سلیمانِ عالی شان
سلطان نے اس حملے میں بحری فوج کو بھی برّی فوج کے ساتھ تعاون کرنے کا حکم دیا
میرے ذہن میں ابتدا سے ایک طرف امن کی خواہش تھی تو دوسری طرف جنگ کے مناظر مجھے بہت اچھے لگتے تھے۔ سپاہیوں پر سپاہیوں کی صفیں ایک دوسرے کی طرف بڑھتی ہوئی۔ میدان جنگ میں خرنا پھینکتا ہوا۔ ایک ہنگامے کا عالم۔ اس بھنور میں پھنسے ہوئے انسان کچھ ہارتے ہوئے کچھ جیتتے ہوئے۔ کچھ کی ہڈیاں میدان جنگ میں خاک ہوتی ہوئی اور کچھ اپنے ہاتھ پیر ضایع کروا کے اپنے گھر کو جاتے ہوئے۔
گزشتہ دس بارہ برس سے ٹیلی وژن پر اس قدر ترک ڈرامے چلے ہیں کہ بہت سے چہرے تو اپنے لگتے ہیں۔ شجر ممنوع ، میرا سلطان اور سلطان صلاح الدین ایوبی میں جنگ ہے، عشق ہے، وفاداریاں اور غداریاں ہیں۔ اس عہد کی سیاست ہے اور اس کی پیچیدگیاں ہیں۔
صلاح الدین ایوبی کو دیکھتے ہوئے مجھے اپنی ایک پرانی کتاب یاد آئی۔ اور جب اسے کرید کر نکالا تو حق دق رہ گئی۔ 168 صفحوں کی یہ کتاب میں نے ڈیڑھ روپے کی خریدی تھی۔ '' مکتبہ جدید'' سے چھپی ہوئی یہ کتاب ڈاکٹر محمد مصطفی کی لکھی ہوئی تھی اور اس کا ترجمہ شیخ محمد احمد پانی پتی نے کیا تھا۔
اس عظیم اور تاریخی قلعے کو صلاح الدین ایوبی نے جس جرأت اور ذہانت سے فتح کیا، میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتی کیوں کہ اس سے ڈرامہ دیکھنے والوں کا لطف غارت ہو جائے گا۔ 27 مئی 1453 کو سلطان نے اپنی افواج کو شہر پر آخری حملہ کرنے کا حکم دیا۔ اس روز سارے لشکر نے روزہ رکھا۔ فجر کی نماز کے بعد فتح کے لیے دعائیں مانگی گئیں اور اپنی توپیں فصیل کے قریب نصب کرکے زبردست گولہ باری شروع کردی گئی۔ سلطان نے یہ بھی حکم دے دیا تھا کہ جس شخص کے سپرد جو ذمے داری دی جائے وہ اسے نہایت دیانت داری سے ادا کرے اور اگر کسی شخص نے اپنے فرائض میں کوتاہی برتی یا اپنے کمانداروں کا حکم ادا نہیں کیا تو اسے قتل کی سزا دی جائے گی۔
سلطان نے اس حملے میں بحری فوج کو بھی برّی فوج کے ساتھ تعاون کرنے کا حکم دیا۔ اس نے دونوں افواج کو یہ حکم دیا کہ جس وقت بری فوجیں حملے کا آغاز کریں اسی وقت بحری فوج شہر پناہ کے اس حصے پر دھاوا بول دے جو گولڈن ہارن کے ساتھ ساتھ بنی ہوئی ہے تاکہ دشمن کی طاقت بٹ جائے۔
اسی حملے کے دوران جان جٹینانی کو بھی کاری زخم لگا اور اسے نزع کی حالت میں شہر لایا گیا۔ شہنشاہ قسطنطین بھی بہادری کے ساتھ لڑتا ہوا مارا گیا۔ وہ آخری بازنطینی فرمانروا تھا۔ فتح کے بعد شہر کو فوج کے حوالے کر دیا گیا۔ مورخین کا اندازہ ہے کہ محاصرے اور آخری حملے کے دوران چالیس ہزار مسیحی قتل ہوئے اور پچاس ہزار کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان لڑکوں کو غلام بنا لیا گیا اور ترکی زبان سکھانے اور دین اسلام کی تربیت دینے کے لیے ترکوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ عورتوں کو لونڈیاں بنا کر شاہی حرم اور فوجی سرداروں کے گھروں میں بھیج دیا گیا۔
ظہر کے وقت سلطان محمد ثانی جو سلیمان عالی شان بھی کہلاتا ہے وہ اپنے وزیروں اور فوج کے اعلیٰ افسروں کے ساتھ سینٹ صوفیا پہنچا۔ اس نے کلیسا کے دروازے پر اپنے جوتے اتار دیے اور رب العزت کی شکر گزاری کا احساس دل میں سوا ہوگیا اور اس نے مٹھی بھر خاک اٹھا کر اپنے سر پر ڈالی۔
گرجا گھر کی وسعت اور خوشحالی کو دیکھ کر وہ اش اش کر اٹھا۔ وہ قربان گاہ پر گیا جہاں تمام مذہبی رہنما جمع تھے۔ اس نے ان رہنماؤں کا استقبال کیا اور انھیں یقین دلایا کہ ان لوگوں کو اور گرجا گھر میں پناہ لینے والوں کو امان دی جاتی ہے اور انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ اس کے بعد اس نے ایک شخص کو اذان دینے کا حکم دیا اور اس کے ساتھ دنیا کا شان دار گرجا گھر مسجد میں تبدیل ہو گیا۔
قسطنطنیہ کی شکست کے بعد ہمیں یہ غور کرنا چاہیے کہ دولت عثمانیہ جو پندرہویں صدی عیسوی میں کسی خاص قوت یا طاقت کی مالک نہ تھی وہ سلیمان عالی شان کے عہد میں دیکھتے ہی دیکھتے ایک عظیم ملک کی حیثیت کیسے حاصل کر سکی۔ دولت عثمانیہ کی نشو و نما بحیرہ روم کے علاقے میں ہوئی ہے جسے اس وقت مشرق و مغرب کے سنگم کی حیثیت حاصل تھی۔ دوسرے پہلو سے اگر دیکھیں تو دولت عثمانیہ ایک ایسی اسلامی سلطنت تھی جسے اسلام لائے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اور جو دین پر مضبوطی سے قائم تھی۔
دین اسلام اس کے لیے فخر کا موجب تھا۔ ترکوں نے نئی زندگی کے آغاز سے ہی جہاد کو اپنا مطمع نظر بنا لیا تھا۔ عثمانی فوج کی جنگی صلاحیتیں اپنے عروج کو پہنچی ہوئی تھیں۔ یہاں یہ بات کہنے کی ہے کہ وہ لوگ جو ینی چری کہلاتے تھے وہ اول درجے کے فوجی شمار ہوتے تھے۔ میدان جنگ میں یہ لوگ جب سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہوتے تھے تو دشمن پر ہیبت طاری ہو جاتی تھی۔
سلطان کے خاص محافظ بھی ینی چری سے لیے جاتے تھے۔ سلطان جب کسی سفر پر باہر نکلتا تو ینی چری کے ڈیڑھ سو سواروں کا ایک دستہ اس کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے ہوتا۔ ان کا سردار ''آغا'' کہلاتا تھا۔
عثمانی افواج کی یورپی افواج پر برتری کا اقرار یورپی اور مسیحی معاصرین نے بھی کیا ہے۔ عثمانی حکومت دراصل فوجی حکومت تھی۔ اور حکومت کے سب محکموں میں سب سے زیادہ اہمیت محکمہ جنگ کو دی جاتی تھی ۔ عثمانی حکومت اندرونی اور بیرونی دفاع کے لیے اپنے آپ کو ہر وقت تیار رکھتی تھی۔
پوپ کے دل و دماغ پر اس ناکامی کا بہت اثر پڑا۔ اس کی صحت آہستہ آہستہ جواب دینے لگی اور کچھ ہی عرصے میں وہ یہ حسرت دل میں لے کر چلا گیا کہ سینٹ ایا صوفیہ واپس مسیحیوں کو مل سکے گا۔ یورپ کے ملک خود اتنے کمزور ہو چکے تھے کہ وہ مسلمانوں سے قسطنطنیہ کو نہیں چھڑوا سکتے تھے۔
سلیمان عالی شان کے زمانے میں قسطنطنیہ کی شان و شوکت میں پہلے سے کہیں اضافہ ہوا اور تین دن کی لوٹ مار کے بعد کسی بھی عثمانی سپاہی یا فوجی کو کسی بھی گھر کے مال و متاع کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہ تھی۔ اسی لیے مسیحیوں کو بھی آہستہ آہستہ وہاں رہنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی، یوں ایک عالی شان دورکا آغاز ہوا۔