بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی اسٹینڈرڈ اینڈ پورز نے سیاسی عدم استحکام اور انتشار کو معیشت کے لیے خطرہ قرار دے دیا ہے۔ ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی طویل مدتی کریڈٹ ریٹنگ ٹرپل پلس برقرار ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مہنگائی زیادہ جب کہ مالی حالات سخت ہیں۔ ہمارا ملک دن بہ دن سیاسی انتشارکی جانب بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے ایما پر جو بجٹ نافذ کیا ہے،اس کے منفی اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
ٹیکسوں کی بھرمارکارخانوں کی بندش، شٹرڈاؤن ہڑتال اور بڑی دکانوں پر تالہ بندی کا ریکارڈ ٹوٹنا شروع ہوگیا ہے۔ ایک طرف آئی پی پیز مسئلے کا حل نکالنے میں حکومت تساہل سے کام لے رہی ہے، دوسری طرف تاجروں، صنعتکاروں، ہول سیلرزکا پیمانہ صبر لبریز ہوچکا ہے۔ پاکستان کی معیشت و سیاست پر اس وقت اندرونی طور پر عدم استحکام بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی سیاسی حالات کے باعث بھی پاکستانی معیشت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ گزشتہ دنوں تہران میں اسرائیل نے مزاحمت کی علامت عظیم فلسطینی قائد اسماعیل ہنیہ کو شہید کرکے اپنے ناپاک ارادوں کو ظاہرکردیا ہے کہ وہ عالمی معیشت کو پنپتا نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس عظیم مجاہد کی شہادت امت مسلمہ کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔ اب تمام تر عالمی سیاسی و معاشی تجزیے عظیم فلسطینی قائد کی شہادت کے بعد کے اثرات کو مدنظر رکھ کر بیان کیے جائیں گے۔
اس سے خطے میں عدم استحکام بڑھے گا اور پاکستان میں اس کے اثرات معیشت کو سب سے زیادہ متاثر کریں گے، کیونکہ ایک طرف حکومت کی طرف سے ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر لاد دینا، اس کے ساتھ بجلی بلوں میں بے تحاشا اضافہ، بڑھتے ہوئے بجلی بلوں کے خلاف جماعت اسلامی کا پاکستان کی تاریخ میں کامیاب ترین دھرنا دینے کے باوجود حکومت کی طرف سے مسئلے کے حل کرنے میں تاخیر دوسری طرف بلوچستان کے حالات اور صوبہ خیبر پختون خوا کے حالات کے علاوہ ملک بھر میں ٹیکسوں کے خلاف تاجروں کی ہڑتال وغیرہ کے باعث معیشت جس طرح سے لڑکھڑا رہی تھی اب اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد دنیا بھرکی عالمی تجارت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
پاکستان نے بھی اپنی برآمدات اور درآمدات پر بہت سے ٹیکس عائد کردیے ہیں جس کے باعث ملکی برآمدات کی رفتار مزید سست روی کا شکار ہو سکتی ہے۔ ادھر ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ ہنیہ کے قتل کا بدلہ لینا تہران پر قرض ہے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ نے دنیا کی ظالم ترین طاقتوں کا بے جگری سے مقابلہ کیا۔ اللہ کا شیر اسماعیل ہنیہ سرخرو ہوگیا۔ جماعت اسلامی کے تحت راولپنڈی اورکراچی پر بھی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔
ادھر روس نے خبردار کیا ہے کہ یہ قطعی طور پر ناقابل قبول سیاسی قتل ہے اور یہ کشیدگی میں مزید اضافے کا باعث بنے گا۔ چینی وزارت خارجہ نے بھی حماس کے سربراہ کی شہادت کو سیاسی قتل قرار دیتے ہوئے، اس کی شدید مذمت کی ہے۔ یمن کے حوثیوں نے کہا ہے کہ انھیں نشانہ بنانا ایک گھناؤنا دہشت گردانہ جرم ہے۔ ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک نئی جنگی صف بندی ہونے والی ہے جس میں حوثیوں کی جانب سے اسرائیل حامی ممالک کے بحری تجارتی جہازوں پر حملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے اور دیگر جنگی حالات کے باعث دنیا کے قدم معاشی کساد بازاری کی جانب بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔کورونا وبا کے بعد دنیا کے معاشی حالات نے بہتری کی جانب سفرکرنا شروع کیا تھا جسے اسرائیل نے غزہ پر بمباری کی صورت میں اس بہتری کو بدتری کی جانب دھکیلنا شروع کردیا تھا۔
قصہ مختصر پاکستانی معیشت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، پاکستانی معیشت اس وقت جن حالات سے گزر رہی ہے ایسا پون صدی میں کبھی بھی نہیں ہوا تھا۔ تقریباً 30 سال قبل بجلی کی پیداوار سے متعلق ایسے معاہدات کیے گئے جن کا خمیازہ بھگتتے ہوئے اب یہ صورت حال ہوگئی ہے کہ بجلی بلوں کے اوپرگھروں میں لڑائی، ایک دوسرے کو زخمی کر دینا اور دیگر بہت سے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔
برآمدات جوکہ 76 برسوں میں محض 30 ارب 67 کروڑ70 لاکھ ڈالر ہی کر سکے تھے اب اس میں اضافے کے بجائے کمی کے امکانات دور کی بات نہیں بلکہ اب یہ بات یقینی ہے کہ برآمدات میں کمی ہوگی۔ اس کے ساتھ آئی ایم ایف سے معاہدے کے نتیجے میں عوام پر جس طرح بجلی بم، ٹیکسوں کے آتشیں بم اور دیگر بم گرائے جا رہے ہیں، اس کے نتیجے میں ملک میں سیاسی کشیدگی کے ساتھ سیاسی بے چینی بڑھ رہی ہے۔ افغانستان کی سرحد کے حالات کے باعث صوبہ کے پی کے میں بم دھماکے اور دیگر بدامنی کے واقعات کے باعث کئی ممالک نے اپنے شہریوں کو پاکستان سفر کے دوران محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔
اس کے ساتھ پاکستان کی درآمدات کا زیادہ تر انحصار خوراک کی درآمدات پر بھی ہے تو عالمی منڈی غزہ کے حالات سے شدید متاثر ہو کر رہے گی۔ فلسطینی لیڈرکی شہادت کے اثرات عالمی منڈی پر بھی مرتب ہوں گے۔ جہاں تیل کی منڈی میں پٹرولیم قیمتوں میں اضافے، سونے کی قیمتوں میں اضافے، خوراک کی قیمتوں میں اضافے، ربڑ، اسٹیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور دیگر وجوہات کی بنا پر عالمی تجارت بھی سست روی کا شکار ہو کر رہے گی۔ ان تمام کے اثرات پاکستان کی برآمدات پر بھی مرتب ہوں گے جوکہ پہلے ہی بجلی نرخوں میں اضافے، گیس نرخوں میں اضافے کے باعث اپنی بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کے سبب عالمی منڈی میں اپنا مقام کھوتا چلا جا رہا ہے۔
اس کے پہلے واضح ترین اثرات میں سے چند ایک یہ ہیں کہ ملک میں بے روزگاروں کی تعداد بڑھے گی، مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا، غربت میں شدید اضافہ ہوگا اور عالمی معاملات خراب ہوں گے۔ حکومت فوری طور پر تمام وہ مراعات جوکہ کسی کو بھی کسی طور پر اشرافیہ کو دی جا رہی تھیں اس کو ختم کرے۔ آئی پی پیزکا معاملہ جوکہ جماعت اسلامی کے دھرنے سے جڑا ہوا ہے۔
اسے فوری حل کرے۔ برآمدات میں اضافے کے الزامات کا اعلان کرے اور آئی ایم ایف سے جلد ازجلد چھٹکارے کا لائحہ عمل طے کرے اور بہت سے معاملات ہیں جن پر حکومت ہوم ورک کرے ان پر ان کے وزرا اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ان کا حل تلاش کریں اور ملک کے سیاسی حالات کو بگڑنے سے بچانے کے لیے کوئی قابل قبول حل تلاش کریں۔ بصورت دیگر ملکی سیاسی معاشی حالات اور بیرونی سیاسی و معاشی اثرات مل کر ملک کے غریب عوام اور معیشت کو ایسے موڑ پر لا کھڑا کریں گے کہ مسائل کا حل تلاش کرنا نہایت ہی مشکل ترین ہوکر رہ جائے گا۔