کرومبر کنارے ایک سرد رات
شمالی علاقہ جات کے حسین نظاروں میں ایک مسافرت
(پہلا حصہ)
ایک عرصہ ہوا کہ اذلان اب مجھ سے چپک کر نہیں سوتا۔ اس کی جگہ اب ابراہیم نے سنبھال لی ہے۔ اب ہر روز ابراہیم مجھ سے چپک کر سوتا ہے مگر اس رات نہ جانے کیوں اذلان میرے ساتھ لیٹ گیا، جیسے اسے کوئی الہام ہوا ہو۔ اب صورت حال یہ تھی کہ اذلان میرے ساتھ سوا ہوا تھا اور اذلان کے بالکل ساتھ ابراہیم۔ ابھی میری آنکھ لگی ہی تھی کہ کسی نے میرے پاؤں پر اپنے پنکھ پھیرے۔ میں چوں کہ ابھی کچی نیند میں تھا، اس لیے فوراً اٹھ بیٹھا۔ میرے قدموں کے پاس ہی ایک ''سی مرغ'' (سیمرغ) تھا جس کے پنکھ کی وجہ سے میری آنکھ کھلی تھی۔
میں نے ذرا اوپر چھت کی طرف دیکھا تو اپنا سر قرۃ العین طاہرہ کی گود میں پایا جب کہ میری دائیں جانب منصور حلاج کھڑے تھے۔ منصور حلاج نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے بستر سے نیچے اتار دیا۔ میں نہ کچھ بول سکا، نہ سمجھ سکا۔ قرۃ العین طاہرہ نے اپنے ہاتھ میرے بالوں میں ہاتھ پھیر کر انھیں سنوارا اور ہم تینوں سی مرغ پر سوار ہوگئے۔ میں نہیں جانتا کہ ایسا میرے ساتھ سچ مچ ہو رہا تھا یا یہ میرا فقط خواب تھا۔ میں نے بچوں کو سوتا ہوا چھوڑا اور سی مرغ پرواز کر گیا۔ میں کسی بھی بات کو نہ سمجھ سکا۔ سی مرغ مختلف وادیوں میں سے ہوتا ہوا ایک پہاڑی جھیل کے کنارے اترا۔ ایک ایسی جھیل جو ایک بڑے سے کالے پہاڑ کے سامنے تھی۔
سی مرغ جھیل کے کنارے ایک بڑے سے پتھر پر اترا جس کے اطراف میں چند پیازی بوٹے تھے۔ میں نے جھیل کے پانیوں میں اپنا عکس دیکھنا چاہا۔ میرے دائیں جانب قرۃ العین طاہرہ اور بائیں جانب منصور حلاج تھے جب کہ ہم تینوں کے پیچھے سی مرغ تھا مگر جوں ہی میں نے اپنا عکس جھیل کے پانیوں میں دیکھا تو وہاں صرف میرا عکس تھا۔ کچھ ہی دیر میں وہاں دو دھندلے سے چھوٹے چھوٹے عکس نمودار ہوئے۔ جھیل کے پانیوں کے عکس میں میرے دائیں جانب اذلان تھا اور بائیں جانب ابراہیم۔ میں نے گھبرا کر اپنی دائیں اور بائیں جانب دیکھا۔ وہاں نہ تو اب منصور حلاج تھے اور نہ ہی قرۃ العین طاہرہ اور نہ کوئی اور تھا۔ یہاں تک کے میرے پیچھے سی مرغ بھی نہ تھا۔ میں نے پھر پانیوں میں اپنا عکس دیکھا۔ وہاں ابھی تک تین عکس موجود تھے جب کہ میں اکیلا جھیل کے کنارے موجود تھا۔ تینوں عکس ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ میں کچھ سمجھ نہ پایا اور ان تینوں کے اوپر پانی میں گر گیا۔
میری آنکھ کھلی تو بستر پر ابھی بھی اذلان میرے ساتھ چپکا ہوا تھا اور ساتھ ابراہیم مزے سے سو رہا تھا۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ میں نے جھیل کے پانیوں میں اپنا اصل دیکھ لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ یقین مانیں ہم شادی شدہ مردوں کا گھر سے نکلنا بالکل بھی آسان نہیں ہوتا۔ یہ مشکل اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ آپ کے بچے ذرا چھوٹے ہوں۔ راول پنڈی سے چترال کے لیے گاڑی رات آٹھ بجے چلنی تھی، ایسے میں، میں اگر دن بارہ بجے بھی سیال کوٹ سے نکلتا تو بہ آسانی وقت سے گھنٹہ دو پہلے میں راول پنڈی پہنچ سکتا تھا مگر میں دن نو بجے ہی گھر سے نکل پڑا۔ وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ بچے اس وقت سو رہے تھے۔ وہ جاگ رہے ہوتے تو ان کو ایسے چھوڑ کر جانے کو جی نہ چاہتا۔ میں نے دور سے ہی بچوں کو سوتا ہوا دیکھا، ان کی سلامتی کی دعا کی اور چپ چاپ سامان اٹھا کر نکل پڑا۔
تقریباً تین بجے میں فیض آباد میں تھا جب کہ ہندوکش کمپنی کی گاڑی رات آٹھ بجے روانہ ہونا تھی۔ میں نے پیر ودھائی اڈے پر پہنچ کر مٹرگشت کرنے لگا۔ اپنا سر ڈھانپنے کے لیے ایک کپڑا خریدا اور پاس میں ہی موجود پٹھان ہوٹل پر وقت گزاری کے لیے چلا گیا۔ وقت تھا کہ کٹ ہی نہیں رہا تھا۔ ہم تین افراد نے راولپنڈی سے چترال جانا تھا، جن میں سے ظاہری سی بات ہے ایک تو میں تھا اور دوسرا حیدر تھا۔ مجھے لگتا کہ یقیناً میں نے کہیں نہ کہیں کوئی اچھا کام کیا تھا کہ کرومبر تک جانے کے لیے ایک اچھی ٹریول ایجنسی مل گئی، جسے نجیب اللہ تاجک اپنے چھوٹے بھائی سیف اللہ تاجک کے ساتھ مل کر چلا رہے تھے۔
نجیب اللہ تاجک سے پہلی ملاقات پیر ودھائی اڈے پر ہی ہوئی۔ اگرچہ کہ ہمارا یہ ٹور چترال ٹو چترال تھا یعنی کہ کمپنی نے ہمیں چترال سے اٹھانا تھا مگر نجیب اللہ نے ہمارے کہے بنا ایک ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی۔ ہم تینوں میں سے چوں کہ کوئی بھی پنڈی کا نہ تھا، اس لیے نجیب صاحب نے تین چار دن پہلے ہماری ٹکس بُک کروا دیں۔
اب ہمارا کام صرف منہ اٹھا کر اڈے پر پہنچنا اور آٹھ بجے کا انتظار کرنا تھا۔ نجیب اللہ تاجک سے چھ بجے ہی ملاقات ہو گئی۔ نام سے اب تک آپ کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ موصوف کے آباؤ اجداد بہت پہلے تاجکستان سے آئے تھے۔ ہندوکش کی گاڑی دیکھ کر جی باغ باغ ہوا۔ نرم نرم سیٹیں اور پنجاب کی بھری گرمی میں ٹھنڈا ٹھنڈا ماحول۔ تاجک صاحب نے ہمیں عین آٹھ بجے الوداع کہا، ہم سب نے اپنے سے زیادہ اپنے بچوں کی سلامتی کے لیے دعائیں کیں اور گاڑی چترال کے لیے فراٹے بھرنے لگی۔ چترال کی جانب سفر کرتے ہوئے، دِیر تک تو سڑکیں سیدھی سیدھی ہی ہیں مگر دِیر سے آگے جاتے ہی چڑھائیاں شروع ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ آپ لواری ٹنل سے ہوتے ہوئے انتہائی خطرناک اترائی اترنے لگتے ہیں۔ سڑک ایسے ایسے بَل کھاتی ہے کہ گاڑی فقط رینگ سکتی ہے، چل نہیں سکتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے چار ہمسایہ ممالک چین، بھارت، ایران اور افغانستان ہیں۔ ایک پانچویں ماضی کا روس اور موجودہ تاجکستان بھی ہوتا مگر روس اور برطانیہ نے جان بوجھ کر یہ نہ ہونے دیا۔ کیوں؟ اس پر ذرا آگے جا کر بات کریں گے۔ پاکستان کا بھارت اور افغانستان کے ساتھ شروع دن سے ہی تنازع چلتا رہا ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی اگر ایک ملک کا دوسرے سے کوئی تنازع ہے تو وہ زمین یا وسائل کی وجہ سے ہی ہے۔ پاکستان اور بھارت میں تنازع کی سب سے بڑی وجہ کشمیر ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان بھی زمین کو لے کر تنازع شروع ہوا مگر پاکستان نے شرافت سے زمین کا وہ متنازعہ حصہ چین کے حوالے کردیا۔
اس طرح پاکستان چین کی گُڈبُک میں آگیا اور دونوں ممالک میں پیار کی پینگیں بڑھنے لگیں۔ ماضی میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان کوئی سرحد نہ تھی۔ افغانستان سے لشکر یہاں آتے، لوٹ مار کرتے اور چلے جاتے۔ افغانستان کے اوپر روس تھا جب کہ دوسری طرف برصغیر میں برطانیہ آ کر بیٹھ گیا۔ اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو روس اور افغانستان کی جنگیں ماضی میں ہوتی رہی ہیں۔ اوپر سے روس نیچے آنے کی کوشش میں تھا جب کہ برطانیہ برصغیر سے افغانستان پر قابض ہونے کی کوشش کرتا رہا۔ چمن قندھار ریلوے لائن برطانیہ نے لوگوں کی سہولت کے لیے نہیں بنائی تھی بلکہ اس کا اصل مقصد فوجی نقل و حرکت ہی تھا۔ دنیا میں ایسے بہت سے بڑے بڑے پراجیکٹ ہیں جو صرف فوجی مقاصد کے لیے شروع کیے گئے تھے جو بعد میں عوام کے فائدے کے لیے بھی استعمال ہوئے جن میں سرفہرست آپ کا انٹرنیٹ بھی ہے۔
بھلا ہو امریکا بہادر کا جس نے جاپان کے ساتھ دوسری جنگ عظیم کا آغاز کیا۔ صرف ایٹم بم کی بنا پر امریکا جنگ تو جیت گیا مگر برطانیہ ایسا پسا کہ اس کے لیے برصغیر میں مزید رہنا ممکن نہیں رہا۔ پہلے برطانیہ یہاں سے نکلا اور پھر سری لنکا کو بھی آزادی ملی۔ ہمارے ہاں ایسے معصوم لوگوں کی کمی نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ تحریکِ آزادی نے برطانیہ کو یہاں سے نکلنے پر مجبور کیا۔
1893 میں پہلی بار افغانستان اور برصغیر کی سرحدوں کا تعین ہوا تو معاشی طور پر کم زور افغانستان سے اپنی من مرضی کے مطابق فیصلہ کروایا گیا۔ افغانستان جو کہ دریائے اٹک تک کے تمام علاقوں کو اپنا مانتا رہا تھا اور اس پر حاکم بھی رہا تھا، ان تمام باتوں سے دست بردار ہوگیا۔
ایسے میں ایک چھوٹی سی واخان کی پٹی کو جان بوجھ کر افغانستان کا حصہ ہی رہنے دیا گیا کیوںکہ یہی وہ چھوٹی سی پٹی تھی جو برصغیر کو پرانے روس سے جدا کرتی تھی۔ اگر یہ پٹی بھی برصغیر کو مل جاتی تو برصغیر براہ راست روس سے جڑ جاتا۔ اس پٹی کے بارے برطانیہ اور روس دونوں نے مشترکہ فیصلہ کیا کہ یہ انتہائی مختصر سا علاقہ بفرزون ہوگا، جس میں نہ تو برطانیہ داخل ہوسکے گا اور نہ روس۔ اس طرح زمینی طور پر برطانیہ اور روس دونوں الگ الگ رہیں گے۔
دیر، بونیر، چترال سمیت بہت سے علاقوں پر افغانستان دعوے دار تھا مگر شیر اور ریچھ (برطانیہ اور روس) سے بچنے کے لیے افغانستان نے اپنی سرحد بندی مکمل کی اور نہ چاہتے ہوئے بھی سب قبول کیا۔
وادی چترال لواری پاس کے ذریعے دیر سے ملتی ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ کچھ سال پہلے تک گرمیوں میں ہی چترال سے پاکستان کا زمینی راستہ کھلا ہوتا تھا۔ سردیوں میں چترال پورے ملک سے کٹ جاتا تھا۔ ماضی میں سردیوں میں آمدورفت کا یہ طریقہ تھا کہ لوگ چترال سے افغانستان جاتے اور پھر وہاں سے برصغیر میں داخل ہوتے۔ آپ کو شاید یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوگی کہ دریائے چترال کا قدرتی طور پر بہاؤ بھی افغانستان کی طرف ہے۔ دریائے چترال افغانستان میں داخل ہوکر دریائے کابل سے ملتا ہے جب کہ یہی دریائے کابل بعد میں پاکستان میں داخل ہوکر اٹک کے مقام پر دریائے سندھ سے جا ملتا ہے۔
مہتر عبدالملک نے بھی انگریزوں کو تجویز دی تھی کہ ایک سرنگ کی تعمیر کی جائے تاکہ سردیوں میں چترال کا برصغیر کے باقی علاقوں سے زمینی رابطہ بحال رہے۔ اس وقت سروے بھی ہوا مگر پھر انگریز یہاں سے چلا گیا۔ بھٹو صاحب کے وقت بھی شاید اس پر کچھ کام ہوا مگر بات زیادہ نہ بنی۔ مشرف صاحب نے اس پر باقاعدہ کام شروع کروایا اور کافی حد تک یہ مکمل بھی ہوا مگر اسے عملی طور پر نوازحکومت میں عام ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔ لواری ٹنل پاکستان کی سب سے لمبی ٹنل ہے جس کی کل لمبائی 10.5 کلومیٹر ہے۔ یہ ٹنل دو حصوں پر مشتمل ہے۔ آدھی ٹنل وادی چترال میں ہے جب کہ تقریباً 5.5 کلومیٹر ضلع دیر میں ہے یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ لواری ٹنل وادی چترال اور ضلع دیر کی سرحد پر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح صادق کا وقت ہوچکا، مؤذن بندوں کو اپنے رب کی طرف بلاچکا تھا جب ہم تمام اترائی، چڑھائی پار کر کے پی ایس او کے پیٹرول پمپ کی خوب صورت مسجد کے سامنے کھڑے تھے۔
ایسی خوب صورت مسجد میں نے آج تک کسی پیٹرول پمپ پر نہیں دیکھی۔ مسجد کی طرف تو بعد میں آئیں گے پہلے اس کے واش روم کے ذرا قصے سن لیں جو ضرورت سے کچھ زیادہ ہی صاف ستھرے تھے۔ کموڈ کو فلش کرنے کے لیے بٹن بھی دیوار کے اندر ہی فکس تھا۔ میرا لالچی مَن مچلا، دل چاہا کہ ایک کموڈ سیٹ اتار کر گھر لے جاؤں۔ مسجد انتہائی صاف ستھری، لکڑی کا کام بہترین اور سب سے اچھی بات کے مسجد میں جگہ جگہ ''سترا'' بھی پڑا تھا کہ نمازی اسے سامنے رکھ کر نماز ادا کریں۔
نمازِفجر سے فراغت پاکر جو باہر نکلے تو ہلکی پھلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ بادِصبا نے تو خوش گوار موڈ کو مزید خوش گوار کردیا۔ پہاڑی علاقوں میں بارش کا کچھ پتا نہیں چلتا، کب ٹپک پڑے۔ میں نے تو ہمیشہ یہی دعا کی ہے کہ مجھے ٹور پر کبھی بھی بارش نہ ملے کہ بارش آپ کو ایک جگہ باندھ دیتی ہے۔ کالے سیاہ بادل دیکھ کر دل کچھ کچھ بجھ سا گیا کہ ہم چترال بارش دیکھنے تو نہ آئے تھے۔ بارش تو ہمارے یہاں بھی بہت ہوتی ہے۔ ابھی چترال آنے میں کچھ سمے تھے۔ گاڑی پھر چل پڑی اور کچھ ہی دیر کے بعد گاڑی صاحبہ نے ہندوکش کے اڈے پر بریک لگا دی۔ چترال میں ہندوکش والوں کا اڈا کوئی عام اڈا نہیں ہے۔
ایک انتہائی خوب صورت چترال کی ثقافت کی عکاسی کرتا ہوا ہوٹل ہے جس کے لان میں گاڑی نے جا کر بریک لگا دی تھی۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی نے ہوٹل کے سحر کو مزید گہرا کر دیا تھا۔ ہم اندر انتظارگاہ میں چلے گئے۔ چترالی فرنیچر نے جو استقبال کیا تو جی خوش ہوگیا۔ میرا تو جی چاہتا ہے کہ اپنے گھر کو چترالی فرنیچر سے بھر دوں۔ اس ہوٹل کو دیکھ کر واقعی ایسا لگ رہا تھا جیسے میں اپنے اس گھر میں آ گیا ہوں جو اکثر میرے خوابوں میں آتا ہے۔
چوں کہ اس طرف چوری کرنے کا رواج نہیں اور نہ ہی چترال کے عوام کو چوروں کا انتخاب کرتے ہیں، اس لیے ہوٹل کے ریسیپشن پر کوئی نہ تھا۔ یعنی کہ کچھ دیر کے لیے ہم اس پوری جگہ کے مالک بن بیٹھے تھے۔ صوفوں پر لیٹ کر استراحت کر رہے تھے، تصاویر بنوا رہے تھے۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا دیواروں پر لگی تصاویر کو اتار کر اپنے بیگ میں ڈال لوں۔ ہماری قسمت بری تھی کہ نجیب اللہ تاجک کا بھائی سیف اللہ ہمیں وقت پر لینے کے لیے گاڑی میں آ گیا ورنہ میرا ارادہ تو کم از کم وہاں دو گھنٹے گزارنے کا تھا۔
سیف اللہ تاجک نے ایک ریستوراں پر اتارا کہ ہم سب یہاں ہاتھ منہ دھو کر ذرا فریش ہولیں۔ ہم نے منہ رگڑ رگڑ کر دھویا، مگر پھر بھی اتنے خوب صورت نہ ہوسکے جتنا خوب صورت سیف اللہ تھا۔ قیامت تو سیف اللہ کی ناگن جیسی زلفیں ڈھا رہی تھیں۔ جی تو چاہ رہا تھا کہ اسی وقت سیف اللہ کی زلفوں سے کھیلنا شروع کر دوں مگر عزت اسی میں تھی کہ ذرا لحاظ رکھا جائے ورنہ عین ممکن تھا کہ میری بے عزتی خراب ہوجاتی۔ جہاں سیف اللہ نے ہمیں ہوٹل پر چھوڑا وہیں میں نے اپنا دل سیف اللہ کے بالوں پر چھوڑ دیا۔
بھلا ہو وہاں موجود ایک ویٹر کا جو چترال نواحی علاقے ''دروش'' کا تھا، جس کا بیگ ایک کونے میں پڑا تھا۔ یہ ایک چھوٹا مگر پیارا سا چترالی بیگ تھا۔ میں نے فوراً ہوٹل کے مالک سے پوچھا کہ بیگ کس کا ہے۔ مالک نے ایک ویٹر کی طرف اشارہ کردیا جو میرے سامنے ہی بیٹھا تھا۔ استفسار پر معلوم پڑا کہ یہ چھوٹا سا چترالی بیگ جس میں زیادہ سے زیادہ دو جوڑے آ سکتے تھے، مبلغ اٹھارہ سو روپے کا تھا۔
بیگ کو دیکھ کر میرا دل للچایا مگر اس وقت بازار بند تھا۔ سیف اللہ کو اب باقی ٹیم ممبرز کے ساتھ ہی آنا تھا۔ حیدر اور دوسرا لڑکا پیار کی پینگیں بڑھانے لگے یعنی کہ گپ شپ کرنے لگے اور میں کانوں میں نصرت کی آواز کا رس گھولنے لگا۔ اتنے میں سیف کی کال آ گئی۔ ہم باہر نکلے تو دس سیٹوں والی جیپ کا پیچھے سے دروازہ کھلا تھا۔ آگے سات افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ میں چپ چاپ اندر گھس گیا اور ایک کونے میں بیٹھ کر مزے سے اپنا میوزک سنتا رہا۔
کبھی عابدہ پروین شاہ حسین کا چرخا گھمانے لگتی تو کبھی بھلے شاہ کی آواز بن کر اپنے محبوب شاہ عنایت کو یاد کرتی۔ گاڑی مکمل طور پر بھرچکی تو اس نے اپنا سفر شروع کرنے میں ہی عافیت جانی۔ مجھے لگتا ہے ہمیں اپنی جیپ کا کوئی اچھا سا نام رکھ لینا چاہیے۔ ویسے غزال نام کیسا رہے گا؟ مجھے تو مناسب لگ رہا ہے۔ چلیں اب سے ہم اپنے سفر کے مکمل ہونے تک اپنی جیپ کو غزال ہی پکاریں گے۔
میں زندگی کی دوڑ کی طرح یہاں بھی سب سے آخر میں دُبک کر بیٹھا ہوا تھا۔ مجھ سے اگلی قطار میں تین عدد دل کش لڑکے موجود تھے۔ تینوں آپس میں کزن تھے، پوٹھوہاری تھے اور مزے مزے کی چیزیں کھانے میں مصروف تھے۔ اس سے آگے ایک میڈم تھیں۔ پتا چلا کہ کراچی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں اور کے ٹو ٹریک بھی کرچکی ہیں۔ میڈم کے ساتھ مظفرآباد کے ایک سیاح تھے جو کے ٹو، رش لیک سمیت نہ جانے کون کون سے ٹریک کر چکے تھے۔ سیاحتی قد کے ساتھ ساتھ ان کا پیٹ بھی اچھا خاصا تھا۔ ان کے ساتھ ہی ہمارے گائیڈ سیف اللہ تاجک تھے، جن کے بالوں پر میں رفتہ رفتہ فدا ہو رہا تھا۔ آگے ایک ڈرائیور اور ان کے ساتھ نوید صاحب تھے جو ان ہی تین دل کش لڑکوں کے چچا اور ماموں تھے۔
ہم چترال سے باہر نکل ہی رہے تھے تو نہ جانے میری کچھ طبعیت سی خراب ہونے لگی۔ ایسا لگا جیسے متلی سی ہورہی ہو۔ گاڑی ایک جگہ رکی۔ میں نے آخری سیٹ سے مُنڈی اِدھر اُدھر گھما کر دیکھا تو ساتھ ہی ایک کریانہ اسٹور تھا۔ میں نے پرانی ماسیوں کی طرح ایک بوسیدہ سا پچاس کا نوٹ نکالا اور اپنے سے آگے والے لڑکے کو آواز دیتے ہوئے کہ وہ ذرا پچاس روپے کی امرود کینڈی تو پکڑ لے۔ آگے والے لڑکے نے میرا گندا مندا پچاس کا نوٹ آگے اسی مظفرآباد کے سیاح کو پکڑا دیا جس نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سو روپے اپنے پاس سے شامل کیے اور پورا ڈبا خرید کر میرے حوالے کردیا۔ معلوم ہوا کہ نام تو ان کا سعد رفیق ہے مگر اپنے آپ کو جٹ رائڈر کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے پورا ڈبا اپنے پاس سنبھال لیا۔
غزال چلتی جا رہی تھی اور سڑکوں سے دھول مٹی اڑاتی جا رہی تھی کہ میرے ہاتھ ہی گولین بابو کا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ گزرا جہاں ایک خوب صورت آب شار بلندی سے نیچے گر رہی تھی۔ میں اک دم خوشی سی اچھل پڑا۔ سیف اللہ سے کہہ کر غزال کو رکنے کا اشارہ کیا اور تمام دوست غزال سے نیچے اتر پڑے۔ جگہ تھی ہی بہت پیاری۔ پانی بلندی سے نیچے دریا میں ہی گر رہا تھا۔ دوستوں نے تصاویر بنوائیں، کچھ دیر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا اور واپس غزال کی طرف رخ کیا۔
دس منٹ کا بریک آدھے گھنٹے تک جا پہنچا۔ ہمیں بھی جلدی کسی چیز کی نہ تھی۔ سنا تھا آج رات ہم وادیِ یار خون کے گاؤں پاور میں رکیں گے۔ منزل کیا خاک مزہ دیتی ہے۔ اصل مزہ تو راستوں کا ہوتا ہے بلکہ راستوں سے بھی زیادہ راستے کے دوستوں کا۔ وقتی طور پر چند دوست بننے جا رہے تھے، جن کے ساتھ مجھے زندگی کے چھے دن رہنا تھا۔ پھر ہم سب کو اپنی اپنی زندگیوں میں واپس گُم ہوجانا تھا۔ ہم میں سے کسی کو بھی وادیٔ یار خون میں پہنچنے کی جلدی نہ تھی۔ اس لیے سب نے دل کھول کر اس آب شار پر وقت ضائع کیا اور واپس غزال کی طرف رخ کیا۔
ذرا آگے بڑھے تو ایک چھوٹا سا شہر بُونی آ گیا۔ بونی بے شک ایک چھوٹا شہر تھا مگر اپنے ساتھ ساری سہولیات لیے ہوئے تھا۔ پکی سڑک، بڑا بازار، ٹیلی نار کے سگنل اور سب کچھ۔
بونی سے آگے مستوج تھا۔ مستوج، بونی سے بڑا شہر ہے۔ یہیں سے گلگت کو جانے والا راستہ بھی جدا ہو جاتا ہے۔ مستوج سے گلگت کے لیے بڑی گاڑیاں بھی چلتی ہیں۔ کہیں پڑھا تھا کہ مستوج میں موٹی موٹی اینٹوں اور بلند و بالا فصیلوں والا ایک قلعہ بھی ہے، جس کے ساتھ کہیں نیچے دریائے مستوج بھی بہتا تھا۔ مستوج آئے اور قلعہ مستوج نہ دیکھتے تو زیادتی ہوتی مگر مجھے یہ زیادتی اپنے ساتھ کرنا ہی پڑی کیوں کہ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ شمال گھومنے والے لوگ کبھی بھی تاریخ میں دل چسپی نہیں رکھتے۔
دوسرا یہ کہ میں یک طرفہ طور پر اپنے گائیڈ سیف کے بالوں کے عشق میں مبتلا ہوا تھا، سیف تو نہ ہوا تھا کہ جسے میں کہتا، چلو چلو قلعہ مستوج چلو اور وہ غزال کو قلعہ مستوج کی طرف موڑ دیتا۔ میں نے اپنے آس پاس ہی کہیں مستوج قلعہ کو محسوس کیا اور چپ بیٹھنے میں ہی عافیت جانی۔ غزال آگے بڑھتی گئی اور بالآخر اس نے مستوج کے ایک ریستوران کے سامنے جا کر بریک لگا دی۔
نیچے اترے تو سب سے پہلے سیف نے ایک بری خبر سنائی۔ کہنے لگا کہ کافی پیچھے ترچ میر گزر چکی ہے۔ وہ چوں کہ ہماری پشت کی طرف تھی اس لیے اسے دیکھنا فی الوقت ممکن نہیں تھا۔ واپسی پر اس خوب صورت چوٹی کا دیدار کروایا جائے گا۔ جی تو چاہا کہ سیف کے جُونڈے پُٹ دوں مگر میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔ ترچ میر والی بات کو جانے دیا اور بریانی پر فوکس کیا جو گرماگرم اندر ہمارا انتظار کر رہی تھی۔
پاکستان کے شمال میں بہت سی جگہوں پر گرم چشمے ہیں، جن کے اطراف کا موسم تو بہت ٹھنڈا ہے مگر سلفر سمیت چند دھاتوں کی وجہ سے ان چشموں کا پانی گرم ہے۔ جن علاقوں میں یہ گرم چشمے پائے جاتے ہیں، ان چشموں کی وجہ سے پورے علاقے کو ہی گرم چشمہ کا نام دے دیا گیا ہے۔ چترال کے قریب بھی ایک علاقہ گرم چشمہ ہے جہاں کی ایک چھوٹی سی سرکاری رہائش گاہ کو مقامی لوگ پرائم منسٹر ہاؤس کہتے ہیں۔ وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ہمارے ایک ماضی بعید کے وزیراعظم یہاں تشریف لائے تھے جن کے شایان شان یہاں کوئی ریسٹ ہاؤس نہ تھا تو ایک سادے سے ریسٹ ہاؤس کو شان دار اخراجات کے بعد اسے وزیراعظم کے چند دن گزارنے کے قابل بنایا گیا۔ تب سے اس ریسٹ ہاؤس کو پرائم منسٹر ہاؤس ہی کہا جانے لگا۔
چترال پہلی بار میں سمجھ نہیں آتا۔ پہلی نظر میں آپ کو یہاں صرف بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ ہی نظر آتا ہے مگر جوں جوں آپ چترال کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں توں توں آپ جانتے ہیں کہ یہاں اطراف میں ایسی بے شمار چھوٹی چھوٹی وادیاں ہیں جن کے عشق میں آپ بہ آسانی مبتلا ہو سکتے ہیں۔
(جاری ہے)