اسماعیل ہنیہ کی شہادت

اسماعیل ہنیہ ’’غزہ‘‘ میں بروئے کار جہادی تنظیم ’’حماس‘‘ کا عالمی شہرت یافتہ سیاسی چہرہ تھے


Tanveer Qaisar Shahid August 02, 2024
[email protected]

''میرے والد نے ہمیشہ شہادت کی آرزُو کی تھی۔ وہ ہر روز خود کو شہید تصور کرتے تھے ۔ اللہ نے اُن کی آرزُو پوری کر دی ۔ ہمیں اُن کی شہادت پر فخر ہے ۔'' یہ الفاظ اسماعیل ہنیہ شہید کے صاحبزادے ، عبدالسلام ہنیہ، کے ہیں ۔ اسماعیل ہنیہ کو31جولائی کو علی الصبح ایرانی دارالحکومت، تہران ، میں شہید کر دیا گیا۔ اُن کے ساتھ اُن کے ایک محافظ بھی شہید ہو گئے ۔

31جولائی2024 کی صبح ہوتے ہی ہم سب نے یہ اندوہناک اور کربناک چنگھاڑتی ہُوئی خبر سُنی اور پڑھی کہ ''غزہ'' کے سابق وزیر اعظم اور ''غزہ'' میں غاصب اور قابض خونی اسرائیل سے برسرِ پیکار جہادی تنظیم ''حماس''کے سیاسی بیورو کے چیف جناب اسماعیل ہنیہ شہید کر دیے گئے ہیں ۔

ساری دُنیا میں یہ دھماکہ خیز خبر حیرت ، دکھ اور افسوس کے ساتھ سُنی گئی ۔ فلسطینیوں، مسئلہ فلسطین اور ''غزہ'' کاز سے محبت اور ہمدردی رکھنے والوں کے دل ٹوٹ گئے ہیں۔ شہادت کے وقت اسماعیل ہنیہ شمالی تہران میں موجود تھے ۔ دیگر درجنوں عالمی شخصیات کے ساتھ اُنہیں بھی نَو منتخب ایرانی صدر، جناب مسعود پزشکیان، کی تقریبِ حلفِ وفاداری میں خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا ۔ ویسے بھی اُن کا زیادہ تر وقت ایران ، ترکیے اور قطر میں گزرتا تھا ۔ اسرائیل کے ساتھ زبردست تصادم کے کارن اُن کے عالمی سفروں پر جو پابندیاں عائد تھیں، اِس بِنا پر بھی وہ مذکورہ تینوں ممالک تک محدود ہو کررہ گئے تھے ۔

ایران اسماعیل ہنیہ شہید کا بنیادی دوست رہا ہے۔ اسماعیل ہنیہ ''غزہ'' میں بروئے کار جہادی تنظیم ''حماس'' کا عالمی شہرت یافتہ سیاسی چہرہ تھے۔تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد وہ ''حماس'' سے وابستہ ہُوئے تو تا وقتِ شہادت اِسی جہادی تنظیم سے صمیمِ قلب کے ساتھ جڑے رہے ۔

اِسی تنظیم کی وابستگی نے اُنہیں ''غزہ'' کا وزیر اعظم بھی منتخب کروایا ۔پچھلے 9ماہ کے دوران ، جب سے حماس و اسرائیل میں جنگی تصادم شروع ہُوا ہے، ساری دُنیا میں اسماعیل ہنیہ کا نام گونج رہا تھا ۔ اب وہ کوشش کررہے تھے کہ کسی طرح ''غزہ'' میں جنگ بندی ہو جائے کہ یہ جنگ 40ہزار سے زائد اہلِ غزہ کا خون کر چکی ہے ۔ جنگ بندی کی اِنہی کوششوں میں وہ ایران ، قطر اور ترکیے آجا رہے تھے ۔ مگر ظالم و غاصب اور فلسطینیوں کے خون کا پیاسا، اسرائیل، بھی اُن کے تعاقب میں تھا ۔ اسرائیلی سیاسی و فوجی حکام کئی بار اعلان کر چکے تھے کہ ہم اسماعیل ہنیہ کو زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔

اور اسرائیل اپنے خوں آشام اعلانات اور ہدف میں یوں کامیاب ہُوا ہے کہ اُس نے 31جولائی کی صبح میزائل داغ کر اسماعیل ہنیہ کو شہید کر ڈالا ہے ۔ سارے عالمِ اسلام میں اِس شہادت پر صفِ ماتم بچھی ہے ۔ ساتھ ہی عالمِ اسلام کے حکمران اپنی بے بسی اور بیکسی پر بھی شرمندہ ہیں ۔ تمام تر وسائل رکھنے کے باوصف کوئی بھی مسلمان حکمران اسرائیل کا دستِ ستم توڑنے اور روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔

افسوس تو ایرانی حکام پر ہے کہ جو بہتر طور پر جانتے مانتے تھے کہ سفاک اور بھیڑیا صفت اسرائیل اسماعیل ہنیہ کے تعاقب میں ہے ، لیکن پھر بھی وہ اسماعیل ہنیہ کا تحفظ نہ کر سکے ۔ تمام ایرانی انٹیلی جنس و دفاعی ادارے ناکام ثابت ہُوئے ہیں ۔ سب کہہ رہے ہیں کہ ایک ''پراسرار'' میزائل اسماعیل ہنیہ کی رہائش گاہ پر گرا ۔ اسرائیلی میڈیا بھی یہ کہہ رہا ہے کہ ایران سے باہر کسی ملک سے یہ میزائل داغا گیا ۔ یہ ''ایران سے باہر'' ملک کون سا ہو سکتا ہے ؟ کیا خود اسرائیل نہیں؟ اگرچہ اسرائیل اِس بارے ابھی تک خاموش ہے ۔ یہ خاموشی دراصل مجرمانہ ہے ۔

ایران کا دعویٰ ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت اور بہیمانہ قتل کا بدلہ لیا جائے گا ۔ حالات اور ماضی قریب کے تجربات و شہادتیں مگر بتا رہے ہیں کہ یہ محض دعوے ہی ہیں۔3جنوری2020 کوجب ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے عالمی شہرت یافتہ سربراہ، جنرل قاسم سلیمانی ،کو بغداد ائر پورٹ پر امریکیوں نے شہید کر ڈالا تھا، تب بھی ایران نے ایسا ہی بدلے کا دعویٰ کیا تھا ۔ ساڑھے چار سال گزر گئے ہیں مگر ہنوذ ایران یہ بدلہ نہیں لے سکا ہے ۔

پھر یکم اپریل 2024 کو جب اسرائیل نے شامی دارالحکومت، دمشق، میں بروئے کار ایرانی قونصلیٹ پر میزائل حملہ کرکے کئی سینئر ایرانیوں کو شہید کر دیا تھا،تب بھی ایران نے ایسا ہی دعویٰ کیا تھا ۔ مگر ہُوا کچھ بھی نہیں ۔ بس چند ایرانی میزائل اسرائیل پر پھینکے تو گئے لیکن اسرائیل کا کوئی جانی نقصان ہُوا نہ مالی ۔ اسرائیل کا خونی رقص بدستور جاری ہے ۔اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو شہید کرنے سے ایک روز قبل لبنان پر حملہ کرکے مشہور لبنانی کمانڈر کو شہید کر دیا ۔ ایران اور لبنان مگر جارح اور بے شرم اسرائیل کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے ۔ قابلِ غور اور قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو ایسے وقت میں شہید کیا ہے جب چند دن پہلے ہی اسرائیلی وزیر اعظم ، نیتن یاہو، واشنگٹن کے کامیاب دَورے سے واپس آیا ہے ۔ تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا منصوبہ واشنگٹن میں بنا اور اسرائیل نے اِس مذموم حملے کی منظوری امریکہ سے لی؟

ایران اپنے دعوؤں کے مطابق اسرائیل سے بدلہ لے یا نہ لے ، لیکن اسماعیل ہنیہ کی شہادت چونکہ ایرانی دارالحکومت میں ہُوئی ہے، اس لیے اِس قتل کی واردات کا سراغ لگانا ایرانی حکام کی بنیادی ذمے داری بن گئی ہے ۔

اسماعیل ہنیہ کو راستے سے ہٹا کر اسرائیل نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ عالمِ اسلام تو کیا، دُنیا کی کوئی طاقت اُسے لگام نہیں ڈال سکتی ۔'' اَت خدا دا وَیر'' کہلاتا ہے ، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اللہ کا قہر اسرائیل پر کب ٹوٹتا ہے۔ برطانوی صحافی ، کرسٹینا لیمب، نے Waiting For Allah نامی ایک معرکہ آرا کتاب لکھی تھی۔ مصنفہ نے اس میں یہ بتایا ہے کہ مسلمان عوام اور حکمران اپنے مسائل و مصائب حل کرنے کے لیے خود تو کوئی کوشش نہیں کرتے ، بس ہر کام میں اللہ کا انتظار کرتے ہیں کہ اللہ ہی اُن پر پڑی ہر مصیبت دُور کرے گا۔ اب اہلِ غزہ اور اسماعیل ہنیہ پر جو قیامت ٹوٹی ہے ، اِس کا بدلہ لینے کے لیے بھی ہم سب، مسلم عوام اور مسلم حکمران، نصرتِ الٰہی کے منتظر ہیں ۔

اسرائیل کے ہاتھوں66سالہ اور13بچوں کے والد، اسماعیل ہنیہ، کی شہادت پہلی بڑی واردات نہیں ہے۔ اِس سے قبل اسرائیل دن کی روشنی میں ''حماس '' کے بانی (شیخ احمد یاسین) اور ''حماس '' کے سابق مرکزی لیڈر( عبدالعزیز رنتیسی) کو بھی شہید کر چکا ہے۔ عالمِ اسلام پھر بھی منہ میں گھنگھنیاں ڈالے رہا۔ اسرائیل اسماعیل ہنیہ کے تین صاحبزادگان اور پانچ پوتوں سمیت اسماعیل ہنیہ کے خاندان کے60افراد کو بھی شہید کر چکا ہے ۔

اسماعیل ہنیہ پاکستان سمیت عالمِ اسلام کے اُن مجاہد لیڈروں کی طرح نہیں تھے جو اپنے بچوں کو تو سنبھال کر رکھتے ہیں لیکن دوسروں کے بیٹوں کو محاذِ جنگ پر بھیج کر مروا دیتے ہیں ۔ ظلم کے خلاف پر فشاں اور آزادی کے حصول کی خاطر اسماعیل ہنیہ شہادت کا تاج پہن کر اپنے رَبّ کے حضور پہنچ چکے ہیں۔ اُن کی اپنی اور خاندان کے کئی افراد کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ انشاء اللہ۔ اُن کی نمازِ جنازہ جمعرات کو تہران میں ادا کی گئی۔ آج بروز جمعہ اُنہیں دوحہ ( قطر) میں دفن کیا جائے گا۔ ہم سب دعا گو ہیں : اے اللہ ، اُن کی شہادت کو قبول و منظور فرما۔ آمین۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔