الیکشن ایکٹ ترامیم پارلیمان سے منظور
تصور یہی ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد ہر صورت میں یقینی بنایا جائے
سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد الیکشن ایکٹ میں ترامیم پارلیمان سے منظور ہو گئی ہیں۔ یہ ترامیم صدر مملکت کے پاس چلی جائیں گی۔ پیپلز پارٹی نے جس طرح ایوانوں میں ان ترامیم کے حق میں تقاریر کی ہیں۔ اس لیے اس میں کوئی ابہام نہیں کہ صدر مملکت ان ترامیم پر بآسانی دستخط کر دیں گے۔ اس لیے اب سوال یہ ہے کہ ان ترامیم کے منظور ہونے کے بعد صورت حال کیا ہو گی؟ لوگ یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ کیا پارلیمان کسی قانون سازی سے کسی عدالتی فیصلے کو غیر موثر کر سکتی ہے؟ کیا پارلیمان توہین عدالت کر رہی ہے؟ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ عدلیہ نے پارلیمان کی قانون سازی کو ختم کیا ہے۔
اور ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ پارلیمان کی قانون سازی پر عدلیہ نے مہر تصدیق ثبت کی ہے؟ اب کیا حالیہ قانون سازی پر عدلیہ سر خم تسلیم کرے گی یا اس قانون سازی کو ختم کرے گی؟ ایک اور سوال بھی پوچھا جا رہا ہے،مخصوص نشستوں کا فیصلہ آٹھ ججز کا فیصلہ ہے۔ وہ اپنے فیصلے پر عملدرآمد کرانا چاہیں گے کیونکہ اگر وہ عملدرآمد کروانے میں ناکام ہو جائیں گے تو ان کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچے گا۔ لیکن قانون ختم کرنے کے لیے فل کورٹ بیٹھے گا۔ پھر دیکھنا ہوگا کہ کون کہاں کھڑا ہے۔ پھر پارلیمان یہ قانون دوبارہ بھی پاس کر سکتی ہے، کتنی بار ختم کیا جائے گا۔ ایسے میں ایک محاذ آرائی شروع ہو جائے گی۔ عدلیہ کیا اس محاذ آرائی کی متحمل ہو سکتی ہے؟ کیونکہ پارلیمان کے لیے محاذ آرائی مشکل نہیں ہے۔
پہلے اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں کہ کیا پارلیمان عدالتی فیصلوں میں مداخلت کر سکتی ہے۔ کیا پارلیمان عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد قانون سازی کے ذریعے غیر موثر کر سکتی ہے۔میں سمجھتا ہوں جب قانون سازی کا اختیار پارلیمان کے پاس ہے تو پھر پارلیمان پر کوئی قدغن نہیں کہ وہ عدالتی فیصلوں کے حوالے سے قانون سازی نہیں کر سکتی ہے۔ پارلیمان کو قانون سازی کے حوالے سے کھلی اجازت ہے۔ اب سوال ہے کہ پھر پارلیمان کے بنائے ہوئے قوانین کو عدلیہ منسوخ کیسے کر سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں نہیں کر سکتی اور جب بھی ایسا کرتی ہے تو یہ جیوڈیشل ایکٹوزم ہے۔ عدلیہ کے پاس صرف یہ دیکھنے کا اختیار ہے کہ کیا کوئی قانون آئین کی کسی شق سے متصادم تو نہیں۔ لیکن اس محدود اختیار سے تجاوز بھی دیکھا گیا ہے۔ قانون بنانا صرف اور صرف پارلیمان کا اختیارہے۔
اب جہاں تک اس قانونی نقطہ کا تعلق ہے کہ کیا قانون سازی کے ذریعے عدالتی فیصلوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کیا جا سکتا ہے۔ اگر عدلیہ نے ملکی قوانین کے تحت لوگوں کو پھانسی کی سزائیں سنائی ہوئی ہیں۔ اور پارلیمان قانون بناتی ہے کہ ملک میں پھانسی کا قانون ختم کیا جاتا ہے تو پھر جتنے لوگوں کو عدلیہ نے پھانسی کی سزائیں سنائی ہونگی وہ ختم ہو جائیں گی۔ اسی طرح نواز شریف جہانگیر ترین کی تا حیات نا اہلی کے معاملہ کو ہی دیکھ لیں۔ عدلیہ نے اپنے فیصلوں سے ان کو تاحیات نا اہل قرار دیا ہوا تھا۔ لیکن پارلیمان نے قانون سازی کر کے تمام نا اہلیوں کی مدت پانچ سال کر دی۔ جس کے بعد تاحیات نااہلیوں کے عدالتی فیصلے ختم ہو گئے۔ اس قانون سازی کو سپریم کورٹ نے تسلیم بھی کیا۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر حکومت عدالت کے کسی فیصلے پر عملدرآمد روکے توحکومت کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے۔
وزیر اعظم کو بھی توہین عدالت پر گھر بھیجا جا سکتا ہے۔ تصور یہی ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد ہر صورت میں یقینی بنایا جائے۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگر پارلیمان عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد روک دے تو کیا عدالت پوری پارلیمان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کر سکتی ہے۔ کیا پارلیمان کی کارروائی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے۔ کچھ دوستوں کی رائے کہ اعلیٰ عدلیہ پارلیمان کی کارروائی میں مداخلت کر سکتی ہے۔ وہ اس کی مثال قاسم سوری کی رولنگ سے دیتے ہیں۔ قاسم سوری نے بھی رولنگ قومی اسمبلی میں دی تھی۔ لیکن عدلیہ نے اس رولنگ کو ختم کر دیا تو اس طرح عدلیہ پارلیمان کے فیصلوں کو ختم کر سکتی ہے۔ لیکن دوسری طرف بھی دلیل ہے کہ قاسم سوری کی رولنگ ان کی انفرادی رولنگ تھی۔ اس کے پیچھے پارلیمان کی طاقت نہیں تھی۔ اگر قاسم سوری کی رولنگ کے پیچھے پارلیمان کی طاقت ہوتی تو عدلیہ اس کو ختم نہیں کر سکتی تھی۔ مطلب اگر وہ رولنگ ارکان پارلیمان کے ووٹ سے منظور ہوئی ہوتی توکہا جا سکتا تھا کہ اس کے پیچھے پارلیمان کی طاقت ہے۔
اس کی ایک مثال یہ بھی دی جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ نے 14مئی کو پنجاب میں انتخابات کا حکم دیا۔ اب آج تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ 14مئی کو پنجاب میں انتخابات نہ کروا کر کس نے توہین عدالت کی۔ کیوں عدالت کسی پر بھی توہین عدالت نہیں لگا سکی۔ اگر دیکھیں تو 14مئی کو پنجاب میں انتخابات کا راستہ پارلیمان نے روکا۔ جب انتخابات کے لیے فنانس بل روک لیا۔ حکومت نے پیسے منظور کر کے پارلیمان میں منظوری کے لیے بھیجے۔ لیکن پارلیمان نے روک لیے۔ اب عدلیہ چونکہ پوری پارلیمان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کر سکتی تھی۔ اس لیے بند گلی میں پہنچ گئی۔ ایک طرف عدالتی فیصلہ تھا دوسری طرف پارلیمان کی طاقت تھی، ہم نے دیکھا عدلیہ نے پارلیمان کے حق کو تسلیم کیا۔ پارلیمان نے اپنی طاقت سے عدالتی فیصلہ غیر موثر کر دیا۔
ایک بات اہم ہے کہ عدلیہ کی جانب سے بھی پارلیمان کو جب بھی عدالتی محاذ پر شکست دی گئی ہے۔ پارلیمان کے بنائے قوانین منسوخ کیے گئے ہیں۔ تب اسٹبلشمنٹ ان عدالتی فیصلوں کے ساتھ تھی۔ لیکن یہ بھی اہم ہے کہ اگر جیوڈیشل ایکٹوزم کو اسٹبلشمنٹ کی حمائت حاصل نہ ہو تو پارلیمان اس کو آسانی سے شکست دے سکتی ہے۔ آج شاید عدلیہ کے پاس اسٹبلشمنٹ کی طاقت نہیں ہے۔ اب پارلیمان کی بالادستی کا وقت ہے۔ کیا عدلیہ پارلیمان کے ساتھ محاذ آرائی کی متحمل ہو سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں نہیں۔پارلیمان کے پاس زیادہ طاقت ہے۔ عدلیہ کے پاس محدود طاقت ہے جب پارلیمان سے محاذ آرائی کی بات ہوگی۔ کیونکہ پارلیمان پر توہین عدالت نہیں لگ سکتی۔ پارلیمان کے اندر تقاریر پر بھی توہین عدالت نہیں لگ سکتی۔ پارلیمان کی کارروائی پر بھی توہین عدالت نہیں لگ سکتی۔