اسماعیل ہنیہ کے بعد

مسلم امہ سمیت اقوام متحدہ و دیگر عالمی برادری کو نیتن یاہو کو لگام دینے کے لیے عملی اقدامات اٹھانا پڑیں گے


MJ Gohar August 02, 2024
[email protected]

اسرائیل کی بربریت، درندگی، سفاکی اور جنگی جنون کا دائرہ فلسطین کی غزہ کی پٹی سے بڑھتے بڑھتے اب ایران تک جا پہنچا ہے جہاں اس نے ایرانی دارالحکومت تہران میں فلسطینی رہنما حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ جو اپنی رہائش گاہ میں قیام پذیر تھے کو گائیڈڈ میزائل سے حملہ کر کے شہید کر دیا۔ اسماعیل ہنیہ ایران کے نو منتخب صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران گئے تھے۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ہنیہ کے قتل پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ چونکہ اسماعیل ہنیہ ایران کی سرزمین پر شہید ہوئے ہیں، اس لیے ان کے خون کا بدلہ لینا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ایران کے نو منتخب صدر مسعود پزشکیان کا کہنا ہے کہ صہیونی طاقت اپنی بزدلانہ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے نتائج جلد ہی دیکھیں گے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے ہنیہ کی شہادت کو اسرائیل کا بزدلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔

پاکستان، روس، چین، ترکیہ سمیت مختلف ممالک نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کی پرزور الفاظ میں نہ صرف یہ کہ مذمت کی ہے بلکہ اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ اسرائیل کے بزدلانہ اقدام سے امن مذاکرات کو شدید دھچکا پہنچے گا اور غزہ میں جنگ بندی کے امکانات کم ہو جائیں گے، کیوں کہ قطر میں غزہ جنگ روکنے کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات میں اسماعیل ہنیہ ہی حماس کی جانب سے اہم مذاکراتی نمایندے تھے۔ اس ضمن میں قطری وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے بالکل درست سوال اٹھایا کہ ''جب ایک فریق دوسری طرف کے مذاکرات کار کو قتل کر دے تو ثالثی کیسے کامیاب ہو سکتی ہے؟''

اسماعیل ہنیہ پر اس سے قبل بھی قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں لیکن وہ خوش قسمتی سے محفوظ رہے۔ حالیہ اسرائیلی بربریت جو 7 اکتوبر 23 سے تادم تحریر جاری ہے، میں 40 ہزار سے زائد بچے، بوڑھے، جوان، مرد اور فلسطینی عورتیں شہید ہو چکی ہیں، انھیں میں اسماعیل ہنیہ کے خاندان کے 60 سے زائد افراد بھی شہید ہو چکے ہیں جن میں ان کے تین جواں سال بیٹے اور 4 پوتے پوتیاں بھی شامل ہیں اور اب خود اسماعیل ہنیہ نے بھی شہادت کا درجہ حاصل کرکے فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔

اسرائیل نے گزشتہ دس ماہ سے غزہ میں آگ و خون کا جو الاؤ روشن کر رکھا ہے، اس میں ہر چیز جل کر تباہ ہو چکی ہے۔ غزہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ گھر، دکانیں، اسکول، اسپتال غرض ہر عمارت تباہی کا منظر پیش کر رہی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم جنگ بندی میں سنجیدہ ہونے کی بجائے جنگ کے دائرے کو وسیع کرنا چاہتے ہیں۔

وہ اس خطے کو امریکی آشیرباد سے جنگ کا اکھاڑہ بنانے کے آرزو مند ہیں۔ تہران پر حملے میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی پیروی کرتے ہوئے اسرائیلی طیاروں نے لبنان کے دارالحکومت بیروت پر حملہ کرکے حزب اللہ کمانڈر محسن فواد شکر کو بھی شہید کر دیا ہے جس سے نیتن یاہو کے مذموم مقاصد اور ناپاک عزائم کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وہ پورے خطے کو جنگ کے الاؤ میں دھکیلنا چاہتا ہے۔ حماس کے سینئر رہنما خلیل الحیاء جو ممکنہ طور پر اسماعیل ہنیہ کی جگہ حماس کی قیادت سنبھال سکتے ہیں نے بجا طور پر کہا ہے کہ اسرائیل نے ایران اور لبنان پر حملہ کیا تاکہ خطے میں آگ لگائی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس اور اس کے اتحادی ''علاقائی جنگ'' نہیں چاہتے لیکن اسماعیل ہنیہ کے قتل نے ایک واضح پیغام بھیجا ہے کہ اس دشمن کے ساتھ ہمارا واحد آپشن خون اور مزاحمت ہے۔

اسرائیلی بربریت کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جا رہا ہے۔ عالمی عدالت انصاف کے حالیہ فیصلے سے لے کر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی سطح پر ہونے والے مظاہروں کے باوجود نیتن یاہو کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔

مسلم امہ کی مجرمانہ خاموشی اور لب بستگی پر کیا سوال کیا جائے کہ آج کے مسلم حکمران اپنی خواہشات اور ذاتی سیاسی مفادات کے غلام بن کر امریکا کی جی حضوری کر رہے ہیں، فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم پر ان کی زبانیں گنگ ہو چکی ہیں۔ عالمی طاقت کا واحد مرکز امریکا پوری قوت کے ساتھ نیتن یاہوکی پشت پر کھڑا ہے اور اسی کی شے پا کر وہ کمزور و نہتے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور اسے اقوام متحدہ سمیت کوئی آگے بڑھ کر روکنے والا نہیں۔ محض زبانی کلامی ہمدردیوں اور مذمتی بیانات سے غزہ جنگ بندی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

مسلم امہ سمیت اقوام متحدہ و دیگر عالمی برادری کو نیتن یاہو کو لگام دینے کے لیے عملی اقدامات اٹھانا پڑیں گے۔ مظلوم فلسطینی اپنے خون سے جو تاریخ رقم کر رہے ہیں جلد انھیں اس کا صلہ بھی مل جائے گا۔ اسماعیل ہنیہ کے بعد مسلم امہ اور عالمی برادری کو خواب غفلت سے بیدار ہونے پڑے گا ورنہ فلسطینیوں کے خون کی لکیر طویل ہوتی چلی جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔