نذیر عباسی کی فریاد
وہ مظلوم و مہقور اور تنگ دست عوام کے جمہوری حقوق کی وہ مضبوط آواز بنا
اسے بالکل معلوم نہ تھا کہ سندھ کا بہادر سپوت اورکلہوڑا دورکا جنگجو جنرل ''ہوشو شیدی'' کون تھا، نہ ہی وہ یہ جانتا تھا کہ سندھ کے پسماندہ شہر ٹنڈوالہیارکے شیدی پاڑہ میں اس کے اجداد کیوں آکر آباد ہوئے تھے، وہ بس شیدی پاڑہ میں محلے کے دیگر دوستوں کے ساتھ کھیل کود کر جب اسکول جانے کی عمر تک پہنچا تو اس کے گھر کی معاشی تنگ دستی اس کے ساتھ ساتھ رہی، وہ پڑھنے کے شوق میں گھر کی معاشی بہتری کے لیے ہر کام کرنے پر راضی ہو جاتا تھا۔
ماں نے چھولے ابال کردیے تو اسکول سے آنے کے بعد وہ ابلے ہوئے چھولوں کا تھال سنبھال کر جب شام کو گھر لوٹتا تو تھکن کے باوجود دوبارہ سے پڑھنے میں جت جاتا تھا اور علم کے حصول میں گھرکے تمام کام کرنے پر راضی ہوجاتا تھا۔ ماں نے پکوڑے بیچنے کے لیے بھیجا تو یہ اس پر بھی بغیر کسی چوں چرا راضی ہوگیا، پڑھنے میں ذہین ہونے کے ناتے وہ جلد اساتذہ میں پہچانا جانے لگا، صبح سویرے اٹھ کر اسکول جانے اور اسکول کے بعد گھرکی معاشی محرومی میں ہاتھ بٹانے کی غرض سے وہ چھولے اور پکوڑے بیچنے پر چلا جاتا تھا۔
اسی دوران وہ اکثر چھولے اور پکوڑے دینے والے اخبارات پڑھتا رہتا تھا، پڑھنے کی اس لگن یا شاید اسے شیدی پاڑہ میں رہنے کی بنا ''ہوشو شیدی'' کے قصے اور بہادری بہت بھاتی تھی،شیدی اور بہادری کے لفظ کو وہ اپنی زندگی کی عملی تفسیر بنانا چاہتا تھا۔ اسی واسطے وہ ارد گرد کے سیاسی ماحول سے واقف ہوتا رہتا،اس نے علم حاصل کرنے اور اپنے اندر بہادرانہ اندازکا اظہار اپنے ہم عمر بچوں کے حقوق کی آواز اٹھانے سے کیا اور پھر سیاسی شعورکے ادراک کے ساتھ ''سندھی بارڑا '' کے بعد وہ طلبہ حقوق کی تنظیم ایس این ایس ایف کا متحرک رکن ٹہر گیا۔
ٹنڈو الہیار کے شیدی پاڑہ کے اس بالک کی صلاحیتوں کو '' نذیر'' بنانے میں کمیونسٹ فکر نے جب اس کے ذہن کے دریچے وا کیے تو وہ مظلوم و مہقور اور تنگ دست عوام کے جمہوری حقوق کی وہ مضبوط آواز بنا۔ ملک میں جمہوری اور انسانی حقوق کی جدوجہد کو پہلے ہی مارشل لا نے تہہ تیغ کر دیا تھا، اب وہ کمیونسٹ فکر کی سوچ کے نذیر عباسی کے خاتمے سے کم پر رضامند نہ تھے۔ گلی گلی نذیر عباسی کی تلاش کی گئی۔
نذیر عباسی کی جدوجہد کے تمام راستوں میں رکاوٹیں بچھا دی گئیں، مگر شیدی پاڑے کا نذیر عباسی ہوشو شیدی کی طرح بے خوف و خطر کمیونسٹ آدرش کو عام عوام تک پہنچانے میں جتا رہا، وہ ملنگانہ وار ہر طریقے سے عوام تک پہنچ کرکمیونسٹ جدوجہد کے لیے عوام کو جوڑتا رہا، سیاسی تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ کمیونسٹ آدرش کی سچائی سے نذیر عباسی منکر نہ ہوا اور آخر کارکمیونسٹ نظریے کا یہ شیدی آمر جنرل ضیا کے قہرکا نشانہ بنا کر عقوبت خانے میں 8 اگست کی شب قتل کردیا گیا۔
یہ 1980 دہائی کے دلسوز واقعے کا عکس ہے، جہاں چند سال پہلے یہاں کی منتخب حکومت کو ایک آمرانہ مزاج رکھنے آمر جنرل ضیا نے آئین اور قانون کو تار تار کر کے عوامی رائے پر نظریہ ضرورت کی آڑ میں غیر آئینی طور پر ملک کے وزیراعظم کو تختہ دار پر پھانسی دے کر فاتحانہ انداز سے 90 روز کے انتخابات کروانے کے وعدے کا بھی خیال نہیں کیا تھا، ہر جا مذہبی تنگ نظری کو کھلے عام بیچا جا رہا تھا، ہر طرف غیر آئینی مارشل لا کے مہیب سناٹوں کا چلن عام تھا۔
ہوشو شیدی کی بہادری کو عملی شکل دینے والا کمیونسٹ آدرش کا پالنہار نذیر عباسی، آج پھر اپنی بھٹکتی روح کے ساتھ ٹنڈو الہیار کے شیدی پاڑہ میں کھڑا ان گلیوں اور ان پسے ہوئے طبقات کو بے آسرا دیکھ رہا ہے جن کے لیے ' نذیر' سولی پر فاخرانہ انداز سے چڑھا۔ نذیر عباسی آج اپنے بچپن کے شیدی پاڑہ میں بہت اداس و غمگین ہے، وہ تو کمیونسٹ آدرش کا دم بھرنے والے، اس کی یاد میں جلسے، سیمینار اورکانفرنس کرنے والے اور اس کی تصویرکے اسٹیٹس ڈال کر خود کے ساتھ مظلوم و محکوم عوام کو دھوکہ دینے والوں پر رو بھی نہیں سکتا ہے۔
نذیر عباسی جانتا ہے کہ اس کی برسی سے کوئی اپنی ساکھ،کوئی اپنی نام نہاد دانشوری اورکوئی اپنی کھوکھلی نظریاتی سیاست کو جھوٹا سہارا دے کر عوام کو سبز باغ دکھا رہا ہے۔ نذیر عباسی بخوبی واقف ہے کمیونسٹ آدرش کا دم بھرنے والے ہی آج کی نظریاتی کمیونسٹ سیاست کے وہ مجرم جو عوام کی جمہوری آزادی اور عوام کی غیر طبقاتی فکرکی کمیونسٹ پارٹی کو نہ منظم کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی طبقاتی جدوجہد کی وہ دشواریاں جھیلنا چاہتے ہیں جو ہوشو شیدی سے لے کر حسن ناصر اور میں نے یا دوستوں نے جھیلیں، نذیر عباسی کو افسوس ہے کہ اسے رسم اور پوجا پاٹ یا مفادات کا وہ بت بنا دیا گیا ہے، جن بتوں کو پاش پاش کرنے میں نذیر نے خود سے موت کا انتخاب کیا، اسے علم ہے کہ کسی کی قربانی پرکسی کو خراج پیش کرنے سے بہتر ہے کہ یہ جانا اور سوچا جائے کہ مظلوم طبقات کی نجات عہد جدید میں کمیونسٹ طبقہ اور ''ایک کمیونسٹ'' پارٹی کیسے کرسکتی ہے۔