معیشت کی راہیں متعین
بلوچستان میں معدنیات بالخصوص گریفائٹ جیسی قیمتی دھات وافر مقدار میں پائی جاتی ہے
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں اصلاحات اور ڈیجیٹائزیشن کے لیے لائحہ عمل پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے، آئی ٹی برآمدات میں اضافے کے لیے ترجیحی بنیادوں پرکام کر رہے ہیں۔ دوسری جانب گورنر اسٹیٹ بینک نے قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ کو آگاہ کیا ہے کہ بجٹ اقدامات اور مشرق وسطیٰ کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے اگلے چند ماہ میں مہنگائی میں اضافہ ہوسکتا ہے تاہم انھوں نے بتایا کہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے بحران پر قابو پالیا گیاہے۔
پاکستان کے معاشی منظر نامے کو آگے لے کر جانا اجتماعی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔ وسط ایشیاء جنوبی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور خلیجی خطے کے ساتھ اقتصادی تعلقات پاکستان کی معیشت کو فروغ دینے کے لیے اہم ہیں۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کی کاوشوں کے باعث مالی سال2024۔2023 کے دوران ملکی برآمدات میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پاکستان ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمارکے مطابق پاکستان کی تجارتی اشیاء کی برآمدات 2024۔2023 میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 10.54 فیصد بڑھ کر 30.64 بلین ڈالرتک جا پہنچی ہیں۔
ترقی کی اس سطح پر پہنچنے سے پاکستان کا زرعی شعبہ رواں مالی سال میں 10 ارب ڈالر کا ہدف حاصل کر سکتا ہے، پاکستانی معیشت کو مضبوط بنانے کے اس سفر میں آئی ٹی کا شعبہ بھی پیش پیش رہا،آئی ٹی سروسز کی برآمدات سے 2.925 بلین ڈالر زر سے زائد مبادلہ کمایا گیا۔ بلاشبہ وزیراعظم شہباز شریف کا ویژن اور آیندہ کا لائحہ عمل آئی ٹی کے شعبے میں ترقی کا باعث بنے گا اور آئی ٹی برآمدات میں اضافے کے اقدامات سے معاشی خوشحالی رہیں کھل جائیں گی۔
دوسری جانب معیشت سے جڑے ہوئے چند اہم دوسرے مسائل جن میں مہنگائی، بے روزگاری،کاروبار میں مندی اور غربت جیسے سنگین مسائل شامل ہیں جس کی وجہ سے عوام میں شدید اضطراب اور بے یقینی پائی جاتی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت دوسرے مالیاتی اداروں سے قرض لے کر گزارا کرنا پڑ رہا ہے، جس کی وجہ سے عوام پر اضافی بوجھ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، قرض اتارنے کے لیے مزید قرض لینا پڑرہا ہے۔ آئے دن بجلی،گیس اور تیل کے نرخ بڑھانے پڑتے ہیں جس نے عام آدمی کا جینا دوبھرکردیا ہے۔
آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکال کے رکھ دی ہیں۔ پاکستان میں بڑھتی مہنگائی نے غربت کا دائرہ وسیع کردیا ہے اور 74 فیصد لوگ اس دائرے کے اندر آگئے ہیں، جن کے اخراجات ان کی آمدنی سے کم ہیں۔ پاکستان جو پہلے ہی غریب ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ حالیہ بڑھتی مہنگائی بالخصوص بجلی،گیس کی غیر متوقع اضافی قیمتوں نے عوام کے ہوش اڑا دیے ہیں اور یوٹیلٹی بلزکی وجہ سے اکثر عوام کے اخراجات ان کی آمدنی سے کم ہوگئے ہیں اور ان کی فکر یہی ہے کہ اب کیسے گزارا ہوگا۔
معیشت کی بحالی نئی حکومت کی پہلی ترجیح ہے جس میں کامیابی ایک اجتماعی سوچ اور حکمت عملی سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان لامحدود وسائل کا حامل ملک ہے صرف درست ترجیحات کا تعین اور پالیسیز کا تسلسل ہی ہمیں منزل تک لے جاسکتا ہے، بہرحال اشرافیہ کو پہل کرنی ہے، اگر عوام سے قربانی مانگی ہے تو اعتماد کی فضا سب سے ضروری ہے، اگر حکومت کی حکمت عملی درست سمت پر چلتی نظر آئے تو عوام اعتماد بھی کرتے ہیں اور قربانی بھی دیتے ہیں۔ قلیل مدتی فیصلے کرنے کی بجائے طویل المدتی فیصلے اور حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ بیرونی ذرائع اور امداد پر انحصار کم کر کے برآمدات بڑھانا ہوںگی، تاکہ تجارتی خسارہ کم سے کم ہو اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ سکیں۔ عوام کو کسی بھی قسم کا ریلیف تبھی مل سکتا ہے جب معیشت مضبوط ہو، ورنہ قرض لے کر سبسڈی دینے سے مسائل کم نہیں ہونگے بلکہ مزید بڑھتے ہیں۔
پاکستان میں زراعت کے شعبے میں جدید ترین سہولتیں استعمال کر کے خوراک کی عالمی منڈیوں تک رسائی، ڈیری اور گوشت کی صنعتوں میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقعے موجود ہیں۔ اسی طرح معدنیات کے شعبے میں پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے تمام قدرتی وسائل بھی موجود ہیں۔ صرف محنت کی ضرورت ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو سہولتیں اور آسانیاں فراہم کرکے بہت تیز رفتاری سے غیر ملکی سرمایہ کاری پاکستان میں بڑھائی جاسکتی ہے۔
بلوچستان میں معدنیات بالخصوص گریفائٹ جیسی قیمتی دھات وافر مقدار میں پائی جاتی ہے، جس سے ہم استفادہ کر کے بھاری زر مبادلہ کما سکتے ہیں۔ شعبہ زراعت اور فشریز میں بہت بہتری کی گنجائش ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے معدنیات اور زرعی وسائل کو ترقی دینے کے لیے پالیسی سطح پر منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے، اسی طرح اسمال میڈیم انٹرپرائز کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ملک بھر میں چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کا جال پھیلانے سے ملک میں روزگار اور ترقی کے مواقعے پیدا کیے جاسکتے ہیں۔
اس مد میں قوانین اور ضوابط کو بھی کاروبار دوست بنانا ہوگا۔ معیشت کو واپس ٹریک پر لانے کے لیے متبادل توانائی کے منصوبے بنانا ہوں گے اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ فاضل پانی کو صاف کر کے صنعتوں کو فراہم کرنے کی جدید ٹیکنالوجی پر کام کرنا ہوگا اور ہائیڈروجن اکنامی کی جانب پیش قدمی شروع کرنی ہوگی۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ روایتی طور پر پاکستان کی برآمدات کا زیادہ تر انحصار اسی شعبے پر ہے۔
یہ شعبہ ملک میں روزگار کی فراہمی کا بھی سب سے بڑا ذریعہ ہے، جس سے نہ صرف لاکھوں مزدوروں کا روزگار وابستہ ہے بلکہ ٹیکسٹائل ویلیو چین میں شامل دیگر کئی سیکٹرز میں کاروباری سرگرمیوں کا انحصار بھی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے فروغ پر منحصر ہے، تاہم آئی ایم ایف پروگرام کے مالیاتی اہداف پورے کرنے کے لیے بجلی اورگیس کی قیمتوں میں اضافے کے باعث یہ شعبہ پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے، چنانچہ بہت سی ٹیکسٹائل ملز پہلے ہی جزوی طور پر بند ہوچکی ہیں اور جہاں کچھ نہ کچھ کام ہو رہا ہے وہاں بھی حالات سازگار نہیں۔ بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں کمی اور دیگر مسائل کے باعث صنعتی عمل پہلے ہی زوال پذیر ہے، ایسے میں یہ ضروری ہے کہ برآمدات بڑھانے کے لیے ٹیکسٹائل انڈسٹری پر خصوصی توجہ دی جائے۔
اس سے نہ صرف پاکستان کی معاشی مشکلات میں کمی آئے گی بلکہ ملک میں روزگار کی فراہمی میں بھی اضافہ ہو گا۔ ٹیکسٹائل کے شعبے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے ذریعے برآمدی مراعات کی فراہمی اور پاکستانی برآمد کنندگان کے لیے مارکیٹ تک رسائی کو بہتر بنانے سے برآمدی حجم کو بڑھانے اور تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ دوسری جانب عالمی اقتصادی غیر یقینی صورتحال کے درمیان پاکستان کی مارکیٹ کی لچک اور ترقی کی صلاحیت نے منافع بخش مواقعے کی تلاش میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کیا ہے، حکومت کی حالیہ پالیسیوں کا مقصد مارکیٹ کی شفافیت کو بڑھوا دینا ہے۔
سی پیک منصوبہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی سب سے بڑی مثال ہے کہ چین نے اربوں ڈالر براہ راست پاکستان میں خرچ کر کے پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر کا آغاز کیا۔ اس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان کو بہت زیادہ فوائد حاصل ہوں گے جب کہ چین کی سرمایہ کاری پر اسے مناسب فوائد حاصل ہوتے رہیں گے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے جب سے عسکری قیادت سنبھالی ہے، انھوں نے پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری لانے میں بھرپورکردار ادا کیا ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے کے اقدامات بہت ضروری ہیں۔ پاکستان معدنی، قدرتی وسائل اور دنیا کی تمام نعمتوں سے مالا مال ملک ہے اور یہاں دنیا کے ہر شعبے میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقعے موجود ہیں اور پاکستان میں سرمایہ کاری پر مناسب ترین منافع بھی ملتا ہے۔
اسی لیے دنیا کے بڑے برانڈ کئی دہائیوں سے پاکستان میں مسلسل اپنے نیٹ ورک میں اضافہ کر کے بھاری منافع کما رہے ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان میں لاکھوں لوگوں کو روزگار بھی ملا ہوا ہے اور حکومت کو بھاری ٹیکس بھی ملتا ہے۔ درحقیقت مالیاتی بحالی اور ایک جامع ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کا نفاذ جیسے اہم پہلوؤں کو احتیاط سے حل کرتے ہوئے، آگے بڑھنے کا راستہ ایک زیادہ منظم، منصفانہ اور مضبوط صنعت کاری کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اقتصادی استحکام اور سالمیت کے قومی مقاصد سے ہم آہنگ ہو۔ اسٹیک ہولڈرز اور بین الاقوامی شراکت داروں کے درمیان تعاون اور اس کے نتیجے میں، معیشت کو تعمیل اور استحکام کی طرف لے جانے میں سب سے اہم ہے۔
ان کثیر جہتی چیلنجوں کے پیش نظر، پاکستان ایک نازک موڑ پرکھڑا ہے، جس کا مقابلہ کرنے کے لیے معاشی استحکام کی بحالی، محصولات کے سلسلے کو تقویت دینے اور مضبوط مالیاتی پالیسیوں کے قیام کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ یہ اقدامات ملک کی اقتصادی بنیادوں کو مضبوط کرنے اور اس کے شہریوں کے لیے پائیدار ترقی اور خوشحالی کی راہیں متعین کرنے میں اہم ہیں۔