کراچی میں پانی کے ٹینکرز دگنی قیمت میں فروخت کیے جانے لگے
مئی، جون اور جولائی کی گرمی میں ٹینکرز مافیا نے پانی کے ٹینکرز بلیک مارکیٹنگ کرکے فروخت کیے
شہر قائد میں شہریوں کے لیے پانی کا حصول دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے، بیشتر علاقوں میں نلکوں کے ذریعے پانی کے بجائے ہوا نکلتی ہے جبکہ جو ٹینکر پہلے کم ریٹس پر مل جاتے تھے اب دگنے اور تین گنا دام میں فروخت کیے جا رہے ہیں۔ مئی، جون اور جولائی کی گرمی میں ٹینکرز مافیا نے پانی کے ٹینکرز بلیک مارکیٹنگ کرکے فروخت کیے۔
تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے اعلیٰ حکام نے واٹر ٹینکرز مافیا کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، گزشتہ پانچ سال بالخصوص پچھلے سال کے مقابلے میں کمرشل واٹر ٹینکرز کے ریٹس، ٹینکرز کی تعداد اور ٹرپس میں غیرمعمولی اضافہ ہو چکا ہے۔ ان واٹر ٹینکرز کی وجہ سے شہری لائن کے ذریعے پانی سے محروم ہوگئے ہیں جبکہ ٹینکرز کی آمد و رفت کی وجہ سے اہم شاہرائیں اور سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہیں۔
واٹر کارپوریشن کی پیپلزلیبر یونین کے جنرل سیکریٹری محسن رضا کا کہنا ہے کہ اس بار ان گرمیوں میں شہر کراچی میں پانی کا جو بحران کھڑا ہوا ہے اس سے واقعہ کربلا کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں آفیشل واٹر ہائیڈرینٹس کی تعداد 23 تھی لیکن اس وقت ٹینکرز کی تعداد اور ٹرپس بہت کم ہوتے تھے۔ اب واٹر کارپوریشن کی زیر نگرانی واٹر ہائیڈرینٹس کی تعداد 7 ہے جو سخی حسن، نیپا چورنگی، صفورا چورنگی، کرش پلانٹ، شیر پاؤ کالونی، لانڈھی ون فیوچر کالونی اور بلدیہ ٹاؤن میں واقع ہیں۔ واٹر بورڈ کی زیر نگرانی ہائیڈرینٹس میں ٹینکرز کے یومیہ 40ہزار سے 50ہزار ٹرپس ہوگئے ہیں، ان ٹینکرز کے ذریعے روزانہ 30 سے 40 ملین گیلن پانی شہریوں کو فروخت کیا جاتا ہے، شہر میں ابھی بھی درجنوں غیر قانونی ہائیڈرینٹس کام کر رہے ہیں جو واٹر بورڈ کی لائنوں سے پانی چوری کرکے فروخت کرتے ہیں۔
محسن رضا کا کہنا ہے کہ آفیشل ہائیڈرینٹس ہوں یا غیرقانونی ہائیڈرینٹس دونوں صورتوں میں ٹینکرز مالکان مہنگے داموں پانی فروخت کرکے شہریوں کو لوٹ رہے ہیں، شہر کی ضرورت 1200ملین گیلن یومیہ ہے جب کہ فراہمی 415ملین گیلن یومیہ ہے اور شارٹ فال 785 ملین گیلن کا ہے، پانی کا اصل بحران تو جب ہی ختم ہو سکتا ہے جب اضافی پانی کے میگا منصوبے KIV اور دیگر منصوبے مکمل کیے جائیں گے لیکن اس درمیانی وقت میں اگر غیرقانونی ہائیڈرینٹس کا قلع قمع کر دیا جائے اور آفیشل ہائیڈرینٹس کو محدود کر دیا جائے تو شہر میں کافی حد تک پانی کا بحران کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور کئی علاقوں میں شہریوں کو ان کی لائنوں کے ذریعے پانی کی فراہمی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جن علاقوں میں پانی کی لائنیں موجود نہیں ہیں یا فراہمی آب کے سسٹم میں کوئی خرابی ہے وہاں ٹینکرز کے ذریعے پانی فراہم کیا جا سکتا ہے، شہر میں واٹر ہائیڈرینٹس کے ذریعے تین کیٹیگریز کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ جنرل پبلک سروس، کمرشل اور مفت ٹینکرز سروس، جنرل پبلک سروس کے ذریعے شہریوں کو نسبتاً کم ریٹس پر پانی فراہم کیا جاتا ہے، کمرشل پر مہنگے داموں اور ڈپٹی کمشنر کوٹے پر مساجد، عوامی ٹینک، اسپتالوں وغیرہ کو مفت پانی کے ٹینکرز فراہم کیے جاتے ہیں، واٹر کارپوریشن نے یہ نظام کنٹریکٹ پر دے رکھا ہے۔ گزشتہ سال جنرل پبلک سروس کے ذریعے 60فیصد ٹینکرز اور کمرشل سروس کے ذریعے 40فیصد ٹینکرز فروخت ہوتے تھے تاہم رواں سال یہ تناسب 50 فیصد ہوگیا ہے۔
محسن رضا نے کہا کہ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ واٹر کارپوریشن نے گزشتہ مالی سال ہائیڈرینٹس سیل سے ریکارڈ توڑ آمدنی حاصل کی ہے، 2022-23 کے مالی سال سرکاری ہائیڈرینٹس سیل سے 99کروڑ 77لاکھ آمدنی ہوئی تھی جبکہ 2023-24 کے مالی سال یہ آمدنی بڑھ کر ایک ارب 23کروڑ 44لاکھ تک پہنچ گئی۔
انہو نے کہا کہ واٹر کارپوریشن کی ایپ کے ذریعے عموماً ایک شہری جنرل پبلک سروس کیٹیگری کے ذریعے ہفتے میں ایک بار پانی کا ٹینکر حاصل کر سکتا ہے، اس دوران اگر اس کو ضروت پڑی تو پھر اسے کمرشل ٹینکر ڈلوانا پڑتا ہے، ان گرمیوں میں شہریوں نے یہ شکایات درج کرائی کہ جب بھی ایپ پر پانی کی درخواست بھیجی گئی تو جواب ملا کہ آج کا کوٹہ پورا ہوگیا ہے، اس بار بیشتر شہریوں نے مہنگے داموں کمرشل ٹینکرز کے ذریعے پانی خریدا ہے، کمرشل ٹینکر سروس کے ریٹس مختلف ہیں اور ٹھیکیدار اپنے من مانے ریٹس وصول کرتا ہے۔ عموماً ایک ہزار گیلن کا کمرشل ٹینکر 4 ہزار روپے تک فروخت ہوتا ہے جبکہ 2000گیلن کا ٹینکر 6سے 8ہزار میں فروخت ہوتا ہے۔
محسن رضا نے کہا کہ واٹر کارپوریشن نے مفت ٹینکرز کی فراہمی کا نظام بھی بنایا ہے تاکہ غریب شہریوں، عوامی ٹنکیوں اور مساجد میں مفت پانی ٹینکرز کے ذریعے پہنچایا جائے، یہ ٹینکرز متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کی صوابدید پر فراہم کیے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر ان سے مستحق افراد بہت کم ہی استفادہ اٹھاتے ہیں اور یہ ٹینکرز بھی کمرشل فروخت کر دیے جاتے ہیں۔
واٹر کارپوریشن کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گزشتہ سال جنرل پبلک سروس کے ذریعے ایک ہزار گیلن کا ٹینکر 1300روپے، 2ہزار گیلن کا ٹینکر 1820روپے، تین ہزار گیلن کا ٹینکر 2340روپے اور پانچ ہزار گیلن کا ٹینکر 3250روپے کا مل جاتا تھا لیکن رواں سال نئے ریٹ کے مطابق ایک ہزار گیلن کا ٹینکر 1560روپے، 2ہزار گیلن کا ٹینکر 2100روپے، تین ہزار گیلن کا ٹینکر 2800روپے اور پانچ ہزار گیلن کا ٹینکر 3900 میں فروخت کیا جا رہا ہے۔
متعلقہ اہلکار نے کہا کہ ٹھیکیدار کمرشل بنیادوں پر جو ٹینکرز فروخت کرتے ہیں، اس میں ان کو کھلی چھوٹ ہے۔ اس میں وہ شہریوں سے سودے بازی کرتے ہیں، عموماً دگنی قیمت پر فروخت ہوتا ہے لیکن اکثر جب پانی کا بحران زیادہ ہوتا ہے تو پھر منہ مانگی قیمت وصول کی جاتی ہے۔
ترجمان واٹر کارپوریشن کے مطابق سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد شہر میں ٹوٹل صرف سات سرکاری ہائیڈرنٹس ہیں جو شہر کے تمام اضلاع کے لیے مختص کیے گئے ہیں، جن میں لانڈھی شیرپاؤ، نیپا، سخی حسن، صفورہ، کرش پلانٹ ون اور کرشن پلانٹ ٹو شامل ہے، تمام سرکاری ہائیڈرنٹس کے ذریعے شہر میں یومیہ 12 سے 15 ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جاتا ہے جبکہ ایک ہائیڈرنٹ سے یومیہ 6 لاکھ گیلن پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ واٹر کارپوریشن کے پاس رجسٹرڈ ٹینکرز کی تعداد 3500 ہے جن پر کیو آر کوڈ اور ٹریکرز نصب کیے گئے ہیں تاکہ شہریوں کو آلودہ پانی سے بچایا جا سکے اور یومیہ 1000 سے 1500 تک ٹرپس ہوتے ہیں۔
واٹر کارپوریشن کی جانب سے شہریوں کو جنرل پبلک سروس کے تحت ایک ہزار گیلن والا ٹینکر 1560، دو ہزار گیلن 2100، تین ہزار گیلن 2800 اور پانچ ہزار گیلن والا ٹینکر 3900 روہے میں فراہم کیا جاتا ہے۔ مندرجہ ذیل ریٹس 20 کلو میٹر کے اندر تک ٹرپس کے لیے ہیں اور زیادہ کلو میٹر ہونے کہ صورت میں ٹرانسپورٹ چارجز وصول کی جائے گی جبکہ کمرشل ایک ہزار گیلن والا ٹینکر 3150 روپے دو ہزار گیلن 5000 سے 5500 روپے، تین ہزار گیلن 7500 روپے میں فراہم کیا جاتا ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ تمام سرکاری ہائیڈرنٹس روزانہ 18 گھنٹے آپریشنل ہوتے ہیں اگر کوئی ہنگامی صورتحال ہوگئی تو ایک دو گھنٹے ہائیڈرنٹس کا دورانیہ بڑھایا جاتا ہے، واٹر کارپوریشن نے شہر میں پانی کی منصفانہ تقسیم کو ممکن بنانے کے لیے ایک انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے ہائیڈرنٹس سیل کے نظام کو مکمل ڈیجیٹلائز کر دیا ہے اور بین الاقوامی سطح کا ہائیڈرنٹس مینجمنٹ سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد شہریوں کو بآسانی کلورین ملا شدہ اور صاف شفاف پانی کے ٹینکرز فراہم کرنا ہے۔ ہائیڈرنٹس مینجمنٹ سینٹر میں 24 گھنٹے سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے شہر میں موجود ساتوں سرکاری ہائیڈرنٹس کے آپریشنز اور ٹینکرز کی نقل و عمل کی سخت نگرانی کی جاتی ہے جبکہ شہر میں چلنے والے تقریباً 3500 ٹینکرز کو کیو آر کوڈ لگا کر انہیں رجسٹرڈ کرکے ان میں جدید ترین ٹریکرز تنصیب کیے جا چکے ہیں جس کے ذریعے واٹر کارپوریشن سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے لمحہ بہ لمحہ ٹینکرز کی نقل و حرکت کی معلومات حاصل کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ صارفین کی سہولت کے لیے کیو آر کوڈ اسکین کرکے ٹینکرز اور ڈرائیور کے متعلق تمام معلومات کا حصول بھی ممکن ہوگیا ہے اور صارفین یہ بھی جان سکیں گے کہ یہ ٹینکر کس ہائیڈرنٹس پر رجسٹرڈ ہے اور اس کے سرکاری نرخ کیا ہے جبکہ ہر ٹینکر کی ترسیل پر صارفین کو ایک ای سلپ دی جاتی ہے جس میں آرڈر سے متعلق تمام معلومات درج ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ، سرکاری ہائیڈرنٹس سے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنر کے معرفت یومیہ 2لاکھ 15 ہزار گیلن پانی ٹینکرز کے ذریعے مساجد، غریب علاقوں میں عوامی ٹنکیوں اور اسپتالوں وغیرہ میں مفت فراہم کیا جاتا ہے جو یومیہ ٹوٹل 15لاکھ گیلن بنتا ہے۔
واٹر کارپوریشن حکام کا کہنا تھا کہ موجودہ وقت شہر کی ٹوٹل پانی کی ضرورت 1200 ملین گیلن یومیہ ہے اس کے برعکس واٹر کارپوریشن کے سسٹم میں موجودہ یومیہ 650 ایم جی ڈی پانی دستیاب ہے جس کی شہر میں منصفانہ تقسیم کی جاتی ہے جبکہ کے فور منصوبہ مکمل ہونے سے شہر میں پانی کی بہتری آئے گی۔
اس کے علاوہ ''کراچی کا پانی کراچی کے عوام تک'' کے تحت کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن نے پاکستان رینجرز کی مدد سے 15 ستمبر 2023 سے لیکر اب تک کی گئی مختلف کارروائیوں میں اب تک مجموعی طور پر مختلف نوعیت کے 243 غیر قانونی ہائیڈرنٹس مسمار کر دیے ہیں اور پانی چوری میں ملوث ملزمان کے خلاف واٹر کارپوریشن کے نئے ایکٹ کے تحت 200 سے زائد مقدمات بھی درج کروائیں گئے ہیں اور واٹر کارپوریشن کی جانب سے زیر زمین واٹر ریگولیشن 2024 نافذ ہونے کے بعد گزشتہ تمام 34 زیر زمین لائسنس کو منسوخ کیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ پانی چور کتنا بھی بااثر یا طاقتور کیوں نہ ہو اسے کسی صورت نہیں بخشا جائے گا کیونکہ پانی پر صرف شہریوں کا حق ہے، اس لیے پانی چوروں کو شہریوں کے حصے کا پانی چوری کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جبکہ پاکستان رینجرز کی مدد سے موجود کثیر تعداد میں غیر قانونی ہائیڈرنٹس مسمار اور غیر قانونی کنکشن منقطع کیے گئے ہیں۔ شہر بھر میں پانی چوروں کے خلاف بلا تفریق مزید کارروائیاں کی جائیں گی اور پانی چور مافیا کے خلاف ہونے والے تاریخ ساز آپریشنز کا دوسرا مرحلہ شہر بھر میں تمام غیر قانونی کنکشنز کے خاتمے تک جاری رہے گا۔
اربن پلانر و سماجی کارکن لیلیٰ رضا نے بتایا کہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت پینے کے پانی کی قلت ہے۔ اس وقت کراچی کے بیشتر علاقوں اورنگی ٹاون، سرجانی ٹاون، نیو کراچی، لیاقت آباد، ناظم آباد، سائٹ، کورنگی، ملیر، لائنز ایریا، کیماڑی، ماڑی پور، لیاری سمیت 60 فیصد سے زائد علاقوں میں پانی کی قلت ہے۔ پانی کی قلت کے باعث شہر میں ٹینکر مافیا کا راج ہے، جو پانی بلیک میں فروخت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں پانی کی تقسیم کے نظام کو جدید نظام سے منسلک کرنے کی ضرورت ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما زاہد منصوری نے بتایا کہ کراچی کے لوگ بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں۔ لوگوں کو مہنگے داموں پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ واٹر بورڈ کو بار بار اس صورت حال سے آگاہ کرنے کے باوجود شہر میں پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے انتظامات نہیں کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس صورت حال سے وزیر اعظم کو آگاہ کریں گے اور پانی کی قلت کے مسئلے کو فورم پر اٹھائیں گے۔
جماعت اسلامی کے رہنما اور یوسی ناظم کلیم الحق عثمانی نے الزام عائد کیا کہ کراچی میں پانی بلیک میں فروخت کیا جا رہا ہے، جسے سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ کراچی کے پانی پر شہریوں کا حق ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے پانی مافیا کے خلاف ہر فورم پر احتجاج کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کا پانی بند کرکے واٹر ٹینکر مافیا کو یہ پانی دیا جا رہا ہے، جو کراچی کے شہریوں کے ساتھ ظلم ہے۔
ناظم آباد کے رہائشی اور تاجر رہنما خواجہ جمال سیٹھی نے بتایا کہ ناظم آباد سمیت مختلف علاقوں میں پانی کی شدید قلت ہے۔ پانی کا ٹینکر 3 سے 4 ہزار روپے اضافی قیمتوں پر مل رہا ہے، اس کے لیے بھی سفارش کرنا پڑ رہی ہے۔