غزل
ماورا وقت سے اور سود و زیاں سے آگے
عشق آ پہنچا ہے خطرے کے نشاں سے آگے
اس لیے رب مری شہ رگ کے قریں رہتا ہے
میں نہ آ جاؤں کہیں کون و مکاں سے آگے
ہر نئے دکھ پہ وہ حیرت سے یہ دیکھے کہ مرا
ضبط ہے چار قدم آہ و فغاں سے آگے
قصۂ حور الگ شے ہے، مرا یار الگ
کیا حسیں شخص ہے وہ حسنِ بیاں سے آگے
یہ فقط آنکھ نہیں چشمِ بصیرت ہے میاں
میں اسے جا کے ملوں سرِ نہاں سے آگے
وہ تو رحمان ہے رحمان بھی ہے لامحدود
میں نے بھیجا ہی نہیں کچھ بھی یہاں سے آگے
اس کو پیچھے کی طرف جتنا بھی کھینچیں اظہرؔ
تیر پھر تیر ہے رہتا ہے کماں سے آگے
(اظہر عباس خان۔ لاہور)
غزل
وجود شیشہ بنے راہ کا غبار نہ ہو
بدن کی ریت کا مٹی میں گر شمار نہ ہو
وہاں وہاں پہ محبت کا بیج بوؤں میں
جہاں جہاں پہ کوئی شجرِ سایہ دار نہ ہو
مجھے بجھا کے اندھیرے میں وہ بھٹکتا پھرے
اور اس کا دیپ جلانے پہ اختیار نہ ہو
ہر ایک بھنورا اڑے اور یہیں چلا آئے
گلابِ جسم اب اتنا بھی مشک بار نہ ہو
خدا تباہ کرے اس کے سب کے سب سجدے
وہ جس جبین کو مہدی کا انتظار نہ ہو
(مہدی بخاری ۔ساہیوال)
غزل
میکدے کی خامشی میں بن گیا
میز پر خالی پیالہ قہقہہ
چار سمتیں ہیں تمہارے حسن کی
سادگی، خوشبو، اجالا، قہقہہ
آپ کیا پاگل کو سمجھیں گے میاں
آپ نے تو روند ڈالا قہقہہ
بند کھڑکی طنز ہے تضحیک ہے
اور دروازے پہ تالا قہقہہ
کیوں چبایا نجم لقمہ غیر کا
قہقہے سے کیوں نکالا قہقہہ
(جی اے نجم۔ لاہور)
غزل
چلتی راہوں میں اندھیرے بھی اجالے بھی ہیں
میں نے شعروں میں یہ سب رنگ سنبھالے بھی ہیں
بھوک سے دیکھ مَری جاتی ہے سب خلقتِ شہر
اور مرتے ہوئے ہاتھوں میں نوالے بھی ہیں
نفرتیں پلتی ہیں اِن خستہ دلوں میں کیسے
جن کے کاندھوں پہ محبت کے دوشالے بھی ہیں
دکھ تو یہ ہے کہ مخالف ہیں کھڑے جتنے لوگ
میرے ہمدرد ،مرے چاہنے والے بھی ہیں
آنکھ لگتی ہے تو آ جاتے ہیں ساون کی طرح
خواب نیندوں سے کئی بار نکالے بھی ہیں
سانس بے ربط بھی ہونگے کہ لبِ چشمِ حیات
میرے سینے میں ترے ہجر کے ہالے بھی ہیں
تیرگی سے میں ذرا سا بھی ڈروں تو کیونکر
جب مرے پاس نئے کل کے حوالے بھی ہیں
وقتِ آلام شکایت کا مزہ لیتے ہیں
جبکہ فطرت میں یہاں صبر کے پیالے بھی ہیں
اب کہیں جا کے کھلا راز یہ مجھ پر طاہرؔ
میرے دکھ درد مرے شوق کے پالے بھی ہیں
(طاہر ہاشمی ۔لاہور)
غزل
پتہ پتہ بوٹا بوٹا کر کے سارا جنگل
دو آنکھوں میں لے جاؤں گا بھر کے سارا جنگل
میں گاؤں کا لکڑ ہارا، وہ پیڑوں کی دیوی
اس کے پیچھے چھپ جاتا ہے ڈر کے سارا جنگل
بچوں جیسے دل کی مانی اک تتلی کیا پکڑی
دروازے تک آ پہنچا ہے گھر کے، سارا جنگل
بھوکی بکری جیسی آنکھیں قریہ قریہ گھومیں
خالی خالی کر ڈالا ہے چر کے سارا جنگل
میں جنگل میں کھو جانے کی ضد سینے پہ رکھ کر
سو جاتا ہوں نیچے رکھ کے سر کے سارا جنگل
بے بس پیڑ اور پتے سارے بے بس بھٹکا عالیؔ
اک رستہ تک دے نہ پایا مر کے سارا جنگل
(علی پیر عالی۔ ساہیوال)
غزل
لوحِ جہاں پہ نقش ہے گلزارِ قہقہہ
ہے ساری کائنات طرفدارِ قہقہہ
پہلے یہیں پہ عالمِ نابود و بود تھا
کھولا ہوا ہے جس جگہ بازارِ قہقہہ
رفتارِ بے خیالی نہ رفتارِ روشنی
سب سے زیادہ تیز ہے رفتارِ قہقہہ
دیوارِ مہربانی کا بھی شکریہ کہ اب
تعمیر کیجیے کوئی دیوارِ قہقہہ
گرد و غبارِ حسن سے لطفِ جہان تک
سب میں الگ تھلگ ترا معیارِ قہقہہ
مصنوعی زندگی میں اُلجھتے ہی رہ گئے
ورنہ جہاں میں کون ہے بیزارِ قہقہہ
شاعر نظامِ زندگی ترتیب دیں اگر
ہر ایک دن منائیں گے تہوارِ قہقہہ
(توحید زیب۔تحصیل لیاقت پور، رحیم یار خان)
غزل
سسکیاں بھر کے لب اداس ہوئے
یہ مرے دوست جب اداس ہوئے
صدیوں پہلے چلا گیا تھا وہ شخص
اور تم ہو کہ اب اداس ہوئے
قہقہوں سے منایا سوگ ترا
رات ہم بھی عجب اداس ہوئے
دل کہ بھر آیا پھر بھی روئے نہیں
خود کو سمجھایا کب اداس ہوئے
تیرے جانے پہ کچھ ہوئے اخترؔ
کچھ تو میرے سبب اداس ہوئے
(بلال اختر۔ رحیم یار خان)
غزل
عشق کے شہر میں راستہ چاہیے
رہ گزر میں ترا نقش پا چاہیے
دی ہمیشہ تمہیں زند گی کی دعا
ہم فقیروں سے اب تم کو کیا چاہیے
تم کو پھر سے سنورنے کی ہے جستجو
آئینے کے لئے آئینہ چاہیے
ٹیس رہ رہ کے اٹھتی رہے جان جاں
زخم مجھ کو ہمیشہ ہرا چاہیے
اپنی زنجیرِ وحشت سنبھالے رہوں
مجھ کو زنداں میں تھوڑی ہوا چاہیے
اس قدر تیری الفت میں ہم کھو گئے
اپنے گھر کا ہمیں اب پتہ چاہیے
(خالد سروہی۔ جدہ ،سعودی عرب)
غزل
ایک سپنا دکھائی دیتا ہے
اور دھندلا دکھائی دیتا ہے
میں نے دیکھا ہے تیری آنکھوں میں
کتنا اچھا دکھائی دیتا ہے
میں تجھے اتنا دیکھنا چاہوں
مجھ کو جتنا دکھائی دیتاہے
ماں کی آنکھوں سے بوڑھا بیٹا بھی
چھوٹا بچہ دکھائی دیتا ہے
ایک مجنوں کو دیکھ کر بولے
عشق زادہ دکھائی دیتا ہے
(فرید عشق زادہ۔ بنگلہ گوگیرہ ،اوکاڑہ)
۔۔۔
غزل
توڑ کے دل کو خوشیاں مناتے ہیں لوگ
زخم دیتے ہیں اور مسکراتے ہیں لوگ
مفلسی میں گرفتار ہوتا ہے جو
اس کو نظروں سے اکثر گراتے ہیں لوگ
پیٹھ پر یار کی گھونپتے ہیں چھرا
آج کل دوستی یوں نبھاتے ہیں لوگ
دیکھتے ہیں نہ اپنے گریبان میں
تہمتیں دوسروں پر لگاتے ہیں لوگ
یہ ہے دنیا یہاں پر تو غضنی میاں
تیر اپنوں کے دل پر چلاتے ہیں لوگ
(غضنفر غضنی ۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
کالا لباس پہن کر آئیں گے آپ بھی
کچھ اس طرح سے سوگ منائیں گے آپ بھی
خوابیدگی میں ہوچکے برباد اس قدر
اور اب حسین خواب دکھائیں گے آپ بھی
فلموں میں جس طرح سے اوڑھاتے ہیں شال کو
کیا اس طرح سے مجھ کو اوڑھائیں گے آپ بھی
کردار جس طرح سے نبھایا ہے آپ نے
ادھورا چھوڑ چھاڑ کے جائیں گے آپ بھی
ان خبطیوں نے لوٹ لیا ہے وطن کو اور
حارثؔ کچھ اپنے حصے کا کھائیں گے آپ بھی
(حارث انعام۔نوشہرہ)
۔۔۔
غزل
گرچہ وعدہ وفا نہیں ہوتا
عشق تیرا قضا نہیں ہوتا
یہ محبت تو ایک فتنہ ہے
ہر کوئی با وفا نہیں ہوتا
اس نے پوچھا کہ پھر میں کب آؤں
ضبط دل سے ذرا نہیں ہوتا
اس نے اکثر کہا، محبت کا
مجھ سے قرضہ ادا نہیں ہوتا
درد بڑھتا ہی جا رہا ہے اب
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
چاہتوں کا جہاں عجب ہے یہ
ہر کوئی دلربا نہیں ہوتا
شاخِ احساس سے گرا پتا
پھر وہ قاصر ہرا نہیں ہوتا
(قاصر ایاز میمن۔کنری پاک)
۔۔
غزل
دل سے ظالم کے مظالم کی حمایت کی ہے
ہم نے ہر ظلم کی بس صرف مذمت کی ہے
حاکمِ وقت کا کردار بھی ہے غور طلب
اس نے مظلوم کی آہوں پہ سیاست کی ہے
اک دکھاوا ہے کہ اب اس پہ بسر ہوتی ہے
جس نے پھرتی سے زمانے میں سرایت کی ہے
ایک، دو، تین نہیں چار نہیں،سارے ہیں
سب نے مل جل کے بد امنی کی حفاظت کی ہے
رب کرے خاک میں مل جائے،تباہ ہو جائے
جس نے اس ملک کے دشمن سے رفاقت کی ہے
(محبوب الرّحمان۔ سینے،میاندم،سوات)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی