رمضان کی برکتیں

اس ماہ مبارک کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ اس میں عبادات اور نیکیوں کا اجر ستر گنا بڑھ جاتا ہے،


نجمہ عالم July 03, 2014
[email protected]

اس ماہ مبارک کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ اس میں عبادات اور نیکیوں کا اجر ستر گنا بڑھ جاتا ہے، یوں تو کائنات کی ہر شے اللہ رب العزت کی ہے مگر یہ مہینہ خاص طور پر اللہ تعالیٰ کا مہینہ کہلاتا ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش پر ہوتی ہے۔ وہ اپنے بندوں پر اس قدر مہربان ہے کہ ان کو زندگی میں بار بار اپنے گناہوں سے تائب ہونے اور مغفرت طلب کرنے کے مواقعے عطا فرما کر اس کی ہر صورت بخشش کا ساماں مہیا کرتا ہے۔

اگر ہم اس پر واقعی ایمان رکھتے ہیںکہ اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ وہ دین ہے جو شاہوں سے لے کر فقرا تک سب کے لیے قابل عمل ہے اس میں کوئی پیچیدگی نہیں بلکہ اتنی آسانی اور سہولت ہے کہ فقیر و محتاج تک اس دین کو اختیار کرسکتے ہیں۔ حج، زکوٰۃ، خیرات، جیسی عبادات اور نیکیوں کے لیے نصاب مقرر ہیں جو صاحب نصاب ہے وہ حج و زکوٰۃ ادا کرے مگر قرض لے کر ادھار لے کر حج نہیں کیا جاسکتا۔ خیرات کے لیے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کسی کے وقت پر کام آجانا کسی کی مدد کردینا کسی کو صرف پانی پلا دینا، کسی کو صرف آدھا خرمہ صدق دل اور خوشنودی رب کی نیت سے دینا بھی کسی کے لاکھوں روپے خیرات کرنے کے برابر ہے۔

رمضان میں سحروافطار کے لیے کس طرح کم وقت میں زیادہ سے زیادہ چیزیں تیار کی جاسکتی ہیں۔ بطور خاص خواتین کے لیے مخصوص صفحات پر تقریباً ہر سال ایسے مضامین اور تراکیب تیار کی جاتی ہیں کہ فلاں فلاں کام پہلے سے کرلیں اور کئی چیزیں ایسی ہیں جو رمضان سے پہلے بناکر فریزڈ کرلی جائیں، روزے کے دوران صبح میں جب تازہ دم ہوں تو بیسن وغیرہ تیار کرلیا جائے تو شام کو صرف ان کو تلنے کا کام باقی رہ جائے گا ۔ کوئی یہ مشورہ نہیں دیتا کہ سحر اور افطار میں کئی کئی پکوان بنانے کی بجائے پانی یا صرف کھجور سے روزہ افطار کیجیے اور سادہ کھانا کھا لیجیے۔

ادھر کھانا پکانے کے پروگرامز میں جو اشیا بنانا سکھائی جاتی ہیں ان میں جو لوازمات استعمال ہوتے ہیں وہ ایک متوسط گھرانے کی ہی قوت خرید سے باہر ہوتی ہیں تو عام گھرانے ان سے کیسے استفادہ کرسکتے ہیں ؟ بجائے استغفار و درود، ذکرو اذکار کے سحر میں کیا کھایا جائے گا اور افطار میں کیا کیا ہوگا کہ ذکر اور فکر میں دن کٹ جائے۔ اس ایک مہینے کا بجٹ باقی گیارہ مہینوں کے بجٹ سے تجاوز کرجاتا ہے۔ جگہ جگہ بلکہ گھر گھر افطار پارٹیوں کا رواج بھی عام ہے جن میں کئی کئی سو افراد مدعو کیے جاتے ہیں۔

بلکہ عام حالات میں صرف گھر والوں کے لیے افطاری کی تیاری کے لیے خاتون خانہ چار بجے سہ پہر سے باورچی خانے کا رخ کرتی ہیں تب کہیں جاکر کئی قسم کے مشروبات طرح طرح کی چاٹ کئی اقسام کے پکوان میز کی زینت بنتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عید کی خریداری رشتے داروں دوستوں کو عید پر دینے کے لیے تحائف کے لیے بازار کے چکر لگانے میں بتائے عبادات و تلاوت کے لیے کتنا وقت بچتا ہے؟ یہ تو ہوئی ہماری وہ خودساختہ روایات جن کا اسلامی طرز حیات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔

اب ایک نظر ذرا اپنے ملکی حالات پر بھی ڈال لی جائے جس ملک کا وزیر خزانہ خود اسمبلی میں کہہ رہا ہو کہ ملک میں پچاس فیصد سے زیادہ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ملک کے کتنے علاقوں میں لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اکثریت کو دو وقت کی روکھی روٹی پیٹ بھر کر نہیں ملتی۔ ذرایع ابلاغ کا سب سے اہم کام معاشرے کی درست رہنمائی کرنا اور اخلاق کے اعلیٰ نمونوں کو پروان چڑھانا ہے ناکہ حقائق کے برعکس معاشرے کی عکاسی کرنا۔

روزہ اس لیے فرض کیا گیا ہے کہ دولت مندوں کو غریبوں کے فاقوں کا احساس ہو اور فاقہ زدہ افراد اپنے فاقوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بناکر بجائے احساس محرومی کے احساس بندگی کے خوگر ہوں۔ آج اسلامی معاشرہ فروعی مسائل میں اختلافات کے باعث مختلف گروہوں، فرقوں میں بٹتا چلا گیا۔ مسلمانوں کا اتحاد و یکجہتی نفاق اور تفرقے میں بدل گیا تمام اسلامی ممالک ایک قوت ہونے کی بجائے بکھرتے چلے گئے آج عالم اسلام کی اسی صورت حال سے طاغوتی طاقتیں بھرپور فائدہ اٹھا کر ہمیں خدا نخواستہ نیست و نابود کرنے پر کمر بستہ ہیں۔

جب اسلامی ممالک میں اور خود ہمارے ملک میں امیر اور غریب کے درمیان فاصلے بڑھتے جائیں گے جہاں ایک طبقہ محلوں، حویلیوں، بنگلوں میں تمام آسائشوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہو اور ایک طبقہ کے سر پر چھت، بدن پر کپڑا، پیٹ میں روٹی تک نہ ہو تو ہم ایسے میں کس منہ سے رمضان کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کی امید کرسکتے ہیں جب کہ عام دنوں میں ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ معلوم کرے کہ اس کے پڑوس میں کوئی بھوکا تو نہیں۔ یہاں تو زکوٰۃ و خیرات کے نام پر بھی چند افراد اپنا گھر بھرنے میں مصروف ہیں۔ خیرات کے بنڈلوں اور زکوٰۃ کے چیک کے ساتھ فوٹو شایع کرانے کی حد تک تو بہت کچھ ہوتا ہے مگر آج تک معلوم نہ ہوسکا کہ یہ سب کہاں جاتا ہے؟ کیونکہ غربت تو کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

تاریخ اسلام میں ایسے حکمران بھی گزرے ہیں جو عام آدمی سے بھی کم حیثیت اور سادہ زندگی بسر کرتے تھے، خلیفہ دوئم کا یہ قول تاریخ میں محفوظ ہے کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مرگیا تو اس کی جوابدہی مجھ سے ہوگی۔ خلیفہ چہارم کا یہ واقعہ بھی تاریخ کے صفحات میں ملتا ہے کہ ایک بار آپ نے اپنی صاحبزادی بی بی ام کلثوم کے گھر روزہ افطار فرمایا بیٹی نے اپنے والد کے سامنے ایک کوزہ دودھ اور نمک لاکر رکھا تو آپ نے اپنی بیٹی کے چہرے کی طرف بغور دیکھا بیٹی نے عرض کیا بابا جان! کیا کوئی غلطی ہوگئی، آپ نے نرمی سے فرمایا بیٹی! کیا تم چاہتی ہوکہ تمہارا باپ دیر تک حساب دینے والوں میں شامل ہو۔

کچھ لوگوں کے پاس افطار کے لیے آدھا خرمہ بھی نہیں اور تم دو چیزیں میرے سامنے رکھ رہی ہو۔ بیٹی نے چاہا کہ نمک اٹھالیں تو والد نے فرمایا کہ دودھ اٹھالو یہ کسی بچے کا پیٹ بھرنے کے کام آئے گا میں نمک سے روزہ افطار کرلوں گا۔ ایک ہمارے حکمراں ہیں کہ اپنے بھائی بندوں کو ہر اعلیٰ منصب پر دوسروں کا حق مار کر مسلط کر رکھا ہے کسی حکمران کے سولہ کسی کے بیس قریبی رشتے دار دوست بڑی بڑی آسامیوں پر قابض ہیں اور کارکردگی صفر سے بھی کم۔

سندھ کے محکمہ صحت کا جو حال ہے وہ سب پر عیاں ہے نوزائیدہ بچے آکسیجن نہ ہونے کے باعث مرجاتے ہیں کچھ لوگ جعلی دواؤں اور غلط علاج کے باعث زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ناکافی طبی سہولیات کے باعث معمولی بیماری سے ٹھیک ہونے کے بجائے طرح طرح کے امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں حال ہی میں مختلف ادویات کی خرید میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا اس محکمے میں انکشاف ہوا ہے۔ اور سیکریٹری محکمہ صحت سب کو معلوم ہے کہ کون ہیں ، مثالیں بلکہ مصدقہ خبریں تو بہت ہیں مگر کس کس کی بات کریں ۔یہی کہا جاسکتا ہے۔اﷲ ہم سب پر اپنا کرم فرمائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں