امریکا ۔ یار زندہ صحبت باقی آخری حصہ

لاس اینجلس کی رنگینیوں کو دیکھنے کے لیے کم از کم دو سے تین دن درکار ہیں


اطہر قادر حسن August 14, 2024
[email protected]

امریکی معاشرے میں ہر رنگ و نسل کے لوگ موجود ہیں۔ امریکی معاشرہ ہر اس شخص کو قبول کر لیتا ہے جو اس کے قواعد و ضوابط کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے تیار ہو ۔ یہی امریکا کی کامیابی کا راز ہے ۔ جس نے بھی امریکا کے سسٹم میں رہنا ہے اس پر سسٹم کے قوانین کی پابندی لازم ہے، اس معاملے پر کوئی رعایت نہیں ہے۔

امریکی عوام قانون کی پابندی کرتے ہیں اور اگر کہیں لاقانونیت نظر آجائے توا س کو رپورٹ کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں۔ اس لیے اگر کہیں پولیس موجود نہ بھی ہوتو عوام یہ فرض انجام دیتے ہیں ۔ گاڑی چلاتے راسخ سے میں نے کسی خلاف قانون عمل کا کہا تو اس کا جواب تھا کہ آس پاس سے گزرنے والے شکایت کر دیں گے اور پھر معافی تلافی کا امکان بھی نہیں رہے گا۔

دن بھر کے سفر کے بعد رات کو بھر پورنیند آئی لیکن راقم کی صبح سویرے آنکھ کھل گئی کچھ دیر بعدمیزبان کو بھی جاگنے پر مجبور کر دیا۔ سفری ہوٹلز کا ناشتہ گزارے لائق ہی ہوتا ہے ۔میرے جیسے مسلمان جو حرام حلال پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، ان کو ڈبل روٹی اور جام، ٹوسٹ کے ساتھ کافی سے ہی کام چلاناپڑتا ہے ۔امریکا کافی کے شوقین و دلدادہ ہیں۔رات کو جہاں پر قیام کیا تھا یہاں سے لاس اینجلس کا سفر دو گھنٹے کا تھا جو ہائی وے پر گاڑیوں کی غیر معمولی بھیڑکی وجہ سے چار گھنٹوں میں طے ہوا۔

لاس اینجلس کا شہر ہالی ووڈ کی شہرہ آفاق فلموں کی وجہ سے مشہور ہے ۔ یہاں پر خوبصورت اور مہنگے ترین گھر ہیں، چمچماتی مہنگی گاڑیاں جا بجا نظر آتی ہیں، لاس اینجلس امریکا کے بااثر ، مشہور اور امیر و کبیر لوگوں کا پسندیدہ شہر ہے ، ان کی اکثریت اس شہر میں رہائش پذیر ہے ، اس شہر کے مضافات میں دنیا کا مشہور یونیورسل اسٹوڈیو ہے جو فلمی دنیا کاعالمی مرکز ہے اور یہاں پر ایسے مصنوعی سیٹ لگائے گئے جن کو دیکھ کر ان کے اصلی ہونے کا گمان ہوتا ہے انھی مصنوعی اسٹوڈیوز میں فلموں کی عکس بندی کی جاتی ہے اور پھر یہ فلمیں دنیا بھر میں دھوم مچاتی ہیں۔

لاس اینجلس کی رنگینیوں کو دیکھنے کے لیے کم از کم دو سے تین دن درکار ہیں۔ لاس اینجلس سے شہرہ آفاق شہر لاس ویگاس کا سفر چار گھنٹے پر محیط ہے۔ اس شہر میں واقعی راتیں جاگتی ہیں اور دن سوتے ہیں ۔ البتہ دفتری اور کاروباری زندگی سے وابستہ افراد کے لیے صرف ویک اینڈ ہی بچتا ہے۔ لاس ویگاس میں برقی قمقمے روشنیوں کو سیلاب میں بدل دیتے ہیں، یہ شہر اپنے جوئے خانوں کی وجہ سے دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔

آپ جب ایک دفعہ ان کے اندر داخل ہوجاتے ہیں تو اپنی جیب سے کچھ نہ کچھ دیکر ہی باہر آتے ہیں ہوٹلز سے ان جواخانوں تک مفت سواری بھی فراہم کی جاتی ہے اور اگر آپ کچھ کھیل لیتے ہیں تو واپسی بھی مفت ہوتی ہے۔ یہاں پر آپ کی تواضع کے لیے مغربی مشروبات اور فریش جوس بھی ہوتے ہیں اور سینڈ وچ وغیرہ بھی ۔ ہمارے پاکستانی مسلمان بھائی مغربی مشروبات سے شغل کرتے لیکن حلال کھانے کی تلاش شروع کردیتے ہیں۔

اگر آپ کیلیفورنیا میں ہیں تو پھر لاس اینجلس اور لاس و یگاس دیکھے بغیر آپ کا دورہ نامکمل رہے گا۔ میرے پاس بھی وقت کی کمی تھی سر سری نظر سے دونوں شہر دیکھے لیکن اپنے بھائی راسخ جمیل سے یہ وعدہ ضرور کیا کہ بشرط زندگی دوبارہ چکر لگے گا ۔ میرا امریکا میں آخری پڑاؤ سیان ڈیگو شہر تھا جو میکسیکو کے بالکل ہمسائے میں ایک ساحلی شہرہے۔ یہ امریکی شہروں سے قدرے خاموش شہر ہے لیکن کاروبار کے لیے ایک جنت سے کم نہیں ہے۔

دنیا کی بڑے کاروباری دفاتر اسی شہر میں ہیں۔ مشہور تعلیمی ادارے بھی یہاں ہیں۔ سان ڈیگو پہنچتے ہی چھوٹے بھائی عمر نے خاطر تواضع کے بعد شہر کے مرکز میں چلنے کی پیشکش کی ہے جسے مہمانوں نے فراغ دلی سے ٹھکرا دیا کہ گزشتہ چند دن کے سفر کی تھکان غالب تھی البتہ گزشتہ روز کا پروگرام بن گیا۔ امریکی کے ساحلی شہروں میںزندگی کا اپنا الگ ہی رنگ ہے۔ ساحل سمندر پر کوئی نہا رہا ہے تو کوئی اپنی جلد کو گندمی کرنے کی تگ و دو میں سمندر کی تپتی ریت پر دراز ہے۔

سر شام نائٹ کلب آباد ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور موج مستی کا دور چلتا رہتا ہے۔ امریکا کے تمام بڑے شہروں کا مرکزی علاقہ بلند و بالا عمارتوں سے مزین ہے اور ان کی بلندی انسان کو ورطہ حیرت میں ڈبو دیتی ہے کہ کس طرح ان عمارتوں کو ڈیزان کیا گیا اور وہ کون سے گاریگر تھے جنھوں نے یہ شاہکار تیار کیے۔ سان ڈیگو سے کینڈین ایئر لائن کی پرواز سے ٹورنٹو پہنچ کر لاہور کے لیے پی آئی اے کی پرواز سے لاہور پہنچنا تھا۔

سان ڈیگو ایئر پورٹ پر امیگریشن آفیسر نے میرے سبز پاسپورٹ کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا کہ انھوں نے پہلی دفعہ پاکستان کا پاسپورٹ دیکھا ہے اور یہ خوبصورت پاسپورٹ ہے۔ امیگریشن آفیسر کے اس جملے نے سارے سفر کی تھکان دور کر دی کہ چلو کسی نے تو پاکستانی پاسپورٹ کی تعریف کی۔ امریکا یاترا کے دوران وقت کی کمی آڑے آتی رہی جو طبیعت پر ناگوار تو گزری کیونکہ ابھی بہت کچھ دیکھنے کو باقی تھا۔ میزبان کا اصرار اپنی جگہ لیکن انھیں یہ کہہ کر تسلی دی کہ ''یار زندہ صحبت باقی '' کہ ہرمسافر کو واپس وطن بھی لوٹنا ہوتا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔