امریکا ایک جہان حیرت
پچاس کی دہائی میں امریکی صدر آئزن ہاور نے امریکا میں شاہراہوں کا جال بچھانے کے منصوبے کا آغاز کیا
امریکا کی ترقی کا راز جہاں پر قانون پر مکمل عملداری اور عوام کوانصاف کی فراہمی پر ہے وہیں پر ایک بڑا کردار امریکی شاہراہوں کا بھی ہے جومتحدہ امریکا کو مشرق و مغرب اور شمال و جنوب سے ملاتی ہیں ۔امریکا کو ترقی یافتہ اور سپر پاوربنانے میں اس کے سیاسی رہنماؤں کا ویژن نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔ جنگ عظیم دوم سے قبل امریکی معیشت ایک بہت بڑے جھٹکے سے دوچار ہوئی اس دور کو امریکا میں مایوسی کا دوریا Great Depression کہا جاتا ہے۔
معاشی جھٹکے سے سنبھلنے میں امریکا کوایک دہائی لگ گئی، جنگ عظیم دوم نے امریکی معیشت کی جڑیں ہلا دیں ۔ قوم کو مایوسی کی دلدل سے نکالنے اور کاروباری ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے پچاس کی دہائی میں امریکی صدر آئزن ہاور نے امریکا میں شاہراہوں کا جال بچھانے کے منصوبے کا آغاز کیا۔ انھوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی ترقی کا بغور جائزہ لیا تو مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی کہ یورپی ممالک اورخاص طور پر جرمنی کی ترقی میں اس کی شاہراہوں نے بنیادی اور کلیدی ادا کیا ہے ۔اس مشاہدے کے بعد انھوں نے امریکا کے طول و عرض کو سڑک کے ذریعے منسلک کرنے کے کام کا آغاز کیا اور آج آپ امریکا کی کسی بھی ریاست کا سفر کریں تو بلا مبالغہ سیکڑوں میل طویل شاہراہیں آپ کو آرام دہ سفر کی سہولت فراہم کرتی ہیں ۔انھی شاہراہوں کے ذریعے کے خام اور تیارمال کی نقل و حمل ہوتی ہے ۔
سڑک کے ذریعے رابطے کی اہمیت زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے دنیا کے تقریباً ہر خطے میں دوررس نگاہ رکھنے والے رہنماؤں نے اس اہمیت کو تسلیم کیا اور اپنے اپنے دور حکومت میں نقل و حمل میں آسانی کے لیے شاہراہیں تعمیر کروائیں۔ برصغیر میں گرینڈ ٹرنک روڈ جسے ہم جی ٹی روڈ کے نام سے جانتے ہیں ، انگریزوں نے برصغیر پر اپنے قبضے کے دوران نئی شاہراہیں بھی تعمیر کرائیں اور ریلوے کے نظام کی بھی بنیاد ڈالی جس سے عوام الناس کوبلا رکاوٹ سفر کے ساتھ سامان کی منتقلی میں آسانی ہوئی۔
کسی بھی ملک کے پہلے سفر کے دوران انسانی فطرت ہے کہ وہ نئی جگہ کو بغور دیکھتا ہے اور اس کا موازنہ اپنے ملک کے دستیاب وسائل سے کرنے کی کوشش کرتا ہے میرا یہ مشاہدہ کہ ہم ایک طویل مدت کے بعد بھی ترقی کی اس معراج تک نہیں پہنچ سکتے جہاں پر آج دنیا کی واحد سپر پاور امریکا پہنچ چکا ہے ۔ حیرت انگیز تعمیرات دیکھنی ہوں، ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا ہو یا معاشی ترقی کے کسی بھی ماڈل کا مشاہدہ کرنا ہو امریکا یاترا کر لیں، آپ کو سب کچھ سمجھ آجائے گا۔
ایک اور بات جو میرے لیے حیران کن تھی کہ امریکا نے دنیا سے ہٹ کر یا اپنے آپ کو منفرد رکھنے کے لیے ایسے اقدامات کر رکھے ہیں جن سے انسانی زندگی پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن امریکا کی انفرادیت سامنے آتی ہے مثال کے طور پر امریکا میں ابھی فاصلے کا پیمانہ میلوں میںہے، پٹرول کو گیس کہا جاتا ہے اور اس کا پیمانہ گیلن ہے، بجلی کے سوئچ الٹے ہیں ، ڈرائیونگ بائیں ہاتھ کی ہے، بجلی کا نظام 120 وولٹ ہے ،فٹ بال کو ساکر جب کہ بیس بال کی کرکٹ سے مشاہبت ہے ۔
میرے لیے امریکا واقعی ایک جہان حیرت سے کم نہیں تھا اور خاص طور پر آپ جب سڑک کے ذریعے کسی ملک کا سفر کرتے ہیں تو اس ملک کی ثقافت اور رہن سہن کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ، شہروں کی زندگی تو تقریباً ہرترقی یافتہ ملک میں ایک جیسی ہوتی ہے لیکن دیہی زندگی کا مشاہدہ بھی بہت ضرروی ہے اور میرے جیسا دیہاتی تو اس میں خاص دلچسپی رکھتا ہے کہ امریکا شہروںکی ترقی یافتہ شکل تو ہمیں نظر آتی ہے لیکن ان کے دیہات بھی ہمارے شہروں سے بڑھ کر ترقی یافتہ ہیں وہاں پر بھی انسانی زندگی کی تمام سہولیات دستیاب ہیں ۔
ان کے وسیع و عریض کھیت و کھلیان آنکھوں کو خیرہ کرتے ہیں حد نگاہ تک سبزے کی بہار نظر آئی ۔ مکئی کی فصل اپنے جوبن پرتھی معلوم ہوا کہ ہر فصل کی انشورنس ہوتی ہے جس سے کسان کے نقصان کا ازالہ ممکن ہو پاتا ہے ہر فصل میںحکومتی اداروں کی مشاورت شامل ہوتی ہے اور ایک مخصوص حد تک کسی بھی فصل کی کاشت کی جاتی ہے تاکہ مارکیٹ میں قیمتوں میں توازن برقراررہے ۔ زیادہ ترفصلیں بارش کی مرہون منت ہیں البتہ جب ضرورت ہو تو مشینی فواروں کے ذریعے فصل پر پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔ فصل کی کاشت اور برداشت کے لیے جدید ترین مشینری دستیاب ہے اور کئی سو ایکڑ کاکاشتکار کم انسانی وسائل کے باوجودان مشینوں کے استعمال سے با آسانی اپنی فصل کو سمیٹ لیتا ہے۔
سڑک کے علاوہ امریکا کے لیے فضائی سفر کا موقع بھی ملا اس فضائی سفر میں اپنی پی آئی اے بہت شدت سے یاد آئی کہ پاکستان میں اندرون ملک مختصر سفر میں بھی کھانے کو بہت کچھ مل جاتا ہے ۔ ٹورنٹو سے کیلی فورنیا کے شہرسیکرامنٹوکے لیے چھ گھنٹے کی پرواز میں مجال ہے کہ مفت پانی بھی فراہم کیا گیا ہو۔ البتہ ڈالر دے کر ہر خرافات خریدی جا سکتی تھیں جن سے گریز ہی بہتر تھا، صبر شکر کر کے ائر پورٹ پر لینڈ کرتے ہی میرے اسکول کے دوست راسخ جمیل موجود تھے جنھیں اس طرز معاشرت میں رہتے ہوئے ایک طویل عرصہ بیت گیا ہے اور وہ اس سے بخوبی آشنا ہیں،انھیں یہ علم تھا کہ ان کا دوست بھوکا پیاسا ہوگا۔
انھوں نے گھر پہنچتے ہی اپنے ہاتھوںسے پکایا ہوا پاکستانی ذائقے دار کھانا کھلایا جسے مسافر نے خوش بختی تصور کرتے ہوئے سیر ہو کھایا ۔ سیکرامنٹو سے لاس اینجلس کا فاصلہ سات گھنٹے کا ہے ۔ اگلے صبح ناشتے کے بعد سفر کا دوبارہ آغاز کیا تو امریکا کی مشہور ہائی وے ون پر سفر کا آغاز کیا ایک طرف بلند وبالاسر سبز پہاڑ ہیں تو دوسری طرف شوریدہ لہروں سے بھر پور سمندر ہے جن کے درمیان سے یہ خوبصورت سڑک گزرتی ہے ۔ قدرت کے حسین نظارے دنیا بھر میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں بس انسان کو ان تک پہنچنے کی جستجو میں رہناچاہیے ۔
کیلی فورنیا امریکا کی تیسری بڑی ریاست ہے، اس کاشمار امریکا کے گرم موسم والی ریاستوں میں ہوتا ہے۔ یہاں پر درجہ حرارت پاکستانی سے ملتا جلتا تھاکئی گھنٹے کے سفر میں سڑک کے اطراف مختلف پھلوں کے باغات تھے راسخ نے بتایا کہ ذائقہ دار پھلوں کی فراہمی کے علاوہ کیلی فورنیا کی زرخیززمینیں دنیا کی بہترین فصلوں کی پیداوار کے لیے مشہور ہیں ۔ راستے میںجا بجا قیام کرنے کی وجہ سے سفر طوالت اختیار کر گیا تو رات قیام کرنے کے لیے ہوٹل کی تلاش شروع کی ۔ چھٹیوں کی وجہ سے زیادہ تر ہوٹلوں میں کمرے دستیاب نہیں تھے تاہم تھوڑی تلاش کے بعدایک ہوٹل مل گیا ۔ استقبالیہ پر موجود خاتون نے میرے پاسپورٹ کو غور سے دیکھنے کے بعد سر ہلایا اور کمرے کی چابی ہمارے حوالے کر دی۔
(جاری ہے)