملک کا صدر ہوں گا'' اور پھر دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ آصف علی زرداری نے ہزارہا مشکلوں، آزمائشوں، چیلنجوں اور مسائل کے باوجود انتہاپسندی و دہشت گردی کے خاتمے، امن کے قیام اور جمہوریت کے استحکام کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں اور پانچ سال تک جمہوری عمل کے تسلسل کو دانشمندی، سیاسی تدبر اور حکمت و بصیرت سے یقینی بنایا اس کا اعتراف ہر سطح پر کیا گیا۔
آج بلاول بھٹو زرداری اپنے نانا، والدہ اور والد کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے وطن عزیز کو دہشت گردی و انتہاپسندی کے عفریت سے نجات دلانے کے لیے بڑی بے خوفی و بہادری کے ساتھ دو ٹوک انداز سے کھل کر اپنے موقف اور عزم صمیم کا اظہار کر رہے ہیں اور یہی حقیقی لیڈروں کی پہچان ہوتی ہے اور عوام بھی ایسے ہی لیڈر پر اعتماد کرتے ہیں۔
اب آپ محترمہ بے نظیربھٹو، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے دہشت گردی و انتہاپسندی کے حوالے سے متذکرہ وژن کے مقابلے میں آج کے حکمراں وزیر اعظم میاں نواز شریف کے گزشتہ ایک سالہ دور حکومت کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ اس دوران میاں صاحب انتہاپسندی، دہشت گردی، انرجی بحران، غربت کے خاتمے، جمہوری تسلسل کے استحکام، گڈ گورننس اور قیام امن کے حوالے سے کوئی قابل ذکر پیش رفت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
میاں صاحب طالبان سے مذاکرات اور آپریشن کے حوالے سے ٹھوس و دو ٹوک موقف کا اظہار نہیں کرسکے بلکہ مذاکرات و آپریشن کے ذکر پر الفاظ چباتے ہوئے نظر آتے ہیں، ہرچند کہ پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کردیا ہے لیکن آج بھی میاں صاحب کی ''آرزوئے دل'' ان کے بیانات کے پس پردہ کہیں کہیں جھلکتی نظر آتی ہے، مبصرین و تجزیہ نگار وزیر اعظم نواز شریف کو آصف علی زرداری سے سیاست سیکھنے کا مشورہ بھی اسی لیے دے رہے ہیں کہ ان میں قوت فیصلہ کا فقدان ہے۔
یہ تو بھلا ہو قوم کا کہ پاک فوج کو جنرل راحیل شریف کی شکل میں ایک بہادر، نڈر، بے خوف، دور اندیش، معاملہ فہم اور حالات وواقعات کے تقاضوں کو سمجھنے اور قوت فیصلہ کی صلاحیت کا حامل سربراہ مل گیا ہے جس کی حکمت، تدبر اور بصیرت کے طفیل ملک سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے، امن کے قیام، عوام اور حساس قومی تنصیبات کو خودکش حملوں، بم دھماکوں وٹارگٹ کلنگ سے نجات دلانے کے لیے پاک فوج نے جنرل راحیل شریف کی جرأت مندانہ قیادت میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ''ضرب عضب'' شروع کردیا ہے جس کے معاملہ افزا نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔
اگر مقتدرہ قوتیں وزیر اعظم کی ''طالبان مذاکرات'' پالیسی پر مزید صبر کرتیں تو قومی معیشت بڑے خسارے میں چلی جاتی ، پاک فوج کے نہ جانے کتنے جوان اور شہید ہوجاتے، کتنے ہی معصوم و بے گناہ لوگ اور ہماری حساس قومی تنصیبات دہشت گردوں کا نشانہ بن جاتیں اور ممکن تھا کہ عالمی سطح پر پاکستان کو خطرناک ملک قرار دے دیا جاتا کیونکہ طالبان مذاکرات کی آڑ میں تیزی سے دوبارہ منظم، متحد و مربوط نیٹ ورک قائم کر رہے تھے۔ مقام اطمینان ہے کہ جنرل راحیل شریف نے ان کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کا بیڑا اٹھالیا۔ آج پوری قوم پاک فوج کی پشت پر پوری قوت کے ساتھ کھڑی ہے طالبان کے حامی تنہا رہ گئے ہیں، فوج اور عوام کا موڈ دیکھ کر وزیراعظم میاں نواز شریف بھی آپریشن پر راضی ہو گئے لیکن دوٹوک موقف اختیار کرنے میں ناکام رہے ۔