آزادی یا موت
یہ کسی مار دھاڑ والی فلم کی کہانی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی فسانہ ہے
وہ اپنی حکومت کی بدعنوانیوں۔ ملک میں بے لگام مہنگائی اور روز بروز بجلی کی بڑھتی قیمتوں میں اضافے سے اس قدر نالاں تھے کہ انھیں ان مسائل کا حل اپنے سروں پر کفن باندھنے میں نظر آیا، وہ مشتعل ہوکر ملک کے دارالحکومت کی طرف رواں دواں ہوئے۔ ریاستی پولیس نے ان کا راستہ روکنے کی حتی الامکان کوششیں کیں، لیکن وہ نہ رکے، آگے بڑھتے گئے۔ حکومت نے دم توڑتی ہوئی اپنی رٹ کے آگے ایمرجنسی لگانے کا اعلان کیا، مگر سب بے سود۔
پولیس نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آنسوگیس۔ پانی کی توپیں، فلیش گرینڈ، ربڑکی گو لیاں اور آخری چارے کے طور پر بالآخر فائرکھول دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مظاہرین اور پولیس کے درمیان اس تصادم نے خونی انقلاب کی صورت اختیارکر لی جس کے نتیجے میں وقت کے وزیر داخلہ سمیت 47 افراد ہلاک اور 400 زخمی ہوگئے۔ اس کے باوجود مظاہرین نہ رکے۔ ہزاروں کے ہجوم نے پولیس کے اہلکاروں کو پکڑکر انھیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ ان سے اسلحہ، ٹرک اور بکتربندگاڑیاں چھین لیں، بعض نوجوانوں نے بکتر بند گاڑیوں کو استعمال کرتے ہوئے، حکومتی ہیڈکوارٹر (وائٹ ہاؤس) کا گیٹ توڑنے کی کوشش بھی کی۔
یہ لوگ اپوزیشن کے جھنڈے اٹھائے ہوئے'' اقتدار چھوڑ دو'' کے نعرے لگاتے ہوئے ایوان صدر، پارلیمنٹ ہاؤس، ٹی وی اسٹیشن سمیت دیگر سرکاری عمارتوں پر قابض ہوگئے۔ پراسیکیوٹر جنرل کا دفتر لوٹ لیا، تقریبا 5 ہزار کے قریب مظاہرین نے صدارتی محل کو محاصرے میں لے کر حالات سے گھبرائے ہوئے ملک کے صدر کرمان بیکا لیف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ حالات بے قابو ہونے کے بعد صدر نے بھاگنے میں عافیت سمجھی اور ایک طیارے میں سوار ہوکر فرار ہوگئے۔
وزیر اعظم نے یرغمال ہونے کے بعد استعفیٰ دیدیا۔ ادھر جھڑپوں کے بعد اسپتال زخمیوں سے بھر گئے۔ ڈاکٹر لہو لہان افراد کے سیلاب کے آگے بے بس نظر آرہے تھے، اسپتال کے فرش خون سے بھرے تھے۔ اپوزیشن کی بڑی جماعت عطا مکین کے سربراہ عمر بیگ تیکا بایوف نے ٹیلی وژن پر کہا کہ قوم '' آزادی یا موت '' کے نعرے پر عمل کرے۔ بعد ازاں اپوزیشن نے سرکاری ٹی وی پر اپنی حکومت بنانے کا اعلان کیا۔
یہ کسی مار دھاڑ والی فلم کی کہانی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی فسانہ ہے۔ یہ سچا واقعہ جو 7اپریل 2020ء کو سوویت یونین کی سابق ریاست کرغیزستان میں پیش آیا تھا۔ اس سے ملتا جلتا واقعہ 1986ء کو ہیٹی میں بھی پیش آیا تھا جب وہاں کے عوام نے مہنگائی، بے روزگاری، معاشرتی مسائل کے حل کے لیے ریاستی بیگانگی، اس کی بے زاری، بے نیازی، مظالم، ناانصافی اور عیاشیوں سے تنگ آکر بغاوت کرتے ہوئے صدارتی محل پر دھاوا بول دیا تھا۔
یہ منظر دیکھ کر ملک کا جبری سربراہ اپنے ذاتی طیارے میں سوار ہوکر فرار ہوگیا تھا۔ اس دوران بھپرے ہوئے لوگ صدارتی محل کے کھڑکی اور دروازے اکھاڑ کر اپنے گھروں میں لے گئے تھے۔ عوامی جاہ و جلال نے اس وقت بھڑاس نکالنے کی انتہا کردی تھی جب ملک کے ایک صف اول کے رہنما کی قبر کھود ڈالی کہ یہی مردہ شخص تمام صورت حال کا ذمے دار ہے۔ قبر سے ڈھانچے نکال کر اسے ایک بانس کے ساتھ باندھ کر اس ڈھانچے کا احتجاجی جلوس نکالا گیا اور بعد ازاں اپنی شدید نفرت کا اظہار کرتے ہوئے، اسے نذرآتش کر کے اس کی راکھ کو دریا میں بہا دیا گیا تھا۔
ادھر عبرت کا نشان بننے والا حکمران طیارے میں سوار جائے پناہ کی تلاش میں سرگرداں رہا مگر کوئی ملک اسے پناہ دینے کو تیار نہ تھا۔ طیارے کا ایندھن ختم اور جہاز کریش ہونے والا تھا۔ بالآخر زندگی کی بھیک مانگنے والے اس شخص کو کسی ایک ملک نے پناہ کی اجازت دے دی تھی۔ مذکورہ بالا حالات و واقعات عبرت ناک انجام کا پتہ دیتے ہیں۔ فہم و دانش رکھنے والے حکمران ان کی روشنی میں سبق حاصل کرتے ہوئے، اپنی راہیں متعین کرتے ہیں، جبکہ کم فہم عقل سے عاری خود کو عقل کل سمجھنے والے لوگ ذاتی تجربات کی بار بار ناکامیوں کے باجود سمجھ بیٹھے ہیں کہ انہوں نے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔
پاکستانی عوام یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوری حکومتیں ہو یا کہ آمرانہ حکومتیں ہر حکومت ایک دوسرے سے مختلف نہیں رہی ہیں۔ ہر ادوار میں عوام مسائل کی چکی میں پستی رہے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ، سرمایہ داروں اور تاجروں کی ناجائز منافع خوری۔ ذخیرہ اندوزی، کرپشن، سیاست دانوں کی نورا کشتیاں، امن و امان کے مسائل، چوری ڈکیتیاں، قتل و غارت گری، جعلی پولیس مقابلے، منشیات کی فراوانی، حقوق کی پامالیاں، عدالتوں کی ناانصافیاں، رشوت ستانی، پانی، بجلی، گیس کا بحران۔ الغرض یہ کہ وہی مسائل مسلسل چلتے آرہے ہیں ان میں کمی کی بجائے حد درجہ اضافہ ہوتا رہا ہے۔
جو غریب تھے غریب تر ہوتے رہے ہیں جو امیر تھے امیر تر ہوتے رہے ہیں۔ ملک کل بھی قرض دار تھا آج بھی مقروض ہے یہ ملک و قوم پر حکمرانوں کی مثالیں ہیں جو آج بھی تازہ دم ہیں، اگر ان مسائل پر عوام خاموش رہتے ہیں تو خدا ان کی حالت کبھی بھی نہیں بدلے گا۔ درحقیقت قوم بھی کرپٹ ہوچکی ہے۔ دکاندار ہو یا کہ ریڑھی والا۔ مزدور ہو یا ملازم صحافی ہو یا ڈاکٹر، وکیل ہو یا جج۔ شعبہ ہائے زندگی کے تمام افراد کرپشن کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب تو لوگ حرام کو حرام بھی نہیں کہتے ہیں۔ عوام کی حالت کو دیکھ کر رونا آتا ہے۔ اب تو شرم کو بھی شرم آتی ہوگی مگر بے شرموں کو شرم نہیں آتی۔ سب کچھ ڈنکے کی چوٹ پر کیا جارہا ہے۔ قوم جس عذاب میں گرفتار ہے، دراصل یہ ان کے اعمال کا نتیجہ ہے۔ صرف نعروں سے مسائل حل نہیں ہوں گے، عملی اقدامات کرنے ہونگے۔
اگر چہ ہمارے یہاں حقیقی انقلاب کے کوئی آثار نہیں اور نہ ہی ذہنی تبدیلی کے امکانات ہیں۔ آئے روز عوام کو بے مقصد معاملات میں الجھا کر خود غرضی و مفاد پرستی کے مقاصد حاصل کیے جا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر سطح پر مردم کش پالیسی ہی حکمرانوں کو جلا بخشنے والی ہے، لیکن کیا اپنے ہی عوام کی لاشوں پر حکومتیں قائم رہ سکتی ہیں؟ آخر کب تک عوام پر مظالم کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا؟ جواب دہ کون ہے؟