ماواں سانجھیاں
نیرج چوپڑا اور ارشد ندیم کے ماؤں کے ان خیالات نے پاکستان اور بھارت کے کروڑوں لوگوں کے دل جیت لیے ہیں
ماواں سانجھیاں، مائیں پاکستانی ہوں یا بھارتی، کوئی فرق نہیں۔ بھارتی شہری سروج دیوی نے پیرس اولمپک مقابلوں کے مردوں کے جیولین مقابلے میں پاکستانی شہری ارشد ندیم کے گولڈ میڈل اور اپنے بیٹے نیرج چوپڑا کے کانسی کے تغمہ جیتنے پر کہا کہ '' ارشد بھی میرا بیٹا ہے۔ میں نے اس کی کامیابی کے لیے بھی دعائیں کی تھیں۔'' ارشد ندیم کی والدہ رضیہ پروین نے اپنے گاؤں میں کہا کہ '' نیرج چوپڑا بھی ان کا بیٹا ہی ہے اور ارشد کا دوست ہے۔ اس لیے میں اس کی کامیابی کے لیے بھی دعائیں کر رہی تھی۔ '' بھارتی کھلاڑی نیرج چوپڑا نے اپنی والدہ کے خیالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ '' میری ماں ہریانہ کی گھریلو عورت ہے، وہ سوشل میڈیا سے متاثر نہیں ہے، وہ کبھی اسپورٹس کا حصہ نہیں رہی، یہ اس کے اپنے خیالات ہیں۔''
وزیراعظم مودی نے نیرج چوپڑا سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے اس کی والدہ کے خیالات کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ '' والدہ نے اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔''
نیرج چوپڑا اور ارشد ندیم کے ماؤں کے ان خیالات نے پاکستان اور بھارت کے کروڑوں لوگوں کے دل جیت لیے ہیں۔ نفرت، مذہبی انتہا پسندی اور جنون کے اس دور میں دونوں ماؤں کے خیالات امن وآتشی کی امید رکھنے والوں کے لیے امیدکی ایک کرن ہیں۔ بھارت اور پاکستان 15اگست 1947کو آزاد ہوئے، پھر پاکستانی حکومت نے 14اگست کو آزادی کا دن قرار دے دیا۔
دونوں ملکوں کے تعلقات گزشتہ 77سالوں سے مدو جز رکا شکار ہیں، جب 1947 میں دونوں ملکوں کو آزادی ملی تو دونوں ممالک غربت اور افلاس کا شکار تھے ۔ ہندوستان کے بٹوارے کے موقعے پر ہونے والے فسادات سے لاکھوں لوگ متاثر ہوئے تھے۔ بھارت میں مذہبی، لسانی، طبقاتی اور ذات پات کے تضادات انتہائی زیادہ گہرے تھے مگر مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے نظریے، پنڈت جواہرلال نہرو اور مولانا ابوالکلام آزادکے ویژن کی بنا پر بھارت ترقی کے راستے پرگامزن ہوا اور بھارت کی پارلیمنٹ نے 1950 میں ایک جامع آئین تیار کیا، یوں بھارت میں سیاسی استحکام آگیا۔
پنڈت جواہر لال نہرو نے غیر جانبدارانہ پالیسی اختیارکی جس کی بنا پر بھارت کو برطانیہ، امریکا کے علاوہ سویت یونین سے بھی بڑے پیمانے پر امداد ملی۔ بھارتی رہنماؤں نے بیرونی امداد کو ادارہ جاتی ترقی کے لیے استعمال کیا۔ کانگریس نے جاگیر داری کا خاتمہ کیا اور بھارت کی تمام ریاستوں کی نمایندگی کو مسلح افواج میں یقینی بنایا۔ ایک مضبوط صنعتی ڈھانچے کی بنیاد رکھی گئی۔ مولانا ابو الکلام آزاد کے زیر نگرانی بننے والی تعلیمی پالیسی نے تعلیم کو غریبوں کے گھروں تک پہنچا دیا اور جدید اعلیٰ تعلیم کا ڈھانچہ مضبوط ہوگیا۔
پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں اپنی بنیادی تقریر میں ایک جدید ریاست کے خدوخال کو واضح کیا۔ محمد علی جناح نے جن نکات کو اہم قرار دیا تھا، اس کی بنیاد پر آئین کا ڈھانچہ تیار ہونا تھا، مگر بعد میں آنے والے رہنماؤں نے پاکستان کے بانی کی تقریر کو نظر اندازکر دیا اور قرار داد مقاصد کو منظورکرکے شہریوں میں تقسیم پیدا کردی۔
ملک 9 سال سے متفقہ آئین سے محروم رہا۔1956 میں پہلا آئین نافذ ہوا جس میں مشرقی پاکستان کی اکثریت کو تسلیم نہیں کیا گیا۔1958میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور جنرل ایوب نے ایک ایسا آئین نافذ کیا جس میں سارے اختیارات ان کے گرد گھومتے تھے۔ ایک آئین کی بنا ء پر مشرقی پاکستان کے عوام میں احساس محرومی گہرا ہوگیا۔ محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کو صدارتی انتخابات میں چیلنج کیا تو انھیں دھاندلی سے شکست دے دی گئی۔ فاطمہ جناح کی شکست نے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے بہت دورکردیا۔ عوامی تحریک کے نتیجے میں ایوب خان رخصت ہوئے اور جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا۔ یحییٰ خان نے 1970 میں پہلی دفعہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کروائے مگر اکثریتی صوبے کو اقتدار منتقل نہیں کیا جس کا نتیجہ 16دسمبر 1971کو سامنے آیا ۔ مشرقی پاکستان دنیا کے نقشے سے غائب ہوا اور بنگلہ دیش وجود میں آگیا۔
پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوکی قیادت میں 1973کا متفقہ آئین تیار ہوا۔ یہ واحد دستاویز ہیں جس پر مذہبی اور سیاسی جماعتیں متفق ہیں مگر جنرل ضیا ء الحق نے بھٹوکو پھانسی دے دی۔ سپریم کورٹ نے اپنی تاریخی فیصلے میں بھٹو کے قتل کو عدالتی قتل قرار دیا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے مذہبی انتہا پسندی کو ریاستی پالیسی بنایا۔ جنرل ضیاء الحق کی ان ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے آج تک پاکستان مستقل بحران کا شکار ہے اور اس بحران کے اثرات پڑوسی ممالک پر بھی پڑے۔ گزشتہ صدی میں پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کے سوا کوئی بھی جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکی۔ اس صدی کے آغاز سے جنرل پرویز مشرف کی حکومت وار آن ٹیررکا حصہ بن گئی۔ جنرل پرویز مشرف کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے کابل میں لڑی جانے والی جنگ کراچی تک پہنچ گئی اور بلوچستان مکمل طور پر بدامنی کا شکار ہوگیا۔
گزشتہ 77سالوں میں بھارت اور پاکستان میں چار بڑی اورکئی چھوٹی جنگیں لڑی گئیں مگر ان جنگوں سے سوائے معیشت کی تباہی کے کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہوا۔ ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو اور پرویز مشرف بھارت سے جنگ کے حامی رہے مگر اقتدار میں آنے کے بعد بھارت سے دوستی کے خواہش مند ہوگئے تھے۔ اس صدی میں بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کو عروج حاصل ہوا۔
مودی حکومت نے بھارت کے سیکولر تشخص کو خراب کرنے کی کوشش کی مگر بھارت کی سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے مزاحمت کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ مودی کی اسی انتہا پسندی پالیسی کی بنا پر بھارت کے آئین کی ایک سیکولر شق 370کو ختم کیا گیا۔ پنڈت نہرو نے شیخ عبداللہ کی معاونت سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے کے لیے یہ شق آئین میں شامل کی تھی۔
بھارتی حکومت نے یہ قدم اس وقت اٹھایا جب بھارت کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قریبی تعلقات قائم ہوگئے تھے۔ ان دونوں ممالک نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کئی بڑے پروجیکٹس کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔ تحریک انصاف کی سابقہ حکومت بھارت کے خلاف عالمی رائے عامہ قائم کرنے میں ناکام ہوگئی تو بھارت سے تمام روابط معطل کردیے اور بھارت سے تجارت پر پابندی لگا دی گئی۔
اس پالیسی کا سارا نقصان پاکستان کو ہوا۔ پاکستان میں جان بچانے والی ادویات کی کمی ہوگئی۔ اس دوران ملک زر مبادلہ کے شدید بحران کا شکار ہوگیا۔ بینک آف پنجاب کے چیف ایگزیکٹو ظفر مسعود اور ایک ماہر معاشیات محمد صائم نے اپنے ایک مشترکہ آرٹیکل میں لکھا کہ تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے بھارت سے تجارت انتہائی ضروری ہے۔ انھوں نے عالمی بینک کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بھارت سے تجارت شروع ہوجائے تو برآمدات 25 بلین ڈالرز تک پہنچ سکتی ہے۔ بھارت کی معیشت سالانہ 8.15 فیصد کے تناسب سے بڑھ رہی ہے اور دنیا کی سب سے بڑی مڈل کلاس بھارت میں ہے، اگرچہ کشمیر ایک اہم مسئلہ ہے مگر یہ مسئلہ بات چیت سے ہی حل ہو سکتا ہے اور بات چیت کا ماحول بنانے کے لیے دونوں ممالک کی عوام میں رابطے انتہائی ضروری ہیں۔ ارشد اور نیرج کی ماؤں کے جذبات نے امن کی کھڑکی کھول دی ہے۔