دہشت گردی کا خاتمہ فوج اور عوام پرعزم

پاکستان کے ریاستی اداروں کے لیے سب سے بڑا چیلنج دہشت گردوں اور پاکستان میں موجود اس کے سہولت کاروں سے نمٹنا ہے۔


Editorial August 10, 2024
پاکستان کے ریاستی اداروں کے لیے سب سے بڑا چیلنج دہشت گردوں اور پاکستان میں موجود اس کے سہولت کاروں سے نمٹنا ہے۔ فوٹو: فائل

نیشنل علماء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ جو شریعت اور آئین کو نہیں مانتے، ہم انھیں پاکستانی نہیں مانتے۔ علماء کو چاہیے کہ وہ اعتدال پسندی کو معاشرے میں واپس لائیں اور فساد فی الارض کی نفی کریں۔ 40 سال سے زیادہ عرصے تک لاکھوں افغانوں کی مہمان نوازی کی ہے، ہم انھیں سمجھا رہے ہیں کہ فتنہ خوارج کی خاطر اپنے ہمسایہ، برادر اسلامی ملک اور دیرینہ دوست سے مخالفت نہ کریں۔

افواج پاکستان کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر بار بار برملا کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ دہشت گردوں کو پاک سرزمین پر دوبارہ قدم جمانے کا موقع ہرگز نہیں دیا جائے گا۔ اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پاک فوج کے بہادر سپوتوں نے ہر موقعے پر جرات کے ساتھ دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنایا ہے۔ ریاست بلاشبہ پوری طاقت سے دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے۔

ہمیں سوچنا ہوگا کہ کمی کہاں پائی جاتی ہے؟ کیوں ہم اتنی قربانیوں کے باوجود اب تک اس لعنت سے چھٹکارا نہیں پاسکے، کیونکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے میں ناکام ہوئی ہے، سب سے پیچیدہ اور مشکل مرحلہ پاک افغان سرحد پر عالمی معیار کے مطابق نظم و ضبط قائم کرنا ہے، لیکن گزشتہ چالیس برس میں آر پار آنے والے اس نظم و ضبط کو ماننے کو تیار نہیں ہیں، یہ وہ جھول ہے جو پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بڑا کردار ادا کرتا ہے۔

پاکستان تو سرحدی نظام کو موثر بنانے کے لیے پرعزم نظر آتا ہے لیکن کابل میں اس عزم کی کمی واضح طور پر دیکھنے میں آرہی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ لاہور،کراچی، پشاور یا کوئٹہ اور افغانستان کے درمیان سہولت کاری کی شکل میں ایسا کون سا پل موجود ہے جو دہشت گردوں کے رابطوں اور ان کی سرگرمیوں کو مکمل طور پر ختم نہیں ہونے دے رہا؟ پاکستانی ریاستی اداروں کو سہولت کاری اور رابطہ کاری کے نیٹ ورک کا یہ پل ہرصورت توڑنا ہوگا کیونکہ کچھ افراد آج بھی دہشت گردوں کے معاون بنے ہوئے ہیں۔

اس کے لیے پاکستان سے ملحقہ افغان سرحدی علاقوں میں بھرپور فوجی آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کا مکمل طور پر خاتمہ ناگزیر ہے، جو پاک فوج بھرپور طور پرکررہی ہے۔ پاک افغان سرحد پر تعینات پاک فوج کے افسران اور جوان جس بہادری اور جرات کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اتنے دشوار گزار اور مشکل علاقے میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ایک مشکل کام ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر دہشت گردوں کو سرحد پار سے مدد مل رہی ہو، توکام مزید مشکل ہوجاتا ہے لیکن پاک فوج کے جوانوں نے ثابت کیا ہے کہ ان کی تربیت اعلیٰ معیارکی ہے اور ان کے حوصلے چٹان کی مانند ہیں اور ان کے جذبے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔

پاکستان کے ریاستی اداروں کے لیے سب سے بڑا چیلنج دہشت گردوں اور پاکستان میں موجود اس کے سہولت کاروں سے نمٹنا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ دہشت گرد بغیرکسی سہولت کار اور ہینڈلرکی مدد کے پاکستانی شہروں میں واردات نہیں کرسکتے۔ پاکستان شاید اس وقت دہشت گردوں سے زیادہ ان کے سہولت کاروں کی وجہ سے خطرات میں گھرا ہوا ہے، خود کش حملہ آور تو محض ایک ہتھیار ہے ان خود کش حملہ آوروں کا تعلق بھی انتہائی غریب اور مفلس خاندانوں سے ہوتا ہے یا ایسے نوجوان خود کش حملہ آور بنتے ہیں جن کی برین واشنگ کی جاتی ہے۔

اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ خود کش حملہ آور دہشت گرد خود کچھ بھی نہیں ہیں، انھیں خود بھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا کررہے ہیں اور اپنے اس گھناؤنے عمل کی وجہ سے کتنے بے گناہ انسانوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔ اصل دہشت گرد تو وہ ہیں جو ان خود کش حملہ آوروں اور دہشت گردوں کو رہنے سونے اور آرام کرنے کے لیے رہائش فراہم کرتے ہیں انھیں تربیت دینے کے لیے جگہ دیتے ہیں، ان کے کھانے پینے کے اخراجات برداشت کرتے ہیں اور انھیں اپنے ٹارگٹ تک پہنچانے کے لیے ٹرانسپورٹ یا کوئی کیریئر فراہم کرتے ہیں، یہ ایک پورا نیٹ ورک ہے اور اس نیٹ ورک کو چلانے کے لیے بے پناہ وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔

پاکستان میں دہشت گردوں کے حوالے سے گومگو پر مبنی بیانیہ گھڑا گیا ہے۔ اس بیانیے کو آگے بڑھانے میں محضوص قسم کے نظریات کا سہارا لے کر دہشت گردوں کو برا بھی کہا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر، مگر جیسے الفاظ لگا کر معاملے کو الجھانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے، افغانستان میں طالبان کا اقتدار قائم ہوا تو پاکستان میں ایسا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ جیسے افغانستان میں عوامی انقلاب آیا ہے۔

طالبان کو گلوری فائی کر کے ان کی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی گئی اور عوام اور ملک کے کاروباری طبقے کو یہ باورکرایا گیا کہ افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہونے سے پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا کیونکہ افغانستان کی سابق حکومتیں امریکا اور بھارت کی پٹھو تھیں۔ ان حکومتوں نے دہشت گردوں کو افغانستان میں پناہ دی اور ان کے تربیتی کیمپ قائم کیے، اب یہ سب کچھ ختم ہوجائے گا لیکن حالات نے اس ملمع کاری سے پردہ اٹھا دیا ہے۔

افغانستان میں قائم عبوری حکومت اب تک عالمی سطح پر اپنی نمایندہ ساکھ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی، افغان عبوری حکومت میں کئی گروپ شامل ہیں۔ ہرگروپ کے اپنے اپنے مفادات اور نظریات ہیں۔ افغانستان ایک طرح سے ابھی تک وار لارڈز کے زیر قبضہ ہے داعش اور القاعدہ جیسی تنظیمیں بھی وہاں فعال ہیں اورکالعدم تحریک طالبان پاکستان بھی فعال ہے۔ سخت گیرگروپس افغانستان کی حکومت میں اہم وزارتوں اور عہدوں پر قابض ہیں اور ان گروپوں کے باعث خطے میں پائیدار امن کے قیام میں مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے۔ ہماری سرزمین پر دہشت گردی کا جال پھیلانے والے سازشی عناصرکا کھوج لگا کر اور ان کی سرکوبی کے بغیر دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔

اسی طرح پاکستان کی لیڈر شپ آگاہ ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کی سرپرستی کے پیچھے بھارت کے کئی مقاصد ہیں۔ مثلاً مقبوضہ کشمیر سے توجہ کم کی جائے تاکہ پاکستان کے وسائل اور توجہ کا رُخ مغربی سرحد کی طرف رہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر پر سمجھوتے کے لیے مجبورکیا جائے اور اس مقصد کے لیے بلوچستان میں مشکلات کا سلسلہ جاری رکھا جائے، جب کہ ان کارروائیوں کا مقصد سی پیک کی پیش رفت کو ہر ممکن انداز میں روکنا بھی ہے،کیوں کہ ہمارا دشمن سی پیک کو اپنی علاقائی خود مختاری کے ساتھ، اپنی اقتصادی اور بحری طاقت کے لیے بھی خطرہ سمجھتا ہے۔

چینی شہریوں اور فوج کے اہل کاروں کو نشانہ بنانا بھی اسی سازش کی مزید چند کڑیاں ہیں۔ ہر پاکستانی یہ حقیقت سمجھے کہ طاقتوَر فوج کے بغیر ہمارا مستقبل افغانستان اور لیبیا جیسا ہو سکتا ہے۔ موجودہ بین الاقوامی حالات میں امریکا کا روس اور چین کے خلاف معاندانہ رویہ، چین کے وَن بیلٹ روڈ منصوبے، خاص طور پر پاکستان میں سی پیک منصوبوں کی مخالفت سے ظاہر ہوتا ہے۔ تاہم، ہماری مُلکی سطح پر یہ کوشش قابلِ ستائش ہے کہ پاکستان کو امریکا اور چین دونوں سے دوستانہ تعلقات رکھنے ہیں۔

دہشت گردی کی اس لہر میں پاکستان میں سی پیک منصوبے پر کام کرنے والے چینی انجینئروں اور ورکروں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا تھا جس پر چین میں شدید اضطراب پایا جانا فطری بات تھی۔ اس حوالے سے پاکستان میں دہشت گردی اور اس میں چینی ورکروں کو درپیش خطرات کے پیش نظر پاکستان کے دیرینہ دوست چین کے تحفظات اس لیے بھی اہم تھے کہ سی پیک پروجیکٹ دہشت گردوں کا خصوصی ہدف تھا اور ہے۔

21 جون 2024کو پاکستان میں چین کے وزیر لیوجیان چاؤ نے کھل کر اس موضوع پر بات کی اور پاک چین سیاسی جماعتوں کے فورم میں جس میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں شریک تھیں اور سب نے متفقہ طور پر پاک چین دوستی اور سی پیک منصوبے کی پاکستان کے لیے افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے پر پاک فوج اور حکومت کے لائحہ عمل پر اتفاق کا اظہار کیا۔ اس اجلاس کے گزشتہ روز پاکستان کی حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کا اہم اجلاس طلب کرلیا۔

اجلاس میں صوبے اور وفاق کی تمام اکائیوں جس میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اعلیٰ قیادت بھی شامل تھی، نے یک زبان ہوکر اس بات کا اظہار کیا کہ پاکستان میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اجلاس کے دوران طے کرلیا گیا کہ ملک کے وہ تمام شورش زدہ علاقے چاہے وہ ملک کے کسی بھی صوبے میں ہوں وہاں پر دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔ اجلاس میں سیکیورٹی فورسز نے یکجا ہو کر ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے بھرپور عزم کا اعادہ کیا۔ اگر ریاست نے آپریشن عزم استحکام کے تحت ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کا خوش آیند فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اس کے یقینی نتائج حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پوری قوم اس آپریشن میں پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں