مارکسی ہوں مگر ادب میں کسی نظریے کا پابند نہیں شمیم منظر

نئے ادیبوں کی شناخت میں ہمارے وہ نقاد رکاوٹ ہیں جو 70 کی دہائی سے آگے نہیں بڑھ سکے، شمیم منظر


Iqbal Khursheed July 03, 2014
معروف فکشن نگار، مترجم اور جرمن لینگوئج ڈیپارٹمنٹ، گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ، شمیم منظر کی کہانی۔ فوٹو: فائل

ایک خاص نوع کا کھلا پن ہے شخصیت میں۔ مکالمے پر بے ساختگی غالب رہی۔ برملا اعتراف کیا کہ کسی زمانے میں رضیہ بٹ کے ناولوں نے انھیں گرویدہ بنا رکھا تھا۔

راک موسیقی میں دل چسپی کا بھی ذکر کیا۔ جینز کو آرام دہ ٹھہرایا۔ البتہ شخصیت کے برعکس اُن کے افسانے ذرا مختلف ہیں۔ وہاں اتنی بے ساختگی نہیں۔ مختصر قصّوں میں بے نام کردار خود کلامی کے کرب میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ خارجی حقیقتوں پر داخلی حقائق غالب۔ شعور کی رو بھی ہے، علامت نگاری بھی۔

افسانوی مجموعے کا عنوان: ''تنہائی کا ایک دن!'' فلیپ پر پروفیسر علی حیدر ملک کی رائے درج۔ ''چوٹ''، ''جھوٹ''، ''اعتراف''، ''چکر'' اور ''قیدی'' جیسے سادہ عنوانات کے حامل اُن افسانوں کے ساتھ قاری گرم دن اور بے آرام راتوں میں داخل ہوتا ہے، جہاں تنہائی اور یاسیت منجمد ہے۔ ناول ''زوال سے پہلے'' سوانحی رنگ میں ر نگا ہے۔ ایک مارکسی نوجوان کا قصّہ۔ ناول میں مارکس ازم کا اپنے نقطۂ نگاہ سے جائزہ لیا۔ تنقید نہیں، تجزیہ کیا۔ البتہ کچھ ترقی پسند اس پر ناراض ہوگئے۔

جرمن زبان کے عالم ہیں۔ گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کا تذکرہ اُن کے بغیر ادھورا ہے۔ اِس کے پہلے پاکستانی استاد ہیں۔ گذشتہ 25 برس سے وہاں جرمن لینگوئج ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔ ادارے کے تحت ہونے والی ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں میں کلیدی کردار ادا کیا۔

فیض کی شاعری کا جرمن میں ترجمہ کر چکے ہیں۔ گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کا یہ منصوبہ 2012 میں مکمل ہوا۔ اس عمل میں انھیں ڈاکٹر مارکوس لٹز کی معاونت حاصل رہی۔ فیض کے انتخاب کا سبب 2011 میں منایا جانے والا فیض کا صد سالہ جشن تھا۔ پچاس نظموں پر مشتمل اس کتاب پر آغا ناصر اور علی حیدر ملک کی رائے درج تھی۔ منٹو کے افسانوں کو جرمن روپ دینے کا ارادہ تھا، مگر مارکوس لٹز جرمنی جا چکے تھے، اِس لیے یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔

انھوں نے ممتاز جرمن ڈراما نگار، فریڈرش شلر کے ڈرامے The Robbers کو ''قزاق'' کے زیر عنوان اردو کے قالب میں ڈھالا۔ منصوبہ آسان نہیں تھا۔ دوسو سال پرانی جرمن زبان سے پالا پڑا۔ البتہ دوستوں کی معاونت حاصل رہی۔ اس کے تین مناظر کو اسٹیج پر بھی پیش کیا گیا۔ ناقدین نے کاوش کو سراہا۔



جرمن ادب توجہ کا محور۔ اِس زرخیز تخلیقی سرزمین سے متعلق کہتے ہیں،''ادبی تذکرے میں ہم گوئٹے کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ البتہ پہلی جنگ عظیم کے بعد، جسے ہم ہرمن ہیسے کا زمانہ کہتے ہیں، ہٹلر نے قوت حاصل کر لی۔ جرمن ادیب اپنا وطن چھوڑنے لگے۔ اُس زمانے میں اچھا ادب تخلیق ہوا، مگر یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کا زمانہ تھا، جب بہترین جرمن ادب سامنے آیا۔ اُس میں جنگ اور اُس سے جنم لینے والے مسائل زیر بحث آئے۔ آپ اختلاف کر سکتے ہیں، مگر میرے نزدیک 70 کی دہائی میں جرمن ادب کی ترقی کا عمل سست ہوگیا۔''

ہٹلر کے دور اقتدار میں، اُن کے بہ قول، نازی پارٹی نے ادیبوں، شاعروں اور مصوروں کو پوری قوت سے دبایا۔ بہت سے تخلیق کاروں کو جیل ہوگئی۔ کئی بھاگ گئے۔ ''سب سے بڑا نام Thomas Mann کا ہے، جو امریکا چلا گیا تھا۔ کچھ انڈر گراؤنڈ ہوگئے۔ اُن کی تخلیقات بیرون ملک چھپا کرتیں۔ Gottfried Benn نے، جس کے بغیر بیسویں صدی کی جرمن شاعری کا تذکرہ ادھورا ہے، ابتدا میں ہٹلر کا ساتھ دیا۔ مگر وہ تخلیقی آدمی تھا، کب تک واہ واہ کرتا۔ جب اس نے تنقید شروع کی، تو اُس پر بھی پابندی لگ گئی۔ البتہ جبر کے باوجود ان تمام افراد نے اپنا تخلیقی سفر کسی نہ کسی طرح جاری رکھا۔''

جرمن سے اردو میں خاصے تراجم ہوئے۔ ہیسے کا کام مل جائے گا، گنتر گراس کا ناول بھی موجود ہے، البتہ وہ اُنھیں پڑھنے سے یوں اجتناب برتتے ہیں کہ اصل زبان سے لطف اندوز ہونے کی سہولت موجود ہے۔ خواہش ہے کہ انگریزی کے بجائے جرمن متن سامنے رکھ کر اردو میں تراجم کیے جائیں۔

یہاں کچھ دیر ٹھہر کر کیوں نہ ان کے حالات زندگی میں جھانک لیا جائے:

پندرہویں صدی میں عراق سے ہندوستان آنے والے حضرت سید ابراہیمی اُن کے جدامجد ہیں۔ اُس سپہ گر کو مغلوں کے زمانے میں ''ملک'' کا خطاب ملا۔ بہارشریف میں اُن کا مزار ہے۔ بٹوارے کے بعد خاندان نے پٹنا سے ہجرت کی، تو کراچی کے علاقے پیر الٰہی بخش کالونی کو مسکن بنایا۔ بعد میں فردوس کالونی، ناظم آباد آن بسے۔ یہیں 25 دسمبر 1955 کو شمیم منظر نے محمد منظر کے گھر آنکھ کھولی۔ وکالت کے پیشے سے وابستہ اُن کے والد روشن خیال آدمی تھے۔ رجحان مارکس ازم کی جانب۔ یہی نظریات اُنھیں وراثت میں ملے۔

دو بہن، تین بھائیوں میں وہ دوسرے ہیں۔ بچپن میں خاصے کم گو تھے۔ کرکٹ اور فٹ بال دل چسپی کے محور۔ شمار اوسط درجے کے طلبا میں ہوتا۔ چَھٹی جماعت میں ترقی پاس کیا گیا۔ 69ء میں میٹرک کرنے کے بعد جناح کالج سے انٹر کا مرحلہ طے کیا۔ اُسی زمانے میں بیرون ملک جانے کی خواہش نے انگڑائی لی، جس کی انگلی تھامے گوئٹے انسٹی ٹیوٹ پہنچے۔ تین برس وہاں بیتے۔ 74ء میں جرمنی چلے گئے۔ بڑے بھائی وہیں تھے، اُن کی مالی معاونت حاصل رہی۔ ملازمتیں بھی کیں۔ میونح یونیورسٹی میں جرمن ادب سے جُوجھتے رہے، مگر ماسٹرز کا مرحلے طے نہیں کرسکے۔ 85ء میں واپسی کے بعد جامعہ کراچی کے شعبہ برائے بین الاقوامی تعلقات عامہ سے سولہ سالہ تعلیم مکمل کی۔

گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر نے جرمن زبان پر اُن کی گرفت دیکھتے ہوئے دو سالہ ٹیچرز ٹریننگ اسکالر شپ پیش کر دی۔ ایک بار پھر میونخ۔ امتیازی نمبروں سے وہ مرحلہ طے کیا۔ لوٹ کر جرمن ڈیپارٹمنٹ، گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کے ہیڈ ہوگئے۔ مارچ 89ء سے اس عہدے پر فائز ہیں۔ اگلے سال ریٹائر ہوں گے۔

گذشتہ ڈھائی عشروں میں انسٹی ٹیوٹ کے تحت ہونے والی ثقافتی سرگرمیوں میں مرکزی کردار ادا کیا۔ 96ء میں ممتاز جرمن ادیب، گوتھولڈ افرایم لیسنگ کے مشہور ڈرامے Nathan the Wise کا اردو روپ بہ عنوان ''روشنی کے دریچے'' پیش کیا، جس کا بہت چرچا ہوا۔ مترجم کی حیثیت سے بھی مصروف رہے۔ گذشتہ پانچ برس سے جرمنی کی منسٹری آف فارن افیئرز کے ایک منصوبے کے نگراں ہیں، جس کے تحت پاکستان کے آٹھ اسکولز میں جرمن زبان کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جارہا ہے۔ مجموعی طور پر چار ہزار بچے اس وقت جرمن زبان سیکھ رہے ہیں۔

پاکستانی اور جرمن ثقافتوں کا تال میل زیر بحث آیا، تو اُنھوں نے موسیقی کے میدان میں ''فیوژن'' کے امکان کا ذکر کیا۔ تراجم کے ذریعے یک ساں خیالات تک رسائی کا خیال پیش کیا۔ جرمن سیکھنے کی افادیت زیر بحث آئی، تو کہنے لگے؛ جرمنی میں انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنسز کے غیر ملکی طلبا کو خاصی مراعات دی جاتی ہیں، اِسی باعث ہمارے ہاں جرمنی سیکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

گوئٹے انسٹی ٹیوٹ پر بھی بات نکلی۔ اُن کے بہ قول؛ پہلے اِس کی ایک شاخ لاہور میں بھی تھی، 98ء میں اسے بند کر دیا گیا۔ کراچی میں اِس وقت پانچ اساتذہ ہیں۔ سالانہ آٹھ سو طلبا داخلہ لیتے ہیں۔ کورس چھے لیولز پر محیط۔ ایک لیول کی فیس بیس ہزار روپے۔ روزانہ تین گھنٹے کلاس ہوتی ہے۔

اب کچھ تذکرہ ادبی سفر کا:

لکھاری کے لیے قاری ہونا شرط، اور وہ اس سے ماورا نہیں۔ مطالعے کا شوق اوائل سے ساتھ۔ ''تعلیم و تربیت'' اور ''کھلونا'' سے سلسلہ شروع ہوا۔ پھر ابن صفی نے متوجہ کیا۔ جرمن ادب کے مطالعے کے بعد ہی صحیح معنوں میں اردو اور انگریزی ادب کا مطالعہ شروع کیا۔ منٹو نے متاثر کیا۔ بہ قول اُن کے،''وہ ابلاغ کا ہنر جانتے تھے۔ مختصر سے افسانے میں وہ بات کہہ جاتے، جس کے لیے اوروں کے کئی صفحات سیاہ کرنے پڑتے۔''

معروف افسانہ نگار، پروفیسر محمود واجد کو وہ اپنا محسن قرار دیتے ہیں، جنھوں نے اُن میں چھپا افسانہ نگار دریافت کیا۔ اُس زمانے میں شمیم منظر جرمن افسانوں کو اردو روپ دے رہے تھے، جنھیں پڑھ کر محمود صاحب نے اُنھیں افسانہ لکھنے کی تحریک دی۔ ''زرد موسم سے پہلے'' پہلا افسانہ۔ جس تقریب میں وہ پڑھا، اُس کی صدارت قمر جمیل کر رہے تھے۔ افسانہ ''آیندہ'' میں چھپا۔ بعد میں ''صریر'' میں باقاعدگی سے تخلیقات شایع ہوئیں۔ محمود واجد اور فہیم اعظمی کو اپنا سرپرست ضرور کہتے ہیں، لیکن ان کے اسلوب سے خود کو محفوظ رکھا۔ البتہ تسلیم کرتے ہیں کہ جرمن ادب نے طرز فکر پر گہرا اثر چھوڑا۔ 2003 میں اُن کا مجموعہ شایع ہوا۔ 99ء میں ناول پر کام شروع کیا۔ درمیان میں وقفے آتے رہے۔2008 میں شایع ہوا۔ اِس کی اشاعت میں اے خیام نے کلیدی کردار ادا کیا۔

اردو کے علاوہ جرمن زبان میں بھی افسانے لکھے، جو مختلف آن لائن جرنلز میں شایع ہوئے۔ انگریزی میں بھی شاعری کی۔ کئی جرمن افسانوں اور نظموں کو اردو کے قالب میں ڈھالا۔ مستقبل میں انھیں کتابی شکل دینے کا ارادہ ہے۔ آج کل ایک ناول پر کام کر رہے ہیں۔

سیاسی سطح پر تو مارکسی ہیں، مگر ادب میں کسی نظریے کے پابند نہیں۔ کہنا ہے، ہر ادیب کسی نہ کسی نظریے کا حامل ہوتا ہے، ممکن ہے، تحریروں میں اُس کی جھلک مل جائے، تاہم اسے بنیاد بنا کر لکھنا دُرست نہیں۔ اردو تنقید کے معیار سے قطعی مطمئن نہیں۔ ''ہمارے ہاں عجیب رجحان ہے۔ اگر آپ کا کوئی کردار اپنی سوچ بیان کر رہا ہے، تو آپ کو جدیدی کہہ دیا جاتا ہے۔ اور اگر کردار کہہ رہا ہے؛ مزدوروں کو ان کا حق ملنا چاہیے، تو لیبل لگا دیا جاتا ہے کہ ادیب ترقی پسند ہے۔



ہمارے ہاں ترقی پسندی کی غلط تشریح کی گئی ۔ کارل مارکس نے کب کہا تھا کہ تم میرے نظریے کی ترویج کے لیے ادب لکھو۔ دوستو فسکی اور ٹالسٹائی کچلے ہوئے طبقے کے لیے لکھ رہے تھے، اُس وقت تو مارکس کی سوچ تھی ہی نہیں۔ ترقی پسند تو گنترگراس بھی ہے، مگر اُن کے ناول پڑھیں، تو ان پر جدیدیت کا ٹھپا لگا دیں۔ میرے نزدیک ترقی پسند ادیب کے ہاں بھی داخلی اور خارجی سوچ کا تصادم الفاظ کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔''

اردو ادب کا مستقبل اُنھیں روشن نظر آتا ہے۔ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ہاں، ناقدین سے شکایت ہے۔ ''نئے ادیبوں کی شناخت میں ہمارے وہ نقاد رکاوٹ ہیں، جو 70 کی دہائی سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ انھیں اس دہائی کے آگے کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ دراصل وہ خود کو اپ ڈیٹ نہیں کرنا چاہتے۔ خود کو عقل کُل سمجھتے ہیں۔ موجودہ نسل میں بہت باصلاحیت ادیب ہیں، مگر نہ تو اُن پر لکھا جاتا ہے، نہ ہی گفت گو ہوتی ہے۔ بس، 80 اور 90 سالہ ادیبوں پر بات ہو رہی ہے۔''

شعرا میں وہ فیض، فراز، محسن نقوی اور جون ایلیا کا نام لیتے ہیں۔ منٹو کا تو تذکرہ ہوگیا، موجودہ لکھنے والوں میں اے خیام کو سراہتے ہیں۔ محمد حمید شاہد، نسیم انجم نے بھی متاثر کیا۔ ناولوں میں ''آگ کا دریا '' اور ''خدا کی بستی'' کے ساتھ مستنصر حسین تارڑ کے ناول'' راکھ ''کا بھی تذکرہ کرتے ہیں۔ ''کئی چاند تھے سر آسمان'' کی بابت رائے ہے؛ اُس میں تاریخ کی انتہائی شمولیت سے فکشن بے طرح متاثر ہوا۔ عالمی ادب میں دوستوفسکی کے معترف۔ اس کے سب ہی ناول پڑھے۔

شمیم منظر ایسے معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں، جہاں برداشت اور مذہبی آزادی ہو۔ 89ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے دوبیٹیوں، تین بیٹوں سے نوازا۔ ایک بیٹی کی شادی ہوچکی ہے۔ کھانے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ گرمی کا موسم پریشان رکھتا ہے۔ محمد رفیع کے مداح۔ کشور اور احمد رشدی کو بھی سراہتے ہیں۔ اداکاروں میں دلیپ کمار اور محمد علی اور فلموں میں ''آئینہ ''اچھی لگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔