تاریخ کی پیشانی پر کندہ حقیقت
موجودہ دورمیں’’انقلابی لیڈروں‘‘کی ایک بھیڑ لگی ہے، چہارسوانقلاب کا اس قدرشور بپا ہے
موجودہ دورمیں''انقلابی لیڈروں''کی ایک بھیڑ لگی ہے، چہارسوانقلاب کا اس قدرشور بپا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے۔''انقلابی لیڈر'' ملک کی بقا وسلامتی اور ترقی کا راز صرف انقلاب میں ہی پنہاں بتاتے ہیں، اس کے ساتھ گرانی،غربت، بے روزگاری، ملکی خودمختاری وسالمیت اور تمام مسائل کا واحد سبب حکومت وقت کوگردانتے ہوئے اس کو للکارنے میں مصروف ہیں اور حکمرانوں کو ڈرانے کے لیے فرانس، روس اور ایران کے خونی انقلابات سے ہوتے ہوئے مصر، تیونس، لیبیا اور شام تک کے انقلابات کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں اور ماضی قریب میں عوام کے ہاتھوں زین العابدین، حسنی مبارک، معمر قذافی اور بشار الاسد کے آمرانہ اقتدار کے خاتمے کی داستانیں بھی سنائی جاتی ہیں۔
جب کہ دوسری جانب حکمران طبقہ تمام تر ناکامیوں کے باجود گوند کی طرح اقتدار سے چپکے رہنا فرض خیال کرتا ہے، بلکہ کوئی بھی حکمران اپنے اقتدار کے سورج کو غروب ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ جس کے لیے حکمران عوام کی خواہش کے مطابق مختلف النوع ہلکی پھلکی اصلاحات بھی وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں، کیونکہ سماج کی نبض جاری رکھنے اور نظام و اقتدار کی معیاد طویل کرنے کے لیے کچھ اصلاحات کا ہونا اشد ضروری ہوتا ہے، لیکن جب رائج الوقت نظام کے اندر اصلاحات ناکام اور بے سود ہو نا شروع ہوجاتی ہیں اور سماج میں بہتری کے لیے کی جانے والی ہر اصلاح اپنے منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اصلاحات کی ہر گنجائش ختم ہوچکی ہے اور جب سماج میں اصلاحات کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے، تب انقلاب کی گنجائش پیدا ہوتی ہے اور پھر تحریکیں جنم لیتی ہیں، بغاوتیں ابھرتیں ہیں، ماضی کی ہر قدر، ریت و روایت، سماجی، معاشی، سیاسی فلسفے اور رشتے غرض پورا نظام اور اس کا ترتیب و تشکیل دیا ہوا ماضی کا دیو ہیکل اور ناقابل تسخیر سماج ریت کی دیوار کی طر ح زمین بوس ہوتا چلا جاتا ہے۔ پورے سماج کو انارکی، سیاسی، معاشی، سماجی مسائل کا اژدھا نگلنا شروع کر دیتا ہے۔ ایک بے چینی اور انتشار ہر طرف پھیل جاتا ہے۔ سماجی بربادی ہوتی ہے، جو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے، یہ کسی بھی نظام کی ناکامی، تباہی اور موت کی آخیری ہچکیاں ہوتی ہیں، جب نظام ناکام اور حکمران نامراد ہوتے ہیں تو پھر انقلاب کا میدان لگتا ہے اور انقلاب سماج کو نئی جہتوں سے آشکار کرتا ہے۔
ماضی بتاتا ہے کہ انقلاب فرانس اور انقلاب روس ایسے ہی حالات میں خونریزی مچاتے ہوئے واقع ہوئے تھے۔ 1789ء میں فرانس میں خونی انقلاب برپا ہوا۔ ملکہ میری انٹونیے، جس نے بھوکے فرانسیسیوں کو کہا تھا کہ روٹی نہیں ملتی تو کیک کھالیں، شاہ لوئی اور ان دونوں کی اولاد، سب کا انجام انتہائی بھیانک طریقے سے ہوا۔ فرانسیسی انقلاب میں بیس لاکھ بے گوروکفن لاشیں سڑکوں پر پڑی تھیں اور انقلاب کے بعد معتوب قرار دیے جانے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ایسی مشینیں بنانا پڑیں، جو تیزی کے ساتھ انسانوں کے سرکاٹنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ اسی طرح روس میں ہوا۔ زار روس نکولس دوم حکومتی معاملات میں اپنی شہزادی زارینہ الیگزنڈرا کی بے جا مداخلت کے سامنے بے بس تھا۔
وہ پہلی جنگ کی تباہ کاریوں اور ہولناکیوں سے سنبھل نہ پایا تو روس میں ہر چیز کی قیمت کئی گنا بڑھ گئی۔ لوگ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے لوٹ مار کرنے لگے تو پولیس ان کی لاشیں گرانے لگی۔ 11 مارچ 1917 کو احتجاج کرنے والے 200 افراد کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا تو عوامی قہر کی بدولت 1917 میں نکولس دوم کو تخت سے دستبردار ہونا پڑا۔ 16 اور 17 جولائی 1918 کی درمیانی شب 2 بجے پورے خاندان کو ان کے ملازموں سمیت جگا کر لباس تبدیل کرکے تہہ خانے میں لے جا کر فائرنگ کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ روس کے کمیونسٹ انقلاب میں ''زار'' بادشاہوں کی قبروں کو کھود کر ہڈیاں تک جلا دی گئی تھیں۔
انقلاب کہنے اور سننے کو جس قدر عمدہ اور خوشنما لفظ ہے، حقیقت میں اسی قدر خوفناک اور بھیانک ہے۔ انقلاب کا معنیٰ ہے، پلٹ دینا اور ہر چیز تہہ و بالا کردینا، انقلاب میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ جب انقلاب آتے ہیں تو انسانی جانوں کا بے تحاشہ ضیاع ہوتا ہے اور انسانی خون ندیوں کی طرح بہتا ہے۔ انقلاب ایک جوئے کی مانند ہے، اس تخصیص کے ساتھ کہ اس میں اکثر دونوں فریق ہار جاتے ہیں اور فتح تباہی و بربادی کی ہوتی ہے۔ انقلاب ایک تابکاری عمل ہے کہ جس کا شروع کرنا تو اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے، مگر روکنا اپنے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ جب تک بات بنتی نظر آتی ہے، اس وقت تک بات دور نکل چکی ہوتی ہے۔ تصادم کسی کو راس نہیں آتا۔ عجب افراتفری کا سماں برپا ہوتا ہے۔ مارنے والے غازی، مرنے والے شہید۔ زمین سرخ، آسمان سرخ، شاہراہیں اور تاریخ لہو میں ڈوبی ہوئیں۔
اخبارات کے صفحات سے ٹپکتا لہو انسانی جذبات کو لہو رنگ کرتا چلا جاتا ہے۔ انقلاب میں خوراک اور لباس کا ہی قحط نہیں پڑتا، بلکہ انسانی سرشت بھی ناپید ہو جاتی ہے۔ انقلابات اپنی کامیابی کے لیے بے حساب خون کا خراج مانگتے ہیں۔ ایرانی انقلاب کو تو اگرچہ کچھ زیادہ عرصہ بیت گیا، جس میں خانہ جنگی پر قابو پانے میں تین برس صرف ہوئے اور یہ تین برس ہزاروں انسانوں کا لہو چاٹ گئے تھے، لیکن مصر، تیونس، لیبیا اور شام کے اچانک رونما ہونے والے انقلابات تو ابھی تازہ مثالیں ہیں، ان کو تو زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا۔ انقلاب کے وقت جو لوگ بے موت مارے گئے سو مارے گئے، لیکن انقلاب کی بدولت ابھی تک ان ممالک میں موت کا رقص جاری ہے اور یہ ممالک خانہ جنگی کی بھٹی میں دہک رہے ہیں۔ ابھی تک یہاں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔
یہ تمام ممالک بدامنی و بے سکونی اور بے شمار مسائل کی دلدل میں بری طرح دھنستے چلے جارہے ہیں۔ یاد رہے کہ تاریخ کی پیشانی پہ یہ حقیقت جلی حروف میں کندہ ہے کہ انقلاب آتا تو آسانی سے ہے، لیکن جاتا بہت مشکل سے ہے، یعنی اس کے اثرات سے چھٹکارہ برسوں میں بھی نہیں پایا جاسکتا۔آج ملک خداد داد میں بھی حالات کافی حد دتک دگرگوں ہیں۔ لوگ جمہوری حکومتوں کے رویوں سے عاجز آ کر آمرانہ حکومت اور انقلاب کی باتیں کررہے ہیں۔ عام آدمی کی مشکلات میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے، لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاست ہمیشہ سے چند سیاسی گھرانوں کی میراث رہی ہے۔
عوام اقتدار پر مخصوص سیاسی گھرانوں کی میراث سے جان چھڑا کر تبدیلی چاہتے ہیں اور جب عوام کسی بھی تبدیلی کے لیے کھڑے ہوجائیں تو وہ تبدیلی آکر رہتی ہے، کیونکہ اگر عوام کسی ملک میں انقلاب لانا چاہتے ہیں تو پھر اس کو کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ اس حقیقت کے باوجود یہ ضروری نہیں کہ تبدیلی خونی انقلاب کی صورت میں ہی آئے۔ انقلاب سے تو فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہوتے ہیں۔ پرامن طریقے سے بھی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔ اگر تبدیلی ہی مقصود ہو تو جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا اور ملائیشیا میں مہاتیر محمد کی مثال بھی سامنے رکھی جاسکتی ہے، جو خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر تبدیلی لائے۔ ہمارے لیے انقلابِ روس و فرانس نہیں، نیلسن منڈیلا اور مہاتیر محمد کا لایا ہوا انقلاب رول ماڈل ہونا چاہیے۔