یہ ملک ہے یا وہ شہر
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ رہزنی کا کاروبار اب اتنا کھلے عام ہو رہا ہے کہ’’ رہزن‘‘ اپنے آپ کو چھپاتے نہیں
کافی عرصہ پہلے ایک انگریزی ناول پڑھا تھا، اس لیے ناول اوراس کے مصنف کا نام یاد نہیں آرہا لیکن کہانی یاد ہے۔ یہ ایک شہر کی کہانی ہے جس پر یلغار یا چڑھائی کر نے کے لیے پنڈاری لٹٰیروں کے دو لشکروں میں کشمکش اورجنگ جاری رہتی ہے، کبھی ایک فریق غالب آکر شہر پر قبضہ کر لیتا ہے لیکن اسے قبضے میں نہیں رکھ پاتا کیونکہ کچھ عرصے بعد دوسرا فریق غالب آکر قابض فریق کو بھگا دیتا ہے۔ ہرغالب فریق جب شہر پر قابض ہوتا ہے تو اس کا پہلا ہدف شہر کا '' بازار حسن'' ہوتا ہے۔
اس کے لٹیرے وہاں جا کر ''طوائفوں'' پر اپنے ارمان نکالتے ہیں، دوسرے فریق کا قبضہ ہونے پر اس کے لٹیرے بھی یہی کرتے ہیں، کئی بار ایسا ہوتا رہا تو ایک دن بازارحسن کی سربراہ نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا، ایسا لگتا ہے جیسے ''شہر'' صرف ''ہم'' ہیں کہ ہرفریق کاپہلا ہدف ہمیں مفتوح کرنا اور لوٹناہوتا ہے۔اس وقت اپنے ملک کی جو صورتحال ہے، ٹھیک ٹھیک اسی شہر کی سی ہے جہاں کے ہر فاتح کا پہلا ہدف اس ملک کے عوام ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون آیا؟ اورکون گیا ''گاؤ آمدوخررفت''۔
راہوں میں کون آیا گیا کچھ پتہ نہیں
جس کو تلاش کرتے رہے وہ ملا نہیں
لیکن ''شہر ناپرساں'' کی صورت حال اس شعر سے مختلف ہے، جو بھی آتا جاتا ہے، اسے کچھ اورملے نہ ملے، کالانعام مل جاتے ہیں ۔
کارواں گزرا کیا ہم رہگزر دیکھا کیے
ہر قدم پر نقش پائے رہگزر دیکھا کیے
لیکن نقش پائے راہبر، کہیں بھی نہ کبھی ملے ہیں نہ ملیں گے کہ ''راہبر'' کبھی اس رہگزر میں آیا ہی نہیں، جب بھی آئے ''رہزن'' ہی آئے ہیں۔
جسے ہم راہبر سمجھے تھے وہ رہزن نکل آیا
جسے ہم دوست سمجھے تھے وہی دشمن نکل آیا
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ رہزنی کا کاروبار اب اتنا کھلے عام ہو رہا ہے کہ'' رہزن'' اپنے آپ کو چھپاتے نہیں، کھلے عام دھڑلے ڈنکے کی چوٹ پر آتے ہیں اورجی بھر کر لوٹنے کے بعد جاتے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے جگہ خالی کر کے ایک چھوٹی سی بریک یا وقفہ لیتے ہیں اور پھر ملنے کاوعدہ دے کر آرام کرنے جاتے ہیں اورکیوں نہ کریں کہ لٹنے والوں کو خود لٹنے کا ''شوق'' لاحق ہے ورنہ یہ جو ہو رہا ہے، اسے تو آنکھ اورعقل دونوں کا اندھا بھی سمجھ سکتا ہے۔
سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں
کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں
یہ بے تحاشا وزیر، مشیر، معاون، اسٹینڈنگ، رننگ، سلیپنگ کمیٹیاں ان کے صبر اور چین، یہ منتخب نمایندوں کے مخصوص کوٹے، کیا ہیں؟
کوئی جھنکار ہے نغمہ ہے صدا ہے کیا ہے ؟
تو کرن ہے کہ کلی ہے کہ صبا ہے کیا ہے؟
ہوش میں لائے میرے ہوش اڑانے والے
یہ ترا ناز ہے شوخی ہے صبا ہے کیا ہے؟
مطلب یہ کہ منتخب طبقے کے منتخب سب کچھ ہوتے ہیں، یہ امرت دھارے ہوتے ہیں، ہر وزارت میں فٹ ہوتے ہیں، ہرکمیٹی میں کھپ سکتے ہیں، ہر ہر فن کے ''مولے'' ہوتے ہیں اور خاص طور پر نوالوں کے لیے منہ تو چٹکیوں میں پیدا کرسکتے ہیں، ہر فنڈ کو ٹھیک ٹھیک مقامات پر پہنچانے کے ماہر ہوتے ہیں۔
منتخب طبقے کے یہ منتخب لوگ ہر جگہ، ہر مقام اور ہر وقت عالم میں انتخاب ہوتے ہیں، عوام کے کل ووٹوں کا ایک بٹاچار لے کر منتخب ہونے والے سب کچھ جانتے بھی ہیں، سب کچھ کر بھی سکتے ہیں اور سب کو مزید سب کچھ بھی کر سکتے ہیں، دنیا میں ایسا کوئی فن نہیں جس کے یہ ماہرین نہیں ہوتے ہیں چنانچہ صحت، تعلیم، تعمیرات، آبپاشی، جنگلات، سائنس، داخل، خارج کسی بھی وزارت مشاورت یا معاونت میں چار چاند لگاتے ہیں۔
یہ ہائرایجوکیشن کے بھی اتنے ہی ماہر ہوتے ہیں جتنے جنگلات اورجنگلات کی لکڑی ٹھکانے لگانے کے ماہر ہوتے ہیں یعنی ہاتھی کے پاؤں میں سب کاپاؤں ہوتا ہے ۔وفاق اور صوبوں میں قائم موجوہ سیٹ اپ کو دیکھیے، جن کو جن جن وزراتوں میں کھپایا نہیں جاسکا، مشیر بنا دیے گئے، معاون خصوصی بنا دیے گئے، مختلف مرغن اداروں کے ایڈوائیزر اسٹینڈنگ، سیٹنگ، سلیپنگ، رننگ کمیٹیوں میں کھپائے گئے اوراب وہ منتخب نالائقوں، نکھٹوؤں، نکموں کو مختلف اداروں اور محکموں میں کھپا رہے ہیں۔ ملک مقروض ہے تو کیا ہوا، بھکاری ہے تو کیا ہوا، مہنگائی ہے، بے روزگاری ہے تو کیا ہوا... وہ خدا مارے جانیں اور ان کی اولادیں، ان کو تو اپنے کام سے کام ہے۔
وہ ستم سے ہاتھ اٹھائے کیوں
وہ کسی کادل نہ دکھائے کیوں
کوئی مر ہی نہ جائے کیوں
اسے اپنے کام سے کام ہے