خدارا رک جائیے

ایک لحاظ سے تمام آنکھوں والے بھی دنیا میں رونما ہونیوالے اکثر واقعات کے معاملے میں’’ اندھے‘‘ ہوتے ہیں


Aftab Ahmed Khanzada August 11, 2024
[email protected]

ڈیجیٹل دورکی عظیم ٹیپسٹری میں، ڈونلڈ ملر کے گہرے الفاظ ایک وضاحت کے ساتھ گونجتے ہیں جو معلوماتی دورکے شورکو ختم کرتے ہیں۔ '' معلومات کے دور میں، جہالت ایک انتخاب ہے'' بصیرت اور مطابقت سے بھرے یہ الفاظ ہمیں اپنے وقت کی حقیقت کا سامنا کرنے کا چیلنج دیتے ہیں۔ ایک ایسا وقت جب علم پہلے سے کہیں زیادہ قابل رسائی ہے، جب معلومات ہماری انگلیوں پرآزادانہ طور پر بہتی ہیں اور جب سمجھ کی حدود صرف ہماری رضا مندی سے محدود ہیں۔

حقیقت کو تلاش کرنے کے لیے اعدادوشمارکی کثرت اور آراء کے سیلاب سے نشان زدہ اس دور میں، لاعلم رہنے کا انتخاب قلت کا نہیں بلکہ انتخاب کا نتیجہ ہے۔ ہمارے اختیار میں علم کی دنیا کے ساتھ، الگورتھم کے ذریعے تیارکردہ اور ہماری ترجیحات کے مطابق، حقائق پرآنکھیں بندکرنے، شواہد کو مسترد کرنے یا مختلف نقطہ نظر کو مسترد کرنے کا فیصلہ روشن خیالی پر جہالت کو منتخب کرنے کا ایک شعوری عمل ہے۔ ڈیجیٹل لینڈ اسکیپ معلومات کا ایک وسیع ذخیرہ پیش کرتا ہے،جس میں معتبر ذرائع سے لے کر مشکوک دعوؤں تک، ماہرانہ تجزیے سے لے کر سنسنی خیز بیانیے تک شامل ہیں۔

اعداد و شمار کے اس سمندرکو نیویگیٹ کرنے کے لیے فہم، تنقیدی سوچ اور مفروضوں پر سوال کرنے کی آمادگی درکار ہوتی ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں غلط معلومات جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہیں اور سچائی کو اکثر مسابقتی آوازوں کے شور سے دھندلا دیا جاتا ہے، ہر فرد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شور کو چھان لے، حقیقت کو افسانے سے الگ کرے اور ثبوت اور وجہ کی بنیاد پر باخبر انتخاب کرے۔ معلومات کے دور میں جہالت کوگلے لگانا علم کی طاقت کو ترک کرنا، دنیا کے بارے میں اپنی سمجھ بوجھ سے دستبردار ہونا اور آدھے سچوں اور غلط فہمیوں کے دائرے میں پیچھے ہٹنا ہے۔

ایک ایسی دنیا میں جہاں معلومات طاقت ہے، جہاں سچائی ایک کرنسی ہے اور جہاں علم ترقی کا گیٹ وے ہے، وہاں جاہل رہنے کا انتخاب نہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچانا ہے بلکہ ان مواقعے سے انکار ہے جو تجسس اور دریافت کے سنگم پر موجود ہیں،جیسا کہ ہم ڈیجیٹل دور کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتے ہیں۔

آئیے! ہم ڈونلڈ ملرکی نصیحت پر دھیان دیں اور تسلیم کریں کہ معلومات سے بھری ہوئی دنیا میں، جہالت درحقیقت ایک انتخاب ہے اور سچائی، دانشمندی اور روشن خیالی کے ذریعے مستقبل کی تشکیل کرنے کی ہماری صلاحیت۔ ''کوئی نابینا شخص کار میں بیٹھا ہو، اس کی بیوی کار چلا رہی ہو توکیا وہ جان سکتا ہے کہ بیگم صاحبہ غلط سمت میں کار چلا رہی ہیں؟ اگر وہ جان لیتا ہے تو ہم پوچھیں گے کہ ایسا کیونکر ہوا۔ آیے! ہم ایک مثال لیں۔

آرتھر ماس نابینا ہیں ایک سہ پہرکو وہ کار میں کہیں جا رہے تھے اور ان کی بیوی ''الین'' ڈرائیوکررہی تھیں، دونوں شمال میں واقع برج ٹاؤن جا رہے تھے، راستے میں ایک چوراہے پر الین کو اشارہ سمجھنے میں غلطی ہوئی اور انہوں نے شمال کے بجائے جنوب کی طرف سفر شروع کردیا، چند منٹوں کے بعد آرتھر ماس کو اپنے دائیں بازو پر دھوپ کا احساس ہوا، چنانچہ انہوں نے فوراً ہی اپنی بیوی کو ٹوکا کہ وہ غلط سمت میں جارہی ہیں۔ بیگم صاحبہ کہاں ماننے والی تھیں،آخریہ اندھا شوہر ان کی رہنمائی کیسے کرسکتا ہے؟ لیکن نو دس میل آگے جانے کے بعد انہیں غلطی کا احساس ہوگیا، چنانچہ الین نے گاڑی موڑی اور مخالف سمت میں روانہ ہوگئیں۔

آرتھر ماس کو غلطی کا احساس کس طرح ہوا ؟ آئیے! ہم دیکھیں کہ مشاہدے میں آنیوالے اور حافظے میں محفوظ حقائق کی مدد سے صحیح نتیجے تک پہنچے میں ان کا استدلال کن کن مراحل سے گزرا۔ (1) ماس صاحب کار میں دائیں ہاتھ کی اگلی نشست پر بیٹھے تھے۔ (2) ماضی کے تجربے سے انہیں معلوم تھا کہ جب دھوپ ان کے جسم پر پڑتی ہے تو وہ گرم ہوجاتا ہے چونکہ اب ان کا دایاں کندھا گرم ہوگیا تھا، لٰہذا انہوں نے سوچا کہ دھوپ کارکے دائیں حصے پر پڑرہی ہے، گویا کار پہلے سے طے شدہ شمال کی جانب نہیں جا رہی تھی، جب ماس نے اپنی بیوی کو ٹوکا تو بیگم کو یقین نہ آیا تھا کہ ان کا نابینا شوہر راستے کے انتخاب میں ان کی غلطی کی نشاندہی کرسکتا ہے،اس لیے وہ غلط راستے پر نو میل تک کار چلاتی گئیں اس کے بعد انہیں غلطی کا احساس ہوا کیونکہ انہیں ایسے حقائق دکھائی دیے، جو ان کے فیصلے کو غلط ظاہرکر رہے تھے، شاید راستہ بہت طویل ہوگیا تھا یا پھر مناظر نہ مانوس محسوس ہونے لگے تھے۔

ہوسکتا ہے کہ انہیں راستے پرکوئی ایسا روڈ سائن نظر آیا ہو جس پر یہ ظاہر ہوا کہ وہ جنوب کی طرف جارہی تھیں۔ بہرطور اس قسم کے تضادات نے بیگم کو آخرکار یقین دلا دیا کہ انہوں نے راستے کا انتخاب غلط کیا ہے، تب ہی انہوں نے اپنے شوہرکی بات کو درست تسلیم کیا۔'' یاد رکھیے، تضاد ایک چیختا ہوا اشارہ دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ''رک جائیے'' اگر دو حقائق یا نتائج ایک دوسرے سے متضاد ہوں تو وہ دونوں درست نہیں ہوسکتے، ان میں سے ایک غلط ہوگا۔

ایک لحاظ سے تمام آنکھوں والے بھی دنیا میں رونما ہونیوالے اکثر واقعات کے معاملے میں'' اندھے'' ہوتے ہیں۔ اب ہم آتے ہیں، اپنے ملک کی جانب۔ عقل و سمجھ رکھنے والے سوچ و بچار سے کام لینے والے دوراندیش سالوں سے چلا چلا کر حکمرانوں سے کہہ رہے تھے کہ آپ ملک کو غلط راستے پر چلا رہے ہیں یہ راستہ ترقی، خوشحالی،آزادی کی جانب کسی صورت نہیں جاتا ہے، آگے چل کر آپ ایسے دوراہے پرآکر پھنس جائیں گے کہ آپ نہ آگے جاسکیں گے اور نہ آپ واپس پلٹ سکیں گے وہ بار بارکہہ رہے تھے خدارا ''رک جائیے، رک جائیے'' لیکن ہمارے حکمران اپنے آپ کو دنیا کا سب سے ذہین، سمجھ دار شخص سمجھے بیٹھے ہوئے تھے اور آخرکار ہمارے حکمرانوں نے ثابت کر دیا کہ وہ واقعی '' اندھے'' تھے، حالانکہ تضادات مسلسل چیختے ہوئے اشارے پہ اشارے دے رہے تھے۔

حقائق روئے جا رہے تھے، لیکن پھر بھی ہمارے ڈرائیور فل اسپیڈ سے گاڑی غلط سمت میں چلانے میں مگن اور مست تھے۔ ہمارے ان اناڑی ڈرائیوروں کو جنہیں بار بار روکا اور ٹوکا جا رہا تھا لیکن جو مسلسل یہ کہہ کہہ کر ہمیں ملک کے عوام نے ملک چلانے کا ووٹ کے ذریعے حق دیا ہے اور وہ ان روکنے اور ٹوکنے والوں کی ان سنی کرتے رہے۔ فرانسس بیکن نے ہمیں سکھایا ہے کہ سچائی کی تحقیق سے پہلے بہت سے مغالطوں کو تلف کردینا چاہیے، اس نے ان مغالطوں کو ''بت'' کا عنوان دیا ہے، یہ وہ بت ہوتے ہیں جو انسانی ذہن کی راہ روکے ہوئے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ہر فرد کی اپنی کوئی نہ کوئی غار یا کھوہ ہوا کرتی ہے، جو فطرت کی روشنی کو مسخ کردیتی ہے بعض اذہان تحلیلی ہوتے ہیں، وہ دنیا کو اس کے اختلافات کے حوالے سے تقسیم کرنے کا میلان رکھتے ہیں، بعض دوسرے اذہان ترکیبی ہوتے ہیں، وہ دنیا کو ایک ہم آہنگ ڈھانچے میں منظم کرنے کے درپے رہتے ہیں۔

بتوں کی تیسری قسم کو ''منڈی کے بت '' کہا گیا ہے یہ بت لین دین اور انسانوں کے ایک دوسرے کیساتھ میل ملاپ سے وجود میں آتے ہیں۔ بیکن کادعویٰ ہے کہ '' الفاظ کی خراب اور غیر موزوں تشکیل سے ذہن کی راہ میں عجیب وغریب رکاوٹیں کھڑی ہوجاتی ہیں'' چوتھی قسم کے بتوں کو اس نے ''تھیٹرکے بت '' بتایا ہے، یہ بت فلاسفے کے کٹر قسم کے عقیدوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ اب جبکہ ہم نے جہالت اور لاعلمی کے جنگل میں راہ بنا لی ہے اور ہم اسی راہ پر چلنے میں خوب لطف اٹھا رہے ہیں۔ اس لیے سچائی اور علم کی طرف جانے والی نئی شاہراہ کی تعمیر میں لاکھوں رکاوٹیں حائل ہوگئی ہیں، جو وقت کیساتھ ساتھ بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں ،جبکہ ڈرائیور اپنے خوابوں اور خواہشوں میں مست ہیں، دیکھتے ہیں یہ خوفناک سفر اورکتنی دیر تک جاری رہ سکتا ہے،کیونکہ اس سفرکے انجام سے سب ہی واقف ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں