عوام کے دکھوں کا مداوا کون کرے
صرف ایک سیاسی پارٹی ایسی نظر آرہی ہے جسے اپنے اقتدار سے زیادہ غریب عوام کی تکالیف کا احساس ہے
ویسے تو ہر سیاسی پارٹی عوام کے مسائل حل کرنے کی باتیں کیا کرتی ہے لیکن اس کا اصل مقصد اقتدار کا حصول ہی ہوتا ہے۔ عوام کے مصائب اوردکھوں سے اس کا کوئی واسطہ نہیںہوتا۔ وہ ایسی باتیں کرکے عوام کی ہمدردیاں بھی حاصل کرتی ہے اورووٹ بھی۔ لیکن جب وہ برسراقتدار آجاتی ہے تو وہ یہ سب بھول جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں اس وقت تقریباً 175 سے زائد سیاسی پارٹیاں رجسٹرڈ ہیں لیکن اِن میں سے سوائے ایک پارٹی کے کوئی اورایسی نہیں ہے جو صحیح معنوں میں عوام کی تکالیف کا احساس کرے۔جسے ووٹ حاصل کرنے سے زیادہ عوام کے مسائل کی فکر ہو۔
ابھی حال ہی میں تین نئی سیاسی پارٹیاں معرض وجود میں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک پرویز خٹک کی تحریک انصاف پارلیمنٹیرین ، دوسری جہانگیر خان کی استحکام پاکستان پارٹی اورتیسری شاہد خاقان عباسی کی پاکستان عوام پارٹی ۔ بات وہی ہے کہ تمام کی تمام پارٹیوں کا مقصد صرف اورصرف مخالف پارٹی کو نیچا دکھانا اوراپنے لیے عوام کی ہمدردیاں سمیٹنا ہوتا ہے۔ان میں سے کسی ایک نے بھی عوام کے مسائل کے حل کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات تجویز نہیںکیے ہیں۔
صرف ایک سیاسی پارٹی ایسی نظر آرہی ہے جسے اپنے اقتدار سے زیادہ غریب عوام کی تکالیف کا احساس ہے اوروہ ہے جماعت اسلامی۔ جماعت اسلامی کوئی نئی سیاسی پارٹی نہیں ہے ۔وہ پاکستان کے بننے سے پہلے سے قائم ہے لیکن وہ ایک بار بھی اقتدار کے حصول سے سرفراز نہیں ہوسکی ہے۔اس کے باوجود اسے عوام کے مصائب اوردکھوں کا احساس ہے اور وہ مسلسل اُن کے مسائل حل کرنے کے لیے کوشاں اورسرگرداں ہے۔ وہ گرچہ اقتدار حاصل نہیں کرپاتی ہے لیکن فلاحی کاموں میں سب سے آگے ہے۔ ہمیں کوئی اورایسی پارٹی بتا دیں جسے عوام نے ہر الیکشن میں ٹھکرا دیا ہو مگر وہ پھر بھی ذاتی طور پرعوام کے مسائل حل کرنے میں مگن ہو۔لگتا ہے جماعت کو اقتدار کے حصول کی کوئی اتنی بڑی تمنا بھی نہیں ہے کہ اقتدار ملا تو ہی وہ عوام کے لیے کچھ کرپائے گی۔
اُسے کراچی والوں نے ایک سے زائد مرتبہ اپنے شہر کی حکمرانی سے نوازا ہے اور ہر بار اس نے اپنی کارکردگی سے یہ ثابت بھی کرکے دکھایا ہے کہ عوام کا فیصلہ کوئی غلط فیصلہ نہیں تھا۔اس نے جب جب اس شہر کی میئر شپ حاصل کی عوام کے مسائل حل کیے،حالانکہ اتنے بڑے شہر کے مسائل کے حل کے لیے اسے فنڈز بھی درکار تھے اورشہر کے فنڈز کے لیے اُسے سندھ حکومت کی منت سماجت بھی کرنا پڑتی تھی لیکن اس نے بہت ہی خوش اسلوبی سے معاملات حل کیے اورتھوڑے سے بجٹ میں بھی اس شہر کے لیے راحت وسکون کا سامان پیدا کیا۔اس پارٹی کی ایک اورخوبی یہ رہی ہے کہ کرپشن اورمالی بدعنوانی کا کوئی عنصر بھی اس پارٹی کے خمیر میں شامل نہیں رہا ہے۔ عوام اسے دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں پسند تو بہت کرتے ہیں لیکن نجانے اسے اس ملک کی حکمرانی کا اہل کیوں نہیں سمجھتے۔
ملکی لیول پرجماعت اسلامی ہمیشہ الیکشن ہارجاتی ہے۔ 1970 کے تاریخی الیکشن میں اس نے اس ملک کے دونوں صوبوں میں تقریباً ہرسیٹ پراپنے اُمیدوار کھڑے کیے تھے اوروہ ووٹوں کے اعتبار سے ہر نشست پردوسرے نمبر پر رہی تھی۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے مشرقی پاکستان میں ایک اُمیدوار بھی کھڑا نہیں کیا تھاحالانکہ اُسے معلوم تھا کہ آبادی اورپارلیمنٹ کی نشستوں کے لحاظ سے مشرقی پاکستان کی نشستیں تقریباً دگنی ہیں لیکن اس نے پھربھی وہاں کوئی توجہ نہیں دی۔
اقتدار کے حصول کی خواہش رکھنے والے ذہین وفہیم عوامی لیڈر کی ذہانت نجانے اس وقت کہاں چلی گئی تھی جب یہ الیکشن ہورہے تھے۔ مگر جب الیکشن کے نتائج سامنے آئے اورعوامی لیگ کو 156سیٹوں پرکامیابی حاصل ہوگئی اور پاکستان پیپلزپارٹی کے حصہ میں صرف 83 آئیں ، تو وزیراعظم بن جانے کی خواہش نے ذوالفقار علی بھٹوکو جب اقتدار ہاتھوں سے جاتا نظر آنے لگا تو انھوں نے وہ سب کچھ کیا جوانھیں نہیں کرنا چاہیے تھا اورجس کا نتیجہ اس ملک کے ٹکڑوں کی شکل میں رونما ہوا۔ اس وقت جماعت اسلامی ہی تھی جس نے وہاں ہرنشست پرعوامی لیگ کا بھرپورمقابلہ کیاتھا اوروہ دوسرے نمبر کی سیاسی پارٹی بن کر سامنے آئی تھی ۔ اس افسوسناک سانحہ پربہت کچھ کہا جاچکا ہے اوربہت کچھ کہنا ابھی بھی باقی ہے۔
ہمارا ملک آج جس گرداب میں پھنسا ہوا ہے اس کی ذمے داری ہم صرف سیاستدانوں پرنہیںڈال سکتے ہیں۔ اس میں بہت سے ظاہری عوامل ، فیکٹرز اورپس پردہ محرکات بھی شامل ہیں۔سیاسی عدم استحکام اس ملک کی معیشت کے لیے زہرثابت ہوتا رہا ہے اورجس کے پیداکرنے میں بہت سے ظاہری اورپوشیدہ کرداروں کاہاتھ رہا ہے۔ہماری مجبوری ہے کہ ہم اِن کرداروں پراکثر تنقید تو کرتے ہیں لیکن اُن کے سدباب کے لیے کوئی دائمی حل تلاش نہیں کرتے۔ایک دوسال سکون واطمینان سے گزرتے ہیںتو پھرکوئی نیاشوشہ چھوڑدیاجاتا اورعدم استحکام پیداکرتے ہوئے سارا نظام ہی اتھل پتھل کر دیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ ملک غیرملکی قرضوں میں ڈوبا چلاجاتاہے اورعوام IMF کے ہاتھوں ہوش رباگرانی اورمہنگائی کے بوجھ تلے دبے جاتے ہیں۔
آج اس وقت ہم جس مہنگائی کا رونا رو رہے ہیںاس سے نجات حاصل کرنے کے لیے حکومت ایسے سخت فیصلے کررہی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی مزید بڑھتی جارہی اورعوام پستے چلے جارہے ہیں۔ حکمرانوں کے پاس سوائے ٹیکسو ں کے ریونیو بڑھانے کا کوئی اورذریعہ نہیںہے۔ اور اس نے پٹرول اوربجلی کے بلوں کو ہی اس کا سب سے بڑا آپشن بنا لیا ہے۔ یہ وہ ذریعہ ہے جس سے فوراً ہی پیسہ حاصل ہوجاتا ہے ۔ انکم ٹیکس سے تو سال میں ایک مرتبہ رقم وصول ہوتی ہے۔اس وقت حکمرانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ اس سے جان چھڑانا بھی چاہتے ہیں اورچھڑا بھی نہیںسکتے۔وہ عوام کے درمیان آنے سے بھی گریزاں ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ عوام اُن سے بہت تنگ ہوچکے ہیں۔ وہ اگر ان کے درمیان آئے توپھرخیریت سے واپس نہیں جاپائیںگے۔
دوسری طرف اپوزیشن پارٹیاں بھی صرف زبانی کلامی عوام کے دکھوں کی باتیں کررہی ہیں۔ وہ اگردھرنا دیتی ہیں تو بھی اپنے مقاصد کے لیے، بھوک ہڑتال بھی کرتی ہیں تو اپنے لیڈرکی رہائی کے لیے ۔ عوام کے مسائل سے انھیں کوئی سروکارنہیںہے۔ ایسی صورتحال میں صرف جناب حافظ نعیم الرحمن ہی واحد شخصیت ہیں جو کمر کس کے میدان میں اتر چکے ہیں۔ انھوںنے صرف عوام کے مسائل کی بات کی ہے۔ وہ اس حکومت کو گرانا بھی نہیں چاہتے ہیں، اُن کامطالبہ صرف عوام کوریلیف پہنچانا ہے۔
انھوں نے حکومت کے سامنے دس مطالبات رکھے ہیںاورکچھ تجاویز بھی دی ہیں۔ فروری 2024 کے انتخابات سے انھیں بھی شکایات ہیں لیکن انھوں نے کبھی بھی اس کو لے کرفساد اورافراتفری پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انھوں نے اپنے احتجاج اور دھرنے کے لیے کسی اورسیاسی پارٹی کا سہارا بھی نہیںلیا۔ وہ صرف اپنے زوربازو اورطاقت پریہ معرکہ لڑرہے ہیں۔ وہ صرف عوام کوریلیف دینے کی بات کرتے ہیں۔
وہ یہ تک کہہ چکے ہیں کہ ہم حکومت گرانا نہیں چاہتے ہیں، جب کہ باقی تمام اپوزیشن پارٹیاں اس حکومت کو گرانا چاہتی ہیں۔جماعت کومعلوم ہے کہ حکومت گرانے اورنئے الیکشن کروانے سے یہ ملک اورقوم مزید مصیبتوں میںگھرجائیںگے۔ ان کے بعد جوبھی آئے گا وہ نئے سرے سے مہنگائی کرے گا اورالزام اپنی سابقہ حکومت ہی کودے گا۔اسی لیے جماعت نے جوراستہ اختیار کیا ہے وہی ایک بہترآپشن ہے۔ دھرنا دے کر حکومت کو مجبور کیاجائے کہ اپنے اخراجات کم کرے اورعوام کو کم ازکم بجلی کے بلوں میںفوری ریلیف فراہم کرے۔