نصیب دشمناں کب تک
کیوں کہ یہ مغربی معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے والے خاندانی نظام کی بنیاد بنتی ہے
جو لوگ ہمارے مغرب میں جا بسنے پر تنقید کو برا خیال کرتے اور ہمیں فرسودہ اور جمود خوردہ تصورات کا حامل قرار دے کر ہمیں ردی کی ٹوکری میں پھینکے جانے کے قابل خیال کرتے ہیں۔ ان کی عبرت کے لیے ہم یہ ایک خبر پیش کرنا چاہتے ہیں، جو یہ بتائے گی کہ ہم مغرب میں آباد کاری اور اپنے تعلیم یافتہ نوجوان لڑکے، لڑکیوں کی مغربی معاشرے سے ہم آہنگ ہونے کو کیوں ایک خطرہ قرار دیتے ہیں۔ یہ خبر پاکستان کے ایک مشہور روزنامے میں نمایاں طور پر شایع ہوئی ہے۔
ہوا یہ ہے کہ گزشتہ دنوں ایک پاکستانی نژاد ''امریکی'' خاتون نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی ہے اور اس طلاق کی 'خوشی' میں انھوں نے ایک باقاعدہ پارٹی کا اہتمام کیا۔ اس پارٹی میں یہ مطلقہ خاتون بڑی خوشی خوشی شرکت فرماتی ہیں۔ یہ تقریب ہی ان کی برپا کی ہوئی تھی اور اس محفل کی میرِ محفل خود ان کی ذات گرامی تھی۔ انھوں نے اس محفل کی میزبانی انتہائی مَسرت کے ساتھ انجام دی اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس محفل کے شرکا کوئی امریکی الاصل لوگ ہی نہیں تھے، بلکہ ایشیائی باشندے بھی بڑی تعداد میں شریک تھے اور محفل میں رقص و موسیقی کا طوفان برپا تھا۔
ان کے احباب ان کی اس '' طلاق'' پر شاداں و فرحاں انھیں مبارک باد دینے کے لیے جمع تھے اور وہ خود اس خوش گوار موقع پر نہ صرف یہ کہ شاداں و فرحاں تھیں، بلکہ رقص کناں بھی تھیں۔ مقصد اور مرکزی خیال اس کا یہی تھا کہ نکاح یا شادی کا بندھن جو ایک خاندان کی بنیاد بنتا ہے، سراسر بوجھ اور قید کے مترادف ہے، اس لیے اِس سے ' نجات' حاصل کرنا خوشی کا مقام ہے، کہاں پہلے صدیوں کی روایات میں شادی بیاہ کو خوشی اور شادمانی کا موقع قرار دیا جاتا تھا، لیکن اب زمانہ بدل رہا ہے اور اس کے برعکس ' طلاق' کو مقام خوشی بنا دیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ بھی نکلے گا کہ شادی ٹھیک نہیں ہے۔
کیوں کہ یہ مغربی معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے والے خاندانی نظام کی بنیاد بنتی ہے، لہٰذا کسی نہ کسی طرح شادی کو ہتک اور دقیانوسیت کی علامت بنا کر دکھانا ہے اور ایسی باتوں کو فروغ دینا ہے، کہ جنھیں تصور کرنا بھی محال ہوتا تھا۔ بہرحال ہم اس طلاق کی تقریب کی جانب واپس آتے ہیں۔ خبر کے تفصیلات کے مطابق اس موقع پر موسیقی کے ساتھ جو گانے بجائے جا رہے تھے وہ سب ہندوستانی گانے تھے، جن کے بول کچھ اس طرح تھے:
٭ سونا کتنا سونا ہے، سونے جیسا تیرا من۔۔۔!
٭ میں بارش کر دوں پیسے کی، جو تو ہو جائے میری!
٭ زور کا جھٹکا، زوروں سے لگا۔۔۔ شادی بن گئی عمر بھر کی سزا
یہ سارے گیت کچھ ان کی طلاق کے لیے نہیں لکھے گئے تھے، وہ تو صرف یہاں اطلاق کے طور پرکام آ رہے تھے۔ تماش بین ان صاحبہ پر نوٹوں کی بارش کر رہے تھے اور پس منظر میں ایسے غبارے فضا میں لہرا رہے تھے جن پر لکھا تھا ''طلاق مبارک!''
''طلاق مبارک'' کی یہ ساری کیفیت مغربی معاشرے ہی کی دین اور ودیعت کردہ ہے، اگرچہ ہندو مت، یہودیت اور عیسائیت میں تو طلاق کی گنجائش ہی نہیں، لیکن شادی تو ہر مذہب کا لازمی حصہ ہے، جب کہ ہمارے مذہب میں اگر طرفین میں گزارا نہ ہو رہا ہو، تو طلاق اس لاینحل مسئلے کے حل کے طور پر جائز خیال کی جاتی ہے، مگر یہ بھی دھیان رہے کہ یہ تمام جائز اور حلال کاموں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز بھی ہے۔ اس لیے طلاق کو ناپسندیدہ خیال کرتے ہوئے مجبوراً استعمال کرنے کی اجازت ہے نہ کہ خوشی خوشی! لیکن مغرب نے عیسائیت، توریت اور انجیل سبھی کو بالائے طاق رکھ دیا ہے اور وہاں اب طلاق بچوں کا کھیل بن کر رہ گئی ہے۔
مگر جن '' پاکستانی نژاد'' خاتون نے یہ جشن برپا کیا، انھوں نے تو امریکیوں کے بھی ریکارڈ توڑ دیے اور طلاق کا جشن منا کر طلاق کو ''نکاح سے آزادی'' قرار دے دیا۔۔۔!
اس جشن میں ان کے شریک کوئی امریکی ہی نہ تھے، اس میں ظاہر ہے ان کے پاکستانی دوست بھی شامل تھے، جو ان پر نوٹ نچھاورکررہے تھے اور اس طرح اپنے سینے میں دبی دبی اس خواہش کا بھی اظہار فرما رہے تھے کہ جو اس موقع پر گائے جانے والے گیت کے بول تھے۔
''میں بارش کر دوں پیسے کی جو تو ہو جائے میری''
اور یہ جو ہم ''غیر مسلم معاشروں'' میں آبادکاری کی مخالفت کرتے ہیں، وہ صرف اور صرف اس لیے ہے کہ اس طرح ہماری آیندہ نسلیں '' تھا جو ناخوب زمانے میں وہی خوب ہوا'' کا شکار ہو کر وہ کچھ کرنے لگیں، جو ان خاتون نے کیا۔ یورپ میں طلاق عام ہو چکی ہے، مگر وہاں بھی طلاق پر جشن منانے کی جرأت کسی کو نہ ہو سکی۔ یہ جرأت ایک بدنصیب مسلم عورت کے مقدر میں لکھی ہوئی تھی کہ وہ زوجیت سے چھٹکارا حاصل کر کے جشن منائے اور اہل مغرب کو اپنی روشن خیالی کا قائل کر سکے، بلکہ ان کی راہ نمائی کر سکے کہ دیکھ لو۔
''اس طرح سے کہتے ہیں سخن ور سہرا''
اس مبارک تسلیم کی سوشل میڈیا پر خوب دھوم مچ گئی۔ بعض حلقوں کی طرف سے اس کی مذمت بھی کی گئی، تو بعض نے اس عمل کی حمایت بھی کی، لیکن نہ مذمت کسی کام آ سکتی ہے، نہ حمایت سے کوئی بات بن سکتی ہے۔ سیدھی بات یہ ہے کہ اگر آپ ایک مادر پدر آزاد معاشرے میں جا بسے، تو پھر یوں تو ہوگا۔ اس خاتون کی صورت میں یہ حادثہ اولین نسل میں ہوا ہے، وہ لوگ جو بڑے تفاخر سے وہاں جا بسے ہیں، تیار رہیں کہ ان کی دوسری تیسری نسل کا بھی انجام یہی ہو سکتا ہے، کوئی بچے گا نہیں۔
''مگر آفت تو آئے گی نصیبِ دشمناں کب تک''