آزادی کا سفر
نہ کوئی پولیس ہے اور نہ کوئی اور فورس۔ رات کی تاریکی میں یہ منظر اور زیادہ بھیانک ہوجاتا ہے
ہمارا تعلق پاکستان کی اس نسل سے ہے جو رفتہ رفتہ معدوم ہو رہی ہے۔ ہم نے تحریک پاکستان کے جوش و خروش اور ولولہ کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ پاکستان کے قیام کا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی طرح رواں ہے، وہ ہمارے بچپن کا زمانہ تھا۔ اس وقت ہماری عمر 6, 7 سال کی رہی ہوگی۔
ہمیں معلوم نہیں تھا کہ وہ شخص کون تھا اورکیا کہہ رہا تھا۔ ہمیں بس اتنا یاد ہے کہ وہ دبلا پتلا شخص کچھ کہہ رہا تھا اور ہم اس وقت اپنے ابا کے کندھوں پر سوار یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہے تھے اور لوگوں کی بھیڑ نہایت نظم و ضبط کے ساتھ اس کی جانب متوجہ تھی۔ کیا مجال جو کوئی شخص اپنی جگہ سے ٹَس سے مَس بھی ہوا ہو، البتہ اس کی تقریر کے دوران وقفہ وقفہ سے اپنے ہاتھ بلند کر کے زور دار آواز میں کچھ کہہ رہے تھے۔
جب ہم بڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ وہ جگہ جہاں لوگ بڑی بھاری تعداد میں جمع تھے، دہلی کی جامع مسجد کے قریب واقع اردو پارک تھا اور بولنے والا شخص بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح تھے اور زور زور سے آوازیں بلند کرنے والے '' پاکستان زندہ باد'' کے نعرے لگا رہے تھے۔ یہ قیام پاکستان کی مبارک گھڑی تھی۔ اب کچھ بھیانک مناظر۔ یک بیک مسلم کُش فسادات پھوٹ پڑے اور بھگدڑ مچ گئی۔ مسلم آبادیوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ بلوائی جن میں ہندوؤں کے ساتھ سِکھ بھی شامل ہیں مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگا رہے ہیں اور لوٹ مار کر رہے ہیں اور مسلم بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کا قتل عام کر رہے ہیں اور خواتین کی آبرو ریزی کر رہے ہیں۔ نہ کوئی پولیس ہے اور نہ کوئی اور فورس۔ رات کی تاریکی میں یہ منظر اور زیادہ بھیانک ہوجاتا ہے کیونکہ رونے پیٹنے کی آوازیں اور چیخیں اِس میں شامل ہوجاتی ہیں۔
نہ کوئی پولیس ہے اور نہ کوئی اور فورس۔ رات کی تاریکی میں یہ منظر اور زیادہ بھیانک ہوجاتا ہے کیونکہ رونے پیٹنے کی آوازیں اور چیخیں اِس میں شامل ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعد اچانک ایک چھوٹا سا وقفہ آجاتا ہے اور کچھ ملٹری ٹرک آجاتے ہیں جو متاثرین کو اٹھا کر کہیں لے جاتے ہیں۔ ہم یہ منظر انتہائی خوفزدگی کے عالم میں خاموشی سے دیکھ رہے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ کانگریسی حکومت کے ایک سینئر مسلم وزیر (مولانا ابوالکلام آزاد) اور ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے حکم کے تحت فسادات کے متاثرہ مسلمانوں کو پناہ گزین کیمپوں میں منتقل کیا جارہا ہے۔ ہمارا چھوٹا سا خاندان بھی اس میں شامل تھا۔
ہم جس مقام پر پہنچے وہ ہندوؤں کا بنایا ہوا پرانا قلعہ تھا۔ یہ قلعہ اگرچہ کافی بڑا اور کشادہ تھا لیکن پناہ گزینوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی تاہم لوگ اللہ کا شُکر ادا کر رہے تھے کہ کسی طرح ان کی جان تو بچ گئی تھی۔برسات کا موسم تھا، اس لیے رات کو موسلا دھار بارش ہوگئی۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے ننھے منے بھائی کی جان کیسے بچائی جائے جس کی پیدائش کو بمشکل دو ہفتے ہوئے تھے۔ ہمارے والد صاحب کو ایک ترکیب سوجھی اور انھوں نے اسے اپنے اوورکوٹ میں چھپا کر رکھ دیا۔
جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے۔ ترکیب کامیاب ہوگئی اور ہمارے بھائی کی جان بچ گئی۔ ہمارے کیمپ سے اس ریلوے اسٹیشن کا فاصلہ بہت زیادہ نہ تھا جہاں سے پناہ گزینوں کو پاکستان لے کر جانے والی ریل گاڑیاں روانہ ہوتی تھیں۔ رات کے واقعے نے ہمارے والد صاحب کے حوصلہ کو اس قدر پست کردیا تھا کہ انھوں نے طے کرلیا تھا کہ کیمپ میں مزید رہنے سے بہتر یہ ہوگا کہ کسی نہ کسی طرح واپس گھر چلا جائے۔ قصہ مختصر ہم اپنے گھر لوٹ آئے۔ہمیں نہیں معلوم کہ پھرکیا ہوا؟ بس اتنا یاد ہے کہ ایک گاڑی جس میں کئی پولیس والے شامل تھے ہمیں بٹھا کر دوسرے شہر باحفاظت لے گئی۔
یہ سب کیسے ہوا اورکیونکر اس کا بھید بعد میں جا کر کھلا۔ ہوا یہ تھا کہ ہمارے پھوپھا جان نے جو میرٹھ چھاؤنی کے کوتوال تھے، گارڈ کے ساتھ ہمارے لیے یہ گاڑی بھیجی تھی۔دیکھتے ہی دیکھتے فسادات کے شعلوں نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں بسنے والے مسلمان فسادات کی زد میں آئے جہاں کے باسیوں کوگاجر مولی کی طرح قتل کیا گیا اور ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتیں لوٹی گئیں۔