خوف کی حقیقت
خوف زندگی کا سچ ہے۔ خوف ایک حقیقت ہے جس سے فرار حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
خوف زندگی کا سچ ہے۔ خوف ایک حقیقت ہے جس سے فرار حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اگر بے جا خوف ذہن میں دھرنا مار کر بیٹھ جائے، اس کی وجہ سے روز مرہ کے معمولات متاثر ہونے لگیں تو وہ خوف یا ڈر پریشان کن نوعیت اختیار کر لیتا ہے، جس کا وقت پر سدباب ضروری ہو جاتا ہے۔ کچھ دن پہلے ایک خاتون کا ای میل موصول ہوا لکھتی ہیں ''آپ کا خوف کی نفسیات پر لکھا ہوا مضمون نظر سے گزرا۔ میں اپنی بیٹی کے حوالے سے پریشان ہوں۔ وہ شادی شدہ ہے۔ اس کے دو چھوٹے بچے ہیں، شوہر خیال رکھنے والا ہے، البتہ سسرال میں کچھ مسائل ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ بہت خوفزدہ رہنے لگی ہے۔
کوئی دروازہ بھی کھٹکھٹائے تو اس کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ خوف کے مارے اس کا سر چکرانے لگتا ہے اور جسم پر رعشہ طاری ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد مزید اپنے بارے میں لکھتی ہیں کہ ''جب یہ بچی میرے پیٹ میں تھی تو میرے شوہر کے ساتھ جھگڑے چل رہے تھے میری ذہنی حالت بہت بری تھی۔ یہ حالات طلاق پر جا کے ختم ہوئے۔ وہ بچپن سے ڈری سہمی رہتی تھی۔ اس میں خوداعتمادی کا فقدان تھا۔ آپ مجھے بتائیے میں کیا کروں۔ ہم لوگ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا مہنگا علاج کرانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔'' یہ حقیقت ہے کہ عورت کی صحت اور ذہنی کارکردگی اس کے حالات پر منحصر ہے۔
عورتوں میں جو موڈ کی خرابیاں پائی جاتی ہیں وہ ان کے طبعی نسوانی مسائل سے تعلق رکھتی ہیں، چاہے انھیں کوئی بیماری نہ بھی ہو۔ عورت کی جسمانی ساخت، ذہن و جذباتی اتار چڑھاؤ اور مزاج اس کی طبعی حالت یا ہارمونز کی بہتر یا بدتر ہونے پر منحصر ہے۔ ہارمونز ایک ایسی رطوبت ہے جو خون میں شامل ہو کر دوسری بافتوں میں عاملیت پیدا کرتی ہے۔ ان ہارمونز کا عدم توازن عورت کی صحت و ذہنی صحت کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔
جو خواتین ہارمونل شفٹ کے حوالے سے حساس واقع ہوتی ہیں، ان میں مزاج کی خرابیاں عروج پر پہنچ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عورتیں پری مینسٹرل اسٹریس، حمل، ڈپریشن (حمل کے دوران امراض) درمیانی عمر میں مینوپاز کے دوران ذہنی و جذباتی ہیجان سے گزارتی ہیں۔ صحت مند غذا اور سمجھدار رویے ان تمام تر مسائل کا حل ہیں۔ مگر ایک ایسا معاشرہ جو عورتوں کے طبعی و ذہنی مسائل نہیں سمجھتا، کبھی ان سے انصاف نہیں کر پاتا۔
یہی وجہ ہے کہ ذہنی کرب سے گزرتی مائیں ایسے بچوں کو جنم دیتی ہیں، جن کی جسمانی و ذہنی ساخت میں کمی رہ جاتی ہے۔ ماں کی ذہنی کیفیت موروثی طور پر بچے میں منتقل ہو جاتی ہے۔ اگر ماں پہلے ہی ذہنی دباؤ کا شکار ہے تو دوران حمل اس کی ذہنی حالت مزید بگڑ جاتی ہے۔ اس کی ذہنی و جسمانی کیفیت نہ شوہر سمجھتا ہے اور نہ سسرال والے۔ البتہ وہ شوہر منتظر ہوتا ہے کہ وہ اولاد نرینہ سے نوازے گی۔
بیٹی ہونے کی صورت میں ماں الگ ذہنی عذاب اور منفی رویوں کا سامنا کرتی ہے۔ اسی کیفیت میں ماں جب بچے کو دودھ پلاتی ہے تو وہ تمام تر خوف و نفرت بچے میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس میں ماں کا قصور نہیں ہوتا بلکہ سماجی سوچ اور غیر انسانی رویے ذہنی طور پر بیمار بچوں کو فروغ دیتے ہیں۔ یوں ایک ذہنی طور پر غیر فعال معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ حمل کے دوران ہی ماں کی سوچ اور ذہنی تکلیف بچے پر اثرانداز ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
ماں جس ذہنی عذاب سے گزرتی ہے بچے بھی اسی تکلیف سے گزرتے ہیں۔ ماں ایک ایسا آئینہ ہے، جس میں بچے اپنی روح کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔ جس معاشرے میں ماں پرسکون اور سکھی ہے، وہاں پر تنظیم و ترتیب پائی جاتی ہے۔ معاشرے ذہنی ترتیب کے عدم توازن سے انتشار میں مبتلا ہوتے ہیں۔
سندھ میں ستر فیصد مائیں وٹامن ڈی، غذا کی کمی اور صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ جس کی وجہ سے کمزور اور ذہنی طور پر غیر فعال بچے پیدا ہوتے ہیں۔ یہی بچے جو ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں تو ذرا سوچیے کہ مستقبل کی کارکردگی کیا ہو گی! غذا کی کمی کی وجہ سے بچوں پر ویکسین تک اثر انداز نہیں ہوتیں، اور وہ وبائی بیماریوں کا بار بار شکار ہو جاتے ہیں۔ فقط نمونیا ہر سال 52,000 پاکستانی بچوں کی زندگیوں کے چراغ بجھا دیتی ہے۔ سندھ کی صورتحال یہ ہے کہ سو میں سے بارہ بچے پانچ سال مکمل ہونے سے پہلے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ فقط سندھ کی بات نہیں ہے کہ ماں اور بچے کی صحت غیر محفوظ ہاتھوں میں ہے، بلکہ یہ مسئلہ چاروں صوبوں میں گمبھیر نوعیت کا حامل ہے۔ جہاں تک بچوں اور ماؤں میں بڑھتے ہوئے ذہنی امراض کا تعلق ہے، تو جدید ریسرچ کے مطابق وٹامن ڈی کا جسم میں انحطاط، ڈپریشن اور کئی ذہنی امراض کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ وٹامن ڈی کی نارمل مقدار اگر جسم میں موجود ہے، تو وہ بہتر دفاعی نظام، سیل گروتھ اور کینسر کی روک تھام میں موثر کردار ادا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ دانتوں اور ہڈیوں کو مضبوط بناتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی سے ذہنی و جسمانی کارکردگی کم ہوجاتی ہے۔ تھکن و چڑچڑے پن میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ صحت مند غذا ماں اور بچے کی ذہنی و جسمانی صحت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ صحت مند غذا کو تو پاکستانی مائیں اور بچے بھول جائیں، کیونکہ حالیہ مہنگائی، سیلاب آنکھوں کے تمام تر روشن خواب بہا کر لے گیا ہے۔ اگر ہم پچاس روپے فی فرد غذا کا حساب رکھیں (اوسط درجے کا کھانا) تو آٹھ افراد پر مشتمل کنبے کو تین وقت کی روٹی کے لیے تیس سے پینتیس ہزار ماہانہ درکار ہے۔ جس میں دوسری ضروریات زندگی الگ ہیں۔ جب کہ چھ سے آٹھ ہزار ایک عام آدمی کی آمدنی ہے۔
اگر دو تین لوگ مل کر بھی کمائیں تو صحت مند غذا کے ہدف تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ یہ ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر ایسی موثر پالیسی تشکیل دے جس سے سستی اور صحت مند غذا کی سہولت ہر پاکستانی کو میسر ہوسکے۔ یہ ایک ایسا خواب ہے جس کی جستجو سالوں سے محو سفر ہے، مگر شرمندہ تعبیر نہیں ہو پاتی۔ ہمارے پاس افرادی قوت موجود ہے۔ سرمایے کی بھی کوئی کمی نہیں مگر سچے، فرض شناس اور فعال معاشرتی و انتظامی ڈھانچے کا قحط پایا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں موجود غذا، پانی، بجلی ودیگر وسائل کی کمیابی کا رونا درحقیقت ان وسائل کی مناسب استعمال کا فقدان اور انتظامی بدعنوانیوں کا نتیجہ ہے۔ گڈگورننس کا مسئلہ ہر دور حکومت میں کسی عفریت کی طرح عوام کی معصوم خوشیوں اور خوشحالی کو نگل جاتا ہے۔ لہٰذا مسائل حل نہیں ہوپاتے۔ انتظامی امور میں بہتر تنظیم اور منصوبہ بندی۔ فرض شناسی و دیانتداری کا فقدان گری ہوئی معیشت کو سر اٹھانے نہیں دیتا۔ بچے و ماں کی صحت گھریلو ناچاقی، جھگڑوں اور معاشی مسائل کا شکار ہوجاتی ہے، وہ معاشرے جو سیاسی، سماجی، معاشی و معاشرتی ابتری کا شکار رہتے ہیں، وہاں ذہنی صحت ہمیشہ زوال پذیر رہتی ہے۔
اب آتے ہیں خوف کے علاج کی طرف جس کا موثر حل حقیقت پسندی اور مثبت سوچ کے علاوہ کوئی اور وسیلہ نہیں ہے۔ جیسے ان خاتون کا کہنا ہے کہ بیٹی کا شوہر خیال رکھتا ہے۔ تو میرے نزدیک یہ ایک بہت بڑا مثبت نقطہ ہے۔ بقول کسی مفکر کے کہ ''اگر دنیا میں ایک بھی ہم نفس دوست، ہم دم یا ہمدرد میسر آجائے تو انسان اطمینان سے مر سکتا ہے'' انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اسے فی الوقت کتنی نعمتیں میسر ہیں۔