لوک گلوکار’’الن فقیر‘‘ کو مداحوں سے بچھڑے 14 برس بیت گئے

گلوکار نے شاہ لطیف بھٹائی ؒ کے کلام سے ابتدا کی، اردو، سندھی میں نغمے گائے


Cultural Reporter July 04, 2014
گلوکار نے شاہ لطیف بھٹائی ؒ کے کلام سے ابتدا کی، اردو، سندھی میں نغمے گائے۔ فوٹو : فائل

صدارتی ایوارڈ یافتہ سندھی لوک گلوکار الن فقیر کی 14ویں برسی آج منائی جا رہی ہے لیکن آج بھی وہ مداحوں میں زندہ ہیں۔

الن فقیر 1932ء کو سندھ کے ضلع جامشورو میں پیدا ہوئے تھے اور انھوں نے صوفیانہ کلام گا کر ملک گیر شہرت حاصل کی۔ انھوں اردو اور سندھی میں نغمے بھی گائے' ان کی گائیگی کا انداز اس لیے منفرد تھا کہ وہ گلوکاری کے ساتھ ساتھ اعضاء کی شاعری بھی کرتے تھے۔

الن فقیر کے والد ایک ڈھولچی تھے جو شادی اور دیگر تقریبات میں ڈھول بجانے کے علاوہ گانے بھی گایا کرتے تھے۔ الن فقیر اگرچہ صوفی تھے لیکن انھوں نے فقیر تخلص کا انتخاب کیا' وہ گھر بار چھوڑ کر حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ کے مزار پر سکونت اختیار کی اور دربار پر آنے والے عقیدت مندوں کو دیکھتے' ان سے شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام سنتے' وہیں پر الن فقیر نے شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ کا کلام گانا شروع کیا، وہ 20 برس تک اسی دربار پر مقیم رہے اور روحانی فیض حاصل کیا۔

ان کی پرسوز آواز ایک مرتبہ ریڈیو حیدر آباد تک پہنچ گئی جس کے بعد وہ ملک گیر شہرت حاصل کر گئے۔ الن فقیر نے معروف پاپ سنگر محمد علی شہکی کے ساتھ ملک کر گانا بھی گایا جس کے بول تھے ''اللہ اللہ کر بھیا'' اس گانے نے الن فقیر کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

الن فقیر کو صدر جنرل ضیاء الحق نے1980ء میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا تھا اس کے علاوہ انھیں شاہ لطیف ایوارڈ، شہباز ایوارڈ اور کندھ کوٹ ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ الن فقیر 4 جولائی 2000ء کو اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے لیکن ان کی یاد آج بھی لاکھوں دلوں میں زندہ ہے۔ سندھی زبان سے عدم واقفیت کے باوجود اس کی پرسوز آواز کے لاکھوں شیدائی آج بھی دنیا میں موجود ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں