کھیل کود فٹ بال کا عشق فائدے کا سودا

اِس کھیل کے شوق نے ہمیں بھی اِس قابل کردیا ہے کہ ہم بھی پیش گوئیوں کے تڑکے لگا سکیں۔


Iqbal Khursheed July 04, 2014
اِس کھیل کی محبت نے اِس قابل تو بنادیا ہے کہ عالمی میلے میں ہونے والے کوارٹر فائنلز کے حوالے سے کچھ پیش گوئیاں کرسکوں۔ فوٹو: ایکسپریس

LOS ANGELES:

یار بیلی عشق کو گھاٹے کا سودا کہتے ہیں۔ اور ٹھیک ہی کہتے ہیں۔


عاشق بدحال۔ سر میں خاک۔ گریباں چاک۔ سسکنا۔ تڑپنا۔ کرب ہی کرب۔ اور پھر رقیب۔ بہ قول مومن:




اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل
میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا



البتہ کھیلوں کے عشق کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ رقیب کا خطرہ نہیں رہتا۔ جس کھیل کے آپ دیوانے، جس ٹیم کے لیے آپ دعا گو، اُس کے عشق میں جتنے لوگ مبتلا، اتنے ہی آپ خوش۔ جشن اور گریہ؛ دونوں کا ساتھی مل گیا۔ الغرض مشترکہ محبوب یہاں مسئلہ نہیں۔ رقابت باعث مسرت ہے۔ بس سمجھیں، زلیخا والا معاملہ ہے۔ غالب نے کیا خوب کہا ہے:




سب رقیبوں سے ہوں ناخوش، مگر زنان مصر سے
ہے زلیخا خوش کہ محو ماہ کنعاں ہوگئیں



ہم بھی فٹ بال کے عاشق ہیں، اور اپنے اردگرد اِس کے جتنے دیوانے دیکھتے ہیں، اتنے ہی پھول کر کپّا ہوجاتے ہیں۔
آج کل تو دیوانگی عروج پر ہے۔ ورلڈ کپ جو چل رہا ہے۔ کوارٹر فائنلز شروع ہونے کو ہیں۔ دنیا کی آٹھ بڑی ٹیمیں ایک دوسرے کے مدمقابل۔ چار مقابلے، جن کے نتیجے میں چار ٹیموں کے کھلاڑی گھر جائیں گے۔ چار ممالک جشن منائیں گے۔


اس ورلڈ کپ سے متعلق کیا کہیں۔ ساری دنیا کہہ رہی ہے؛ اس جیسا شان دار مقابلہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔


دل چسپی عروج پر ہے۔ پوری دنیا کی نظریں ٹی وی اسکرین پر ٹکی ہیں۔ پیش گوئیوں کا سلسلہ جاری۔ کہیں ہاتھی ہے، کہیں بندر۔ کوئی مرغی کی مدد لے رہا ہے، تو کوئی کچھوے کی۔
پہلے راؤنڈ میں خاصے اپ سیٹ دیکھنے میں آئے۔ انگلینڈ رخصت ہوا۔ اٹلی والے منہ لٹکائے لوٹ گئے۔ اسپین کے حصے میں شرمندگی آئی۔ پرتگالیوں کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ کچھ ٹیموں نے حیران کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس فہرست میں کوسٹوریکا اور کولمبیا سرفہرست۔


ابتدا میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ اس بار لاطینی امریکی ٹیمیں چھائی رہیں گی۔ یورپی ممالک کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ البتہ ایسا ہوا نہیں۔ نیدرلینڈز کے سیماب صفت کھلاڑیوں اور جرمنی اور فرانس کی پختہ منصوبہ بندی نے اِس اندازے کو غلط ثابت کیا۔ البتہ ابھی حتمی رائے دینا مشکل ہے۔ مقابلے جاری ہیں دوستو۔


ہمارے ہاں مستقبل بینوں کی بھرمار ہے۔ جسے دیکھو ملکی اور بین الاقوامی حالات سے متعلق پیش گوئیاں جَڑ رہا ہے: حکومت گرنے والی ہے... رواں برس دہشت گردی میں اضافہ ہوگا... خلائی مخلوق حملہ کر دے گی... دشمن شکست کی جانب بڑھا رہا ہے... ڈالر کا زوال ہونے کو ہے...


ہمارے نام نہاد دانش وَروں کی یہ مشق فقط اکتاہٹ ہی بڑھاتی ہے۔ ہم تو اتنا اُوب چکے ہیں کہ ان شاطر مستقبل بینوں کو، جن کے پیش نظر فقط اپنا مفاد ہے، سولی پر لٹکانے کا جی چاہتا ہے۔ مگر خود ایک مرحلے پر کم زور پڑتے ہیں۔ جب بات فٹ بال کی ہو، تو خود بھی پیش گوئیوں کے سحر میں پھنس جاتے ہیں۔ سوچتے ہیں، وہ عشق، جو 90ء کے ورلڈ کپ سے شروع ہوا، ہمیں اتنی رعایت تو دیتا ہے کہ اپنی تحریروں میں پیش گوئیوں کے تڑکے لگا سکیں۔ تو چلیے، پیش گوئیوں کی سمت:


کولمبیا اور برازیل، دونوں لاطینی امریکی ٹیمیں۔ دونوں بھرپور فارم میں۔ البتہ کولمبیا زیادہ پُرقوت معلوم ہوتی ہے۔ اگر وہ جم کر کھیلی، تو برازیل کا سفر تمام ہوسکتا ہے۔ اگر حواس کھو بیٹھی، تو نیمار کے مداح جشن منائیں گے۔ جرمنی اور فرانس کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔ ہمارا دل اور دماغ؛ دونوں جرمنی کے ساتھ۔ مگر فرانسیسی ہمیں چونکا سکتے ہیں۔ ارجنٹینا ٹکرائے گی بیلجیم سے۔ بیلجیم بلاشبہہ بہت اچھا کھیل رہی ہے۔ حیران کرنے کی قوت رکھتی ہے، مگر ارجنٹینا شاید اُن پر قابو پالے۔ (ارجنٹینا سے متعلق پیش گوئی دراصل ہماری خواہشات کی عکاس ہے کہ ہم میسی کے مداح ہیں، اُسی کے ہاتھ میں ورلڈ کپ ٹرافی دیکھنا چاہتے ہیں) نیدرلینڈز کا مقابلہ کوسٹوریکا سے ہوگا۔ مقابلہ اچھا ہوگا، مگر فتح نیدرلینڈز کا مقدر بنے گی۔ رابن، پرسی اور شینائڈر دیوانے ہوئے ہوئے ہیں صاحب۔ اُنھیں قابو کرنا مشکل ہوگا۔


صاحبو، یہ حالیہ ورلڈ کپ کا، جو ابھی جاری ہے، مختصر سا تجزیہ تھا۔ اور تجزیہ کیا تھا، اپنے عشق کا اظہار تھا۔ وہ عشق، جس میں نقصان کا اندیشہ کم ہے کہ جس ٹیم کے ہم حمایتی، وہ ہار بھی گئی، تو غم نہیں کہ چار برس بعد پھر فٹ بال ورلڈ کپ کا میلا جمے گا۔ پھر دیوانگی عروج پر ہوگی۔ پھر پیش گوئیوں کا سلسلہ چلے نکلے گا۔


اِس عشق میں فائدہ زیادہ اور نقصان کم۔ اور جو تھوڑا بہت ہے، اس کا ہمیں غم نہیں۔ بہ قول عارف عزیز:




تمھاری یاد میں نقصان تو ہے!
مگر نقصان میں کچھ بھی نہیں ہے



فی الحال اتنا ہی۔ کوارٹر فائنلز کے بعد پھر ملاقات ہوگئی۔ تب تک کے لیے، فٹ بال زندہ باد!!


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔