آئین پاکستان ڈیجٹلائزیشن
انسان کی منہ زور طاقت اور مطلق العنانیت کی طرف مائل فطرت کو لگام ڈالنا لازم ہے
بچپن کی بہت سی یادیں اور واقعات ہمارے ذہن پر کچھ اس طرح نقش ہوجاتے ہیں کہ ان کے اثرات آخری سانس تک ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔ بہت معمولی چھوٹی چھوٹی سی باتیں غیر محسوس طریقے سے ہماری شخصیت سازی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہوتی ہیں۔
ہمارے اسکول کے دنوں میں ٹیلی ویژن تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ ٹیلی ویژن نشریات شام سے لے کر رات بارہ بجے تک چلتی تھیں۔ اتوار کی رات سینما کی انگریزی فلم دکھائی جاتی تھی جس کا ہم پورا ہفتہ انتظار کیا کرتے تھے۔ انھی میں سے ایک فلم آج دن تک ذہن پر نقش ہے۔ بچپن کے دنوں میں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ جو دیکھا ہے اس کی مکمل تفصیلات یاد رکھی جائیں۔ سو فلم کا نام اور دیگر تفاصیل تو معلوم نہیں، نہ ہی یہ فلم ہالی وڈ کی ان فلموں میں شمار ہوتی ہے جنھیں شہکار قرار دیا جاتا ہے۔ اس فلم کا احوال کچھ یوں ہے کہ ایک شخص جو اپنے علاقے میں نمودار ہونے والی ایسی صورتحال کے تدارک کی کوشش میں مصروف ہے جس کا شکار ہونے والے ہر جاندار پر ایسی جنونی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جو شدید باؤلے پن جیسی ہے۔
غالباً یہ کسی جانور کے کاٹنے سے لاحق ہوتی ہے جس کے ایک مخصوص عرصہ کے بعد متاثرہ شخص اپنے پرائے کی پہچان بھول کر ہر سامنے آنے والے کو کاٹنے کی کوشش کرتا ہے اور جس کسی کے گوشت میں اس کے دانت لگیں گے وہ بھی اسی کیفیت میں مبتلا ہوجائے گا۔ اس دوران خود اس شخص کو انفیکشن میں مبتلا جانور کاٹ لیتا ہے۔ اس شخص کا خاندان کچھ دنوں کے لیے گھر سے باہر ہے۔ یہ شخص سوچتا ہے کہ جب بیوی بچے واپس آئیں گے تو میں باؤلے پن میں مبتلا ہوچکا ہوں گا، لہٰذا وہ گھر کے تہہ خانے کے عین وسط میں لوہے کی ایک بڑی میخ گاڑ کر ایک مضبوط زنجیر اپنے پاؤں میں ڈالتا ہے اور زنجیر کا دوسرا سرا میخ کے کَڑے میں ڈال کر اسے تالا لگا دیتا ہے۔
یہ کرنے کے بعد وہ چابی اپنی پہنچ سے دور پھینک دیتا ہے ۔ جیسے جیسے متاثرہ شخص کے خون میں اجنبی جراثیم اپنا اثر دکھانا شروع کرتے ہیں وہ خود کو آزاد کرنے کی مجنوناناں کوشش شروع کردیتا ہے، لیکن نہ تو زنجیر ٹوٹتی ہے اور نہ اس کا ہاتھ چابی تک پہنچ پاتا ہے۔ یہاں اس فلم کے ذکر کا مقصد اپنے قارئین کو یہ فلم دیکھنے کی ترغیب دینا ہرگز نہیں، بلکہ اس فلم کی یاد مجھے اپنے ملک کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالتے ہوئے اکثر آتی ہے۔ بچپن میں اس فلم کو دیکھ کر شدید خوف کا تاثر دل و دماغ پر چھا گیا تھا لیکن بعد میں جب کچھ سمجھ بوجھ پیدا ہوئی تو اس سے بڑے مثبت تصورات نے جنم لیا۔ میں سوچتا ہوں کہ انسانی تہذیب کے مثبت ارتقا میں سب سے اہم نکتہ یہی ہے کہ انسان کو خود اپنے پاؤں میں قوانین کی زنجیر ڈال کر چابی اپنی پہنچ سے دور پھینکنا ہوتی ہے۔
انسان کی منہ زور طاقت اور مطلق العنانیت کی طرف مائل فطرت کو لگام ڈالنا لازم ہے۔ جو اقوام خود کو قانون کا پابند بنا لیتی ہیں وہ اقوام کی برادری میں نمایاں اور قابل تقلید بنتی چلی جاتی ہیں ۔ کسی ریاست کا سب سے برتر قانون اس کا آئین ہوتا ہے۔ ریاست کا انتظام ہو، یا ریاست میں رو بہ عمل قوانین، سب کچھ آئین کے تابع ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کی بد نصیبی یہ ہے کہ قرآن پاک کی آیات، احادیث مبارکہ اور علامہ اقبال کے اشعار کی طرح آئین کی شقوں کو بھی محض اس ملک کی اشرافیہ، بالا دست طبقات اور اداروں کی ہر اچھی بُری حرکت کو لوگوں کے لیے قابل قبول بنانے کی شعبدہ بازی کے لیے ہی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس آئین سے اس ملک کے عوام کے تاریک گھروں میں روشنی کی کوئی کرن نہیں پہنچی۔ آئین کے حوالے سے یہاں ایک اور دلچسپ بات یاد آرہی ہے۔
جب سے میں نے روزنامہ ایکسپریس میں کام شروع کیا ہے صحافت اور سیاسیات کے یونیورسٹی طلباء و طالبات کی انٹر نشپ میں ہی کروا رہا ہوں۔ ان طالب علموں میں سے آج تک شاید ہی کسی نے اس سوال کا درست جواب دیا ہوں کہ آئینی قوانین اور عام قوانین میں کیا فرق ہوتا ہے؟ اب اگر یونیورسٹی میں پڑھنے والوں کا یہ حال ہے تو دو وقت روٹی پوری کرنے کی جدوجہد میں مصروف عام لوگوں کی کیا حالت ہوگی۔ اگر ہمیں اپنے لوگوں کو ان کے حقوق اور فرائض سے آگاہ کرنا ہے تو سب سے پہلے انھیں آئین اور قوانین سے آگاہی دلانی ہو گی۔ ہماری اب تک حالت یہ تھی کہ ہمارے قانون ساز اداروں کی ویب سائٹس پر آئینی صفحات کی تصاویر کھینچ کر اپ لوڈ کر دی گئی تھیں۔ اگر آپ کو آئین سے استفادہ کرنا ہے تو پہلے سے آخر تک صفحے پلٹتے جائیں اور جو چیزدرکار ہے اسے ڈھونڈیں۔ ایک ایسے دور میں جب معلومات سے متعلق ہر سہولت ڈیجیٹل صورت اختیار کرچکی ہے آئین جیسی اہم دستاویز کو ڈیجٹلائز کرنے کا خیال بھی ہماری سرکار کو نہیں بلکہ ایک حقیقی محب وطن پاکستانی معروف محقق، دانشور، صحافی اور براڈ کاسٹر محمد عاطف کو یہ خیال آیا جو اپنی تجزیاتی، تحقیقی اور معلوماتی تحریروں پر کئی صحافتی ایوارڈ جیت چکے ہیں۔
اس خیال کو عملی جامہ پہنانے میں ان کی مادر علمی بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے سرپرستی اور یونیورسٹی کی سہولیات فراہم کر دیں۔ اس مقصد کے لیے عاطف کی ٹیم میں بلوچستان یونیورسٹی کے ڈائریکٹر آئی ٹی محمد سلال، کمپیوٹر پروگرامر محمد حسین خجک اور ویب ڈیولپر یاسر حمید انصاری بھی شامل تھے۔ چار برس کی محنت کے نتیجے میں یہ پلیٹ فارم آئین فہمی کے لیے بلا معاوضہ ہر کسی کی دسترس میں ہے۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ آپ اس کی سائٹ پر چلے جائیں تو اگر آپ کو آئین کی کسی شق کا نمبر یاد ہے تو نمبر کے ذریعے اسے ڈھونڈ لیں۔ اگر موضوع کے اعتبار سے تلاش کرنا چاہتے ہیں تو ایک ہی موضوع پر موجود تمام شقیں آپ کے سامنے آجائیں گی۔ کلیدی لفظ کے ذریعے تلاش کرنا چاہتے ہیں تو بھی مطلوبہ شق تک پہنچ جائیں گے اور اگر پورا آئین ترتیب سے دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کی سہولت بھی موجود ہے۔
ہر سال یکم اگست کو آئین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس برسSociety The International Bundesbrief نے اپنی ویب سائٹ پر عالمی یوم آئین پر پاکستان سے محمد عاطف کو اپنا سفیر مقرر کیا ہے ۔ محمد عاطف کے کام کا ذکر کرتے ہوئے ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے، '' یہ کام پاکستان کے لیے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ محمد عاطف اور بلوچستان یونیورسٹی نے تیکنیکی جدت کو استعمال میں لاتے ہوئے مثبت تعلیمی اور جمہوری اقدار کی ترویج کا اہتمام کیا ہے''۔آئین پاکستان سے استفادہ کی یہ سہولت اُردو میں http://cop.uob.edu.pk/urdu.html اور انگریزی میںیہ سہولت دیکھنے کے لیے http://cop.uob.edu.pk/english.html پر موجود ہے۔ ہمارے بالا دست طبقات اور مقتدر حلقے جو ہمیشہ سے پس پردہ یا ظاہر میں اقتدار پر قابض رہتے ہیں خود رضا کارانہ طور پر اپنے آپ کو آئین کی زنجیر سے باندھنے پر تو کبھی آمادہ نہیں ہوں گے لیکن اگر پاکستان کے لوگ آئین کی اہمیت اور برتری کی ضرورت سے واقف ہو جائیں تو مثبت تبدیلیوں کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔ محمد عاطف کا یہ کام بجا طور پر لوگوں کو آئین سے متعارف کرانے کے مقصد میں ایک بڑی پیش رفت ہے۔