کائنات کی سب سے مردہ چیز اندھیرا ہے

روس کا کرلیان ایک معمولی فوٹوگرافر تھا لیکن اسے شوق تھاکہ وہ ماورائے بصارت مظاہرات کو فلم بند کرسکے


Aftab Ahmed Khanzada August 04, 2024
[email protected]

ناروے کے نامور ڈرامہ نگار اور تھیٹر ڈائریکٹر ہنرک ابسن نے اپنے گہرے الفاظ کے ساتھ سماجی بنیادوں کے جوہرکو فصاحت کے ساتھ پکڑا ہے۔ ''سچائی کی روح اور آزادی کی روح۔ یہ معاشرے کے ستون ہیں۔'' اس بصیرت افروز بیان میں، Ibsen ان بنیادی اقدارکو اجاگرکرتا ہے، جو ایک صحت مند اور فروغ پذیرکمیونٹی کے لیے ضروری ہیں۔ سچائی کی روح زندگی کے تمام پہلوؤں میں ایمانداری، دیانتداری اور شفافیت کی جستجوکو مجسم کرتی ہے۔

سچائی سے وابستگی کے ذریعے ہی اعتماد کو فروغ ملتا ہے، تعلقات مضبوط ہوتے ہیں اور معاشرے کے اخلاقی تانے بانے کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ سچائی کی قدرکرتے ہوئے اور فریب کی تہوں کوکھولنے کی کوشش کرتے ہوئے، ہم صداقت کی بنیاد بناتے ہیں جس پر ایک منصفانہ اور ہم آہنگ معاشرہ بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح آزادی کا جذبہ لوگوں کے اپنے آپ کو اظہار خیال کرنے، اپنی خواہشات کی پیروی کرنے اور جبر یا رکاوٹ کے خوف کے بغیر جمہوری عمل میں شامل ہونے کے موروثی حق کی علامت ہے۔

آزادی افراد کو تنقیدی انداز میں سوچنے، جمودکو چیلنج کرنے اور معاشرے کی اجتماعی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کا اختیار دیتی ہے۔ آزادی کے تحفظ کے ذریعے ہی تنوع پروان چڑھتا ہے، جدت طرازی پروان چڑھتی ہے اور انسانی روح بلند ہوتی ہے۔ معاشرے کے ستونوں کے طور پر، سچائی اور آزادی رہنما اصولوں کے طور پرکام کرتے ہیں جو ہمارے تعامل کو تشکیل دیتے ہیں، ہمارے اداروں کی تشکیل کرتے ہیں اور ہماری اجتماعی شناخت کی وضاحت کرتے ہیں۔ ان اقدارکو برقرار رکھتے ہوئے، ہم ابسن کی حکمت کی وراثت کا احترام کرتے ہیں اور ایک ایسے معاشرے کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں جو انصاف، مساوات اور ایک بہترکل کی مسلسل تلاش پر مبنی ہو۔

آئیے! ہم اپنی مشترکہ انسانیت کے سنگ بنیاد کے طور پر سچائی اورآزادی کے جذبے کو اپنائیں، ہمیں ایک روشن، زیادہ جامع مستقبل کی تلاش میں متحد کریں۔ اس کائنات کی سب سے مردہ چیز اندھیرا ہے، اندھیرے میں کوئی حرکت نہیں ہے، اندھیرے میں کوئی حیات نہیں ہے،اندھیرے سے زیادہ مردہ چیزآپ کوئی نہیں پاسکتے، پتھر بھی حرکت کرتے ہیں، پہاڑ بھی سرکتے ہیں لیکن اندھیرا بغیر حرکت کیے ایک ہی جگہ پڑا رہتا ہے کرنیں آکر اسے ختم کرتی ہیں اورکرنوں کے جاتے ہی اندھیرا پھرگہرا ہوجاتا ہے۔

آئیں! کچھ دیر کے لیے ہم اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کر لیتے ہیں اور تھوڑی سی دیرکے لیے پوری دنیا سے اپنا رابطہ منقطع کر لیتے ہیں۔ اب ہم صرف اپنی زندگی اور اس کے تمام معاملات کے متعلق سوچنا شروع کردیتے ہیں۔ ایک لمحے میں جی صرف ایک لمحے میں، ہم اس حقیقت کو جان لیں گے کہ ہم اب صرف اندھیرے ہیں اورکچھ نہیں بے جان بے حس مردہ اندھیرے جو بغیرحرکت کیے ایک جگہ پڑے ہوئے ہیں جن کے قریب سے بھی زندگی کا کوئی گزر نہیں۔ ہمارے اردگرد کچھ بھی ہوجائے ہم پرکوئی فرق نہیں پڑتا چاہے آسمان بھی آگرے تو بھی ہم بے حرکت ہی رہیں گے۔

پوری دنیا میں تخت اور تاج اچھالے جا رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی حرکت ہوئی ہو، حرکت تو بہت دورکی بات ہے، ہم میں سے کسی نے نوٹس تک نہیں لیا۔ ظاہر ہے اندھیروں نے کیا نوٹس لینا حرکت اور نوٹس انسان لیتے ہیں اندھیر ے نہیں۔ سوچتے تو انسان ہیں۔ اندھیرے نہیں کیونکہ سوچیں زندہ چیزیں ہوتی ہیں سوچیں ہی انسانوںکو زندہ رکھتی ہیں، انسان سانس کے ذریعے نہیں بلکہ سوچوں کے ذریعے زندہ رہتے ہیں اور جب انسان سوچنا چھوڑ دیتے ہیں تو سوچیں مرنا شروع ہوجاتی ہیں اور جب سوچیں مرجاتی ہیں تو انسان مردہ ہوجاتے ہیں اور اندھیرے ہوجاتے ہیں۔

یہ تو ہوئے ہم اور دوسری طرف ایک غول ہے جس میں لٹیرے، قبضہ خور، بھتہ خور،کمیشن کھانے والے، رشوت خور شامل ہیں جو سب کے سب نوٹ کھاتے ہیں جنہیں محلوں، ملوں، زمینوں، ہیرے جواہرات کے ذخیرے کرنے کی بیماری لاحق ہوچکی ہے، جو شہر شہر، گاؤں گاؤں مارے مارے پھرتے رہتے ہیں کہ جہاں کہیں ان کو ان کی پسندیدہ چیز نظر آئے تو اس پر اپنی ملکیت کا جھنڈا نصب کردیں یہ بظاہرآپ کو انتہائی مہذب نظر آئیں گے، بڑی بڑی عالیشان گاڑیوں میں گھومتے خوشنما سوٹوں میں ملبوس مسرور کن خوشبوں میں ڈوبے انگلش میں باتیں کرتے لیکن جب یہ اپنا لبادہ نوچ کر پھینکتے ہیں تو شریف آدمی وحشت زدہ ہوکر رہ جاتاہے خوف سے کانپنے لگتا ہے یہ ویسے تو آپ کو ایک ہی نظر آتے ہیں لیکن اصل میں یہ سب کے سب ایک دوسرے کے بھی دشمن ہیں، ایک دوسرے کو نوچتے کاٹتے درندے یہ اس قدر بھوکے لالچی اور وحشی واقع ہوئے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر وحشی جانور تک چھپ جاتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ انہیں اس بات کا احساس تک نہیں ہے کہ وہ کس عذاب میں مبتلا ہیں وہ سب کے سب اپنے آپ کو دنیا کے ذہین ترین، شاطر اور سمجھ دار انسان سمجھے بیٹھے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ نارمل اور تندرست بھی۔ حالانکہ وہ اگر اپنے آپ کو غور سے دیکھیں تو انہیں اپنے آپ میں ان گنت بیماریاں صاف نظر آجائیں گی جنہیں دیکھ کر انہیں اپنے آپ سے گھن آنے لگے گی۔

روس کا کرلیان ایک معمولی فوٹوگرافر تھا لیکن اسے شوق تھاکہ وہ ماورائے بصارت مظاہرات کو فلم بند کرسکے۔ ایک مرتبہ فوٹو لیتے وقت اس کا ہاتھ کیمرے کے سامنے آگیا اور ہاتھ کی تصویر بن گئی وہ اس تصویرکو دیکھ کر حیران ہوا کیونکہ اس تصویر میں اس کی ایک روگی انگلی بھی نظرآرہی تھی جبکہ اس کی وہ انگلی حقیقت میں بالکل ٹھیک تھی لیکن فوٹو میں بالکل بیمار نظر آرہی تھی۔

اس واقعے سے چھ مہینے بعد اس کی وہ انگلی واقعی خراب ہوگئی۔ کرلیان نے اس وقت اپنے ہاتھ کی تازہ تصویر لی تو وہ بالکل پہلے والی تصویر سے ملتی جلتی تھی۔ اس سے کرلیان کو خیال آگیا کہ بیماری پہلے ہی اس کے جسم کے اندر موجود تھی لیکن اسے انسانی آنکھ دیکھ نہیں سکتی تھی۔ اس سے نیا باب کھل گیا اور اس نے حساس فلموں کا استعمال شروع کردیا۔ اس نے کلیوں کی تصاویر لیں تو پھولوں کی تصویر آگئی، یہ پھول چار دن بعد کھلنے والا تھا لیکن اصل میں اس کا باطنی پھول پہلے کھل جاتا ہے اور پھر اس باطنی پھول کے حکم کے مطابق پھول کی پنکھڑیاں کھلتی ہیں وہ باطنی پھول، اس پھول کی پروگرامنگ ہے جو اس قدر لطیف اور حساس ہے کہ انسانی آنکھ کو دکھائی نہیں دیتی۔

اس حیرت انگیز دریافت کے بعد کرلیان نے بہت تحقیق کی اور اس بات کو ثابت کردیا کہ ''جسم سے بھی لطیف اور حساس ایک جسم ہے'' اور وہ ''جسم کا جسم'' ہمارے جیون رس کا جسم ہے، یاد رکھو تم سب کے سب بیمار ہو لیکن تمہیں اس وقت اس بات کا احساس نہیں ہے،کیونکہ تم ابھی اپنے آپ کو تندرست دیکھ رہے ہو لیکن درحقیقت ان گنت بیماریوں نے تمہارے جسم پر قبضہ کر رکھا ہے جو بہت جلد ظاہر ہوجائیں گی۔

اس بات کا تمہیں جتنی جلدی احساس ہو جائے گا تو تمہارے حق میں اتنا ہی بہتر ہوگا کیونکہ اگر وقت گزرگیا تو پھر تم لا علاج ہوجاؤگے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک نارمل اور تندرست آدمی بھوک کا غلام نہیں ہوتا وہ دوسروں کے جینے کے حق کو کبھی نہیں چھینتا، ان کی خوشیوں پرکبھی ڈاکہ نہیں ڈالتا ہے وہ ان کے خواب کبھی چوری نہیں کرتا ہے، وہ ان کی خواہشات اور آرزؤں کوکبھی قتل نہیں کرتا ہے، بھوک تمام جرائم کی ماں ہے۔ ایک دفعہ بھوک جس سے چمٹ جائے اتنی آسانی سے اس کی جان نہیں چھوڑتی ہے بلکہ اکثر اس کی جان ہی لے لیتی ہے۔

انسانی تاریخ میں بھوک کے ہاتھوں انسانوں نے بہت اذیتیں اٹھائی ہیں۔ اسی بھوک کے ہاتھوں وہ بہت ذلیل و خوار ہوئے ہیں، ہم سب تمہاری مدد کرنا چاہتے ہیں تمہیں ان اذیتوں اور بھوک سے نجات دلوانا چاہتے ہیں لیکن اگر تم اسی بھوک سے چمٹے رہنا چاہتے ہو تو پھر اور بات ہے لیکن بس آخری بات یہ یاد رکھنا کہ ان اندھیروں نے اپنے اندر سے اٹھنے والی ننگی آوازوں کو اگر سن لیا اور ان کے اندر سوال پیدا ہوگئے تو پھرکیا ہوگا؟ یہ جو سوال ہیں یہ بہت ہی خطرناک ہوتے ہیں جب ایک سوال پیدا ہوجاتا ہے تو وہ اپنے ہزاروں بچوں کو جنم دے دیتا ہے پھر کوئی نہیں دیکھتا کہ یہ سوالات جائز ہیں یا ناجائز۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔