صنعتوں کا زوال۔۔۔۔ پاک بنگلہ دیش تعلقات

پاکستان کی معیشت کو مضمحل، ناتواں،کمزور، غریب، بے بس، بے کس کرنے کا عمل کئی عشروں سے جاری ہے۔



بہت سے عالمی ماہرین اس بات کا خدشہ ظاہرکررہے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ کا امکان موجود ہے، لیکن میرے خیال میں '' غزہ'' میں جنگ چھڑنے کے ساتھ ہی عالمی معاشی جنگ میں تیزی کے امکانات پیدا ہو چکے ہیں۔ اس جنگ نے دنیا کی معیشت پرگہرے منفی اثرات مرتب کردیے ہیں۔

اب تک کے حالات یہ واضح اشارہ کر رہے ہیں کہ نئی معاشی عالمی جنگ کی ابتدا دراصل امریکا میں ہونے والے انتخابات کے بعد نئے احکامات کی تعمیل کرنے سے متعلق ہے۔ اس معاشی جنگ کے منفی اثرات تیل پیدا کرنے والے ملکوں اور مسلمان ممالک پر مرتب ہوں گے۔ پاک چین کا اہم منصوبہ ''سی پیک'' بھی غیروں کی آنکھوں میں بری طرح کھٹک رہا ہے۔ اس کا بھی ایک اہم کردار ہوگا۔

پاکستان کی معیشت کو مضمحل، ناتواں،کمزور، غریب، بے بس، بے کس کرنے کا عمل کئی عشروں سے جاری ہے۔ اس عمل میں تیزی لانے کی خاطر آئی پی پیزکو پاکستان کی گردن پر مسلط کردیا گیا جس کے تحت روز بہ روز بجلی کی قیمتیں بڑھنا شروع ہوگئی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی اگر بجلی مہنگی ہو رہی ہے تو بجلی کی پیداوار بھی بڑھ رہی تھی، اگر پیداوار بڑھ رہی تھی تو پھر لوڈ شیڈنگ کرنے کا کیا مقصد؟ مقصد صاف ظاہر ہو رہا ہے۔

مہنگی سے مہنگی بجلی اور لوڈ شیڈنگ اس کے علاوہ گیس مہنگی اور پھر پانی مہنگا۔ کیونکہ پانی کی ترسیل کا نظام ٹینکر مافیاز کے ہاتھ میں ہے، اب یہ سب مل کر سرمایہ کار اور صنعتکار کی حوصلہ شکنی کے لیے کیا کافی نہیں تھے کہ ڈالر بھی مہنگا ہونا شروع ہوگیا۔ 1990 کے آغاز میں 24 روپے والا ڈالر دگنا ہوکر 50 روپے کا پھر 100 روپے کا پھر اس سے تین گنا بڑھ کر 300 روپے سے زائد ہو چکا تھا۔ اب 280 روپے کے لگ بھگ ہے۔

آخر اتنا تیزی سے اضافے کا صاف مطلب تھا کہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ ماضی میں آئی ایم ایف سے جتنے معاہدے ہوتے رہے پہلا مطالبہ یہی کہ روپے کی قدرگھٹا دو۔ وجہ برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوگا، آخر وہ اضافہ کہاں گیا؟ آخر بتائیے روپے کی قدر میں 15گنا کمی اور 10 ارب ڈالرکی برآمدات میں 15 گنا اضافہ ہوکرکیا پاکستان کی برآمدات 150 ارب ڈالر ہوئی؟ بالکل نہیں، بلکہ صرف تیس ارب ڈالر تک محدود رہی اور اس مرتبہ مالی سال کے پہلے ماہ کے تجارتی اعداد و شمار مزید حوصلہ شکن نظر آ رہے ہیں۔ آئیے! پہلے اس پر نظر ڈال لیتے ہیں پھر آگے بڑھتے ہیں۔

ماہ جولائی 2024 کی برآمدی مالیت 2 ارب 30 کروڑ80 لاکھ ڈالرز جب کہ اس سے پچھلے ماہ جون 2024 کی برآمدی مالیت 2 ارب 55 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز کے ساتھ 9.8 فی صد کمی نوٹ کی گئی، یعنی تقریباً 10 فی صد مزید کمی۔ اس کمی کا سبب کون بنا؟ بجلی گیس۔ باقی جو کچھ سرمایہ کار، صنعتکارکو منافع میں بچنا تھا وہ ٹینکرز مافیا لے اڑے۔ پانی کا بل ہی لاکھوں روپے کا ہوتا ہے۔

اب یہ سلسلہ چونکہ کئی عشروں سے چل رہا تھا، اس لیے آہستہ آہستہ پہلے پہل تو وہ غیر ملکی سرمایہ کار جس نے یہاں سرمایہ کاری صنعت کاری سے دلچسپی تھی وہ جب آتا ہے تو ڈالر ریٹ سے لے کر روپے کی شدید کمزوری لوڈ شیڈنگ کی بھرمار۔ قصہ مختصر بجلی گیس کے بل اور بہت کچھ کی فزیبلٹی رپورٹ اسے اپنے لیے درد سری اور مشکلات میں اضافہ سمجھتا ہے تو فرار ہونے میں ہی عافیت سمجھتا ہے اور ملکی سرمایہ کار اور صنعتکار ان حالات سے تنگ آ کر فیکٹری بند کرتے چلے گئے۔

آخر ہمیں اس سے کیا فرق پڑا۔ فرق یہ پڑا کہ ملک سے روزگارکے مواقعے ختم ہوتے چلے گئے۔ بے روزگاروں کی تعداد کروڑوں سے بھی اوپر چلی گئی ہے اور درآمدات کی بھرمار ہوگئی۔ 80 ارب ڈالرکی درآمدات تک پہنچ گئے تھے۔ البتہ گزشتہ مالی سال میں اس درآمدی بل میں نمایاں کمی ہوئی۔ اس کمی کو لانے کی خاطر بہت سی ایسی درآمدات روک دی گئیں جس کی ضرورت کارخانہ داروں کو تھی، وہ خام مال جب ان کو نہ ملا تو ان کی پیداوار رک گئی۔ کارخانے تین شفٹوں سے ایک شفٹ پر آگئے اور مزدور بے روزگار ہوگئے۔

گزشتہ برس گوجرانوالہ کے اہم صنعتی شہرکے ایک مطالعاتی دورے میں اس بات کو شدت سے محسوس کیا گیا اور کاریگروں سے لے کر کارخانے دار تک یہ بات کہہ رہے تھے کہ ہمارے لیے درآمدی خام مال کی عدم دستیابی ہماری پیداوار میں کمی کا سبب ہے، جس کے باعث بہت سے مزدوروں کی چھٹی کرانا بھی مجبوری ہے۔

اس سے ہماری برآمدات بھی گھٹ کر رہ گئی ہے، بجلی گیس کے نرخ ایک طرف جو انتہائی ضروری خام مال ہے وہ دستیاب نہیں ہو رہا ہے۔ گوجرانوالہ کے کئی صنعتکاروں نے بتایا کہ ان کے کئی کنٹینرز روک لیے گئے ہیں، کیونکہ درآمدی بل کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہمارے خام مال جن کی ضرورت برآمدی اشیا کی تیاری کے لیے بھی ہوتی ہے وہ تو رک گئے ہیں، لیکن اشیائے تعیشات لگژری گاڑیاں، قیمتی موبائل فونز حتیٰ کہ کھانے پینے کی اشیا تک درآمد کی جا رہی ہیں۔

اس وقت موجودہ حکومت نے صنعتوں کی بحالی کی خاطر خام مال کی درآمد کی اجازت دے رکھی ہے، لیکن بجلی بلوں کی مد میں بے تحاشا اضافے کے باعث پاکستان دنیا کے دیگر ملکوں کی نسبت تیزی سے معاشی کساد بازاری کے مراحل طے کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی صنعت کش پالیسیوں نے ہمارے ملک کو درآمدی ملک بنا کر رکھ دیا ہے۔

بہرحال بات عالمی معاشی جنگ کی ہو رہی تھی جسے ان دنوں اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو شہید کرکے مزید ہوا دے دی ہے۔ چین امریکا تجارتی جنگ اب غزہ جنگ کے باعث دنیا میں پھیل چکی ہے۔ عالمی بینک غزہ جنگ کے اثرات کے حوالے سے کہتا ہے کہ عالمی معیشت کی بحالی کی امیدیں دم توڑ گئی ہیں۔ دنیا میں ایک طرف عالمی توانائی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور توانائی کا بحران سر اٹھاتا دکھائی دے رہا ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں کی معاشی ترقی کی رفتار گھٹ کر رہ گئی ہے۔ دریں اثنا بنگلہ دیش میں انقلاب کے نتیجے میں پاکستان سے تعلقات بحال ہوگئے ہیں۔ اسلام آباد میں نیا بنگلہ دیشی ہائی کمشنر تعینات ہو چکا ہے۔

دونوں ممالک باہمی تجارت کو مزید فروغ دے سکتے ہیں۔ کل پاکستانی ایکسپورٹ میں بنگلہ دیش کا شیئر محض3 فی صد کے قریب ہے جسے دگنا اور تین گنا باآسانی کیا جاسکتا ہے اور دیگر بہت سے عالمی، سارک کی سطح پر معاملات ایسے ہیں جن کے متعلق اب بنگلہ دیش ہمارا ہمنوا بن سکتا ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کو اس سلسلے میں تمام تر عالمی اور علاقائی معاملات کا عرق ریزی کے ساتھ مطالعہ کر کے کوئی مستقل واضح پالیسی اختیار کرنا ہوگی تاکہ ہم بنگلہ دیشی بھائیوں کا دل جیت سکیں اور ہر فورم پر بنگلہ دیش اور پاکستان کا یکساں موقف سامنے آسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں