پاکستان سے غربت کیسے ختم ہوسکتی ہے
پسماندگی، غربت، جہالت، ناداری کے خاتمے کیلئے حکومت کو ٹھوس لائحہ عمل اختیارکرنا چاہیے
پاکستان میں غربت کے خاتمے کی ضرورت ہے۔ غریبوں کے حقوق کا تحفظ کیے بغیر ملک کی ترقی ممکن نہیں ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں غربت کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے۔ ایک طبقہ روز بہ روز امیر ہورہا ہے جبکہ غریب طبقات جینے کے حق سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پالیسی ساز معاشی اداروں نے وہ حکمت عملی اختیار نہیں کی جس کی ضرورت تھی۔ پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے زیادہ ترآبادی دیہاتوں میں رہتی ہے اور مسائل سے دوچار ہے، جبکہ شہروں میں بھی بد امنی لاقانونیت بڑھ رہی ہے اور عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے عوام پریشان ہیں۔
خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، مہنگائی عروج پر ہے، بے روزگاری کے رجحانات بڑھ رہے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری بھی محدود ہورہی ہے خود اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور سرکاری اداروں کی رپورٹوں میں خراب معاشی صورتحال کو تسلیم کیا گیا ہے اور بدعنوانی کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں، اگرچہ پوری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے کہ صنعتی ترقی کے لیے سازگار حالات ضروری ہیں لیکن جب امن و امان کی صورتحال ہی خراب ہو تو پھر اقتصادی ترقی کیسے ممکن ہے؟ اور کس طرح قومی معیشت کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے؟
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقعے پرکراچی میں جو تاریخی تقریرکی تھی اس پر اگر عمل کیا جاتا تو پاکستان اقتصادی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکتا تھا۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان میں ایک منصفانہ اقتصادی اور معاشی نظام کی ضرورت ہے جس کی بنیاد مساوات، سماجی انصاف اور اسلام کے فلاحی نظریے کی بنیاد پر ہو۔
اس تقریر میں انہوں نے اس وقت کے عالمی اقتصادی نظام کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کے لیے نئے معاشی نظام کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ قائداعظم کے دیگر اقوال اور افکارکی طرح اس تقریرکو بھی بھُلا دیا گیا جس کا نتیجہ ہم بھگت رہے ہیں۔ غیر ملکی قرضوں سے قومی معیشت چلائی جارہی ہے جبکہ اقتصادی شعبہ بدحالی کا شکار ہے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کی اکثریتی آبادی کو مطمئن کیے بغیر قوم کیسے ترقی کرسکتی ہے؟ ملک بحران سے کس طرح نکل سکتا ہے اورکرپشن کا کس طرح خاتمہ کیا جاسکتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر غورکیا جانا چاہیے اور پالیسی ساز اداروں کو اس کے بارے میں رپورٹیں مرتب کرنی چاہیے، ایک اہم مسئلہ سرکاری اخراجات کا بھی ہے حکومت کے محکموں اور اداروں کے اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غیر ملکی دوروں پر کروڑوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں جبکہ سرکاری اداروں میں بچت کا نظام رائج ہونا چاہیے۔
آمدنی سے زیادہ اخراجات سے معیشت دباؤکا شکار ہے کسی بھی قوم کی اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اس کی معیشت مضبوط بنیادوں پر قائم ہو اور اس کا اقتصادی نظام ٹھوس بنیادوں پر استوارکیا گیا ہو، پاکستان کے پلاننگ کمیشن نے اقتصادیات پر بہت سی رپورٹیں مرتب کرائی ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں پلاننگ کمیشن نے غربت کے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کی تھی جس میں ماہرین نے حکومت کو غربت کے خاتمے کے متعلق بہت سی تجاویز پیش کی تھی، لیکن اس رپورٹ کو بھی سرد خانے میں ڈال دیا گیا اور حکومت کے محکموں نے پلاننگ کمیشن کی رپورٹ پر عمل کرنے سے گریزکیا، اگر اس رپورٹ پر توجہ دی جاتی اور سنجیدگی سے اقدامات کیے جاتے تو ملک میں غربت کے خاتمے کیلئے بنیادی اقدامات کیے جاسکتے تھے۔
پسماندگی، غربت، جہالت، ناداری کے خاتمے کیلئے حکومت کو ٹھوس لائحہ عمل اختیارکرنا چاہیے۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے منشور میں غربت کے خاتمے اور کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کے وعدے توکیے جاتے ہیں لیکن جب یہ جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں تو یہ اپنے منشورکے بنیادی نکات کو بھی بھول جاتی ہیں اور اقتدار کے کھیل میں شریک ہوجاتی ہیں۔ ہمارے ملک کے عوام بھی بہت سیدھے اور سچے ہیں جن جماعتوں کو وہ ووٹ دیتے ہیں، اقتدار میں آنے کے بعد وہ ان سے احتساب کرنے کا حق نہیں رکھتے اور 75 سال سے محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
غربت میں تشویشناک اضافہ ہورہا ہے، عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں، کراچی پاکستان کا اقتصادی انجن ہے لیکن قائداعظم کے اس شہر میں بدامنی عروج پر ہے، کہا جارہا ہے کہ ملک کی قومی معیشت پر کراچی کے حالات کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت کو مطلوبہ بنیادی سہولتیں فراہم نہیں کرسکے گی اور افراط زر بڑھے گا، اس حکومت کی قائم کردہ ٹاسک فورس نے تجویز پیش کی تھی کہ حکومت کو چاہیے کہ ٹیکسوں کے نظام میں بنیادی اصلاح کرے مگر اس ٹاسک فورس کی سفارشات کو بھی ردی کی ٹوکری کی نذرکردیا گیا جس کی وجہ سے ملک کو بنیادی معاشی مسائل کا سامنا ہے، جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ صنعتی عمل کا پہیہ تیز کیا جائے، ملکی معاشی ترقی کے لیے بدامنی، لاقانونیت کا خاتمہ کیا جائے زرعی معیشت کو سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ دیہی آبادی کو بنیادی انسانی ترقی کے عمل میں شریک کیا جائے۔
دیہی اور پسماندہ علاقوں میں سڑکوں کا جال بچھایا جائے۔ بینکوں اور مالیاتی اداروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ غربت کے خاتمے کے لیے اپنے فنڈز مختص کریں اور بنگلہ دیش کی طرح غریب آبادی کو بھی منصوبوں کیلئے سرمایہ فراہم کریں۔ غربت سے نجات کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان کے پالیسی ساز ادارے ملکی معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر مستحکم کرنے کیلئے اقدامات کریں اور عام آدمی کے حالات بہتر بنانے کیلئے منصوبہ بندی کریں۔