بنگالی بھائیوں کی تیسری آزادی
نوجوانوں کے تیشوں نے مجیب اور حسینہ کے مجسّمے نہیں توڑے، ہندوستان کی حاکمیت کو پاش پاش کردیا ہے
ذوالفقاراحمدچیمہ سے سینئرسعودی سینئر سفارتکار فہدالشہری کی ملاقات
بنگلہ دیش میں جتنی سرعت سے منظرنامہ تبدیل ہوا ہے، اسے پوری دنیا حیرت سے دیکھ رہی ہے۔ دنیا بھر کے تجزیہ کار اس بات پر حیران وششدد ہیں کہ چند دنوں میں کس طرح مڈل کلاس کے طلباء ایک ایسا طوفان بن کر اٹھے جس نے جنوبی ایشیا کی مضبوط ترین وزیراعظم کا تاج وتخت اچھال دیا۔ یہی سوال لیے کالم نگار برقی لہروں پر سوار ہوکر کچھ باخبر دوستوں کے پاس پہنچا۔
بنگلہ دیش کے ایک دانشور سے پوچھا کہ طلباء تحریک کو motivation کہاں سے ملی؟ جواب ملا کہ ''بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ ہم آزادی کے لیے آخری حد تک جاسکتے ہیں کیونکہ ہم پلاسی کے میدان میں سراج الدولہ اور ان کے ساتھیوں کے بہنے والے خون کے وارث ہیں۔ ہمارے نوجوان، وقارالملک اور محسن الملک کے بیٹے ہیں۔ جن کے گھر میں اس جماعت نے جنم لیا تھا جو پورے برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق کی علمبردار بنی اور جس نے ہمیں ہندوؤں کی غلامی سے نجات دلائی تھی، بنگلہ دیش کے بہادر نوجوانوں نے ایسا کرکے رہنا تھا۔''
ایک بنگالی مصنف کا کہنا تھا ''حسین شہید سہروردی، مولوی تمیزالدین، نورالامین اور فضل القادر چوھدری کی روحیں مسلسل سوال کرتی تھیں کہ تم نے پاکستان توڑنے کے لیے ہندوستان کا ساتھ کیوں دیا؟ یہ سوال ہمارے دل ودماغ پر ہتھوڑے برسا رہا تھا، یہ ہمارے ضمیر پر بوجھ تھا جو نوجوانوں نے اتاردیا ہے''۔ بنگلہ دیش کے ایک ریٹائرڈ سول سرونٹ سے پوچھا کہ طلباء نے بنگلہ دیش کے بانی مجیب الرحمن کے مجسّمے کیوں توڑ ڈالے؟ تو انھوں نے کہا ''نوجوان سمجھتے تھے کہ ہمیں ہندوستان کی ایک ریاست بنادیا گیا ہے، اوراس کے ذمے دار شیخ مجیب اور اس کی بیٹی حسینہ واجد ہے۔
نوجوانوں کے تیشوں نے مجیب اور حسینہ کے مجسّمے نہیں توڑے، ہندوستان کی حاکمیت کو پاش پاش کردیا ہے''۔ ڈھاکا میں مقیم ایک باخبر صحافی کا کہنا تھا کہ بنگالیوں نے 5 اگست کو تیسری بار آزادی حاصل کی ہے۔ پہلی بار 1947میں محمد علی جناح اور سہروردی نے ہمیں ہندؤں کی اکثریت سے آزادی دلائی۔ 1971 میں ہمیں جنرل یحییٰ اور اس کے ٹولے سے آزادی ملی اور اب 5 اگست کو طلباء نے ملک کو بھارت کی غلامی سے آزاد کرایا ہے۔
مجیب الرحمن نے ہمیں بھارت کی جھولی میں ڈال دیا تھا اور اس کی بیٹی نے تو عملی طورپر بنگلہ دیش کو ہندوستان کی کالونی بنادیا تھا۔ بنگلہ دیش میں وزیروں، جرنیلوں، ججوں اور اعلیٰ افسروں کی تعیناتی کی منظوری دہلی سے لی جاتی تھی۔ تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا نصاب بھارت میں تیار ہوتا تھا۔ Indian hegemony اور غلامی کے خلاف کئی دہائیوں سے پکنے والا لاوا سیلاب بن کر باہر نکلا تو ہر چیز کو بہا کر لے گیا ۔ راقم نے پوچھا ''اتنی طاقتور وزیراعظم ریت کی دیوار کیوں ثابت ہوئی''؟ جواب آیا ''جبر کی یلغار کو صبر کی للکار نے پچھاڑ دیا ہے''۔ رنگپور کی بیگم رقیّہ یونیورسٹی کے طالب علم ابوسعید نے سینہ تان کر کہا تھا ''مارو گولی، میں پیچھے نہیں ہٹوں گا''۔ ابوسعید کا خون آلود جسم جونہی زمین پر گرا، بنگلہ دیش کا ہر طالبعلم کھڑا ہوگیا، جبر کے سامنے چٹان بن گیا۔
تعلیمی اداروں میں عوامی لیگ کی چھاترو لیگ کا اس قدر خوف تھا کہ ان کے آگے کوئی دم نہیں مارسکتا تھا۔ حسینہ کی ذاتی سیکیورٹی پر معمور ریپڈ ایکشن بٹالین نے دہشت پھیلا رکھی تھی فوج، عدلیہ اور انتظامیہ اس کی غلام اور آلۂ کار تھی مگر نظامِ کائنات میں آخری فیصلہ نہ حسینہ کا چلتا ہے نہ مودی کا۔ یہاں ''کن'' کہنے کا اختیار اس عظیم الشان ہستی کے پاس ہے جو کمزور سی ابابیلوں سے ہاتھیوں کے لشکروں کا خاتمہ کروادیتا ہے۔ 20 جولائی کو جب حسینہ نے ظلم اور جبر کی تمام قوتیں میدان میں جھونک دیں تو بنگلہ دیش کے طلباء وطالبات نے جرأت ، استقامت اور قربانی کی حیرت انگیز تاریخ رقم کردی۔
نوجوان طلباء اور طالبات گولیاں کھا کھا کر گرتے رہے مگر کوئی پیچھے نہ ہٹا، ایک دن میں ڈیڑھ ہزار نوجوان شہید ہوئے مگر ان کے خون کی روشنی میں قوم نے اپنی منزل پہچان لی۔ اُسی وقت ان کے بہادر اور بے خوف کوآرڈینیٹر (ریٹائرڈ ٹیچر بدرالاسلام کے بیٹے) ناہید اسلام کی للکار ملک کے طول وعرض میں سنی گئی''گھروں، ہوسٹلوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے باہر نکلو اور اپنے دیش سے غلامی اور جبر کی ہر علامت کا خاتمہ کردو۔ شہیدوں کی روحوں سے عہد کرو کہ ہم ملک کو مکمل آزادی دلائے بغیر واپس نہیں جائیں گے''۔ لاکھوں طلباء نکلے تو ان کے سامنے نہ پولیس ٹھہر سکی اور نہ فوج رکاوٹ بن سکی۔
سوال پوچھا گیا کیا طالب علموں کو کسی بیرونی ملک سے امداد ملتی تھی؟ جواب ملا ''اُن کی قوّت کے سرچشمے کسی بھی ملک سے کہیں زیادہ توانا ہیں، وہ بدر سے کربلا سے غزہ سے پلاسی سے اور ڈھاکا جیل کے پھانسی گھاٹ سے جرات، صبر، عزم اور قوت حاصل کرتے ہیں''۔ لندن میں مقیم ایک بنگالی دوست کا کہنا ہے کہ یہ غیر منصفانہ کوٹہ سسٹم ختم کرنے کی نہیں دو قومی نظریہ زندہ کرنے کی تحریک ہے''۔ ایک اور بنگالی دانشور سے یہی سوال پوچھا تو اس کا کہنا تھا کہ ہمارے نوجوان سمجھتے تھے کہ ہمارے اوپر کئی قرض ہیں۔
1971 میں مسلم پاکستان کے مقابلے میں ہندو بھارت کا ساتھ دینے کا قرض، حسینہ واجد کے وحشیانہ جبر پر خاموش رہنے کا قرض، پروفیسر غلام اعظم جیسی بلند کردار شخصیت کی موت پر غیرجانبدار رہنے کا قرض، عبدالقادر ملا، قمرالزمان، علی احسن مجاہد، مطیع الرحمان نظامی، میر قاسم علی جیسی بزرگ شخصیتوں کو پھانسی دی گئی اور ہم ان کی جانیں نہ بچاسکے، اس بے حسی کا قرض۔ 5 اگست کو طلباء نے وہ سارے قرض اتاردیے ہیں۔ راقم کو افتخار عارف یاد آگئے
؎مٹی کی محبّت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
ایک پرانا سفر یاد آرہا ہے۔ وہ بھی اگست کا مہینہ تھا جب ایک دوپہر کو میں ڈھاکا ائیرپورٹ پر اترا تو ذہن کئی دہائیاں پیچھے چلاگیا۔ اسی شہر میں مسلم لیگ نے جنم لیا تھا۔ یہیں کے ایک لیڈر نے 1940میں قرار داد پاکستان پیش کی تھی۔ یہاں کے رہنما تحریک پاکستان کے سرخیل تھے۔ اے کے فضل الحق، حسین سروردی، خواجہ ناظم الدین، نورالامین، مولوی تمیز الدین، فضل القادر چوہدری، مولوی فرید احمد، کیسی کیسی شخصیات تھیں جو آخر دم تک پاکستان کا پرچم اٹھائے ہوئے سینہ سپر رہیں۔ کیا یہاں کے باشندے اب اپنے بنائے ہوئے اسی پاکستان سے نفرت کرتے ہیں؟ میں یہ جاننا چاہتا تھا۔
ڈھاکا میں پاکستان کے نائب سفیر محمد عارف میرے بیچ میٹ تھے اور انھی کے گھر میرا قیام تھا۔ شام کو چائے پیتے ہوئے عارف نے مجھ سے پوچھا ''کیا کیا دیکھنے کا رادہ ہے''؟میں نے کہا دو باتوں کا جواب ڈھونڈنے آیا ہوں۔ عارف کو تجسس ہوا، وہ کیا؟ ''پہلی یہ کہ بنگلہ دیش جو کبھی ہمارے جسم کا حصّہ تھا ،کیا اس کے باشندے اب ہم سے نفرت کرتے ہیں؟ دوسری یہ کہ اندرا گاندھی نے دسمبر 1971میں پاکستان دو لخت کرنے کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ ''ہم نے دو قومی نظرئیے کو خلیج بنگال میں بہا دیا ہے''۔ کیا واقعی دو قومی نظریہ ختم ہوچکا؟
عارف نے کہا ''بنگلہ دیش کے باشندے ہم سے کتنی نفرت کرتے ہیں؟ اس کا جواب نورُل سے پوچھ لینا''۔ نورالھدیٰ بنگالی ڈرائیور تھا دوسرے روز اس سے بات ہوئی تو اس نے کہا ''کچھ عرصہ پہلے ڈھاکا میں انڈیا اور پاکستان کا میچ ہوا ، یقین مانیں شاب! پورا اسٹیڈیم پاکستان کے حق میں نعرے لگارہا تھا اور پاکستان کے جیتنے پر ڈھاکا میں ہرطرف پاکستان کے جھنڈے نظر آرہے تھے''۔ گزشتہ روز چودہ اگست تھا، پاکستانی سفارتخانے میں یومِ آزادی کی تقریب تھی، سرکاری مقررین کے علاوہ ڈھاکا یونیورسٹی کے ایک طالب علم فرید الحق اور ایک معروف دانشور ابوالقاسم کی تقاریر یادگار تھیں۔
ابولقاسم کا کہنا تھا ''بنگلہ دیش کی آزادی سے پہلے ہم نے یعنی انڈیا اور بنگال کے مسلمانوں نے مل کر جناح صاحب کی قیادت میں انگریزوں سے آزادی حاصل کی تھی اور ایک الگ وطن بنایا تھا۔ اگر یہ مجیب الرحمان کو باپ کہتے ہیں تو محمد علی جناحؒ ہمارے باپ کے باپ تھے۔ فرید الحق کی تقریر کے ایک ایک لفظ سے اپنے سابق وطن پاکستان سے جذباتی وابستگی، انسیت اور محبت کی خوشبوپھیل رہی تھی۔ دوسرے روز عارف اور میں جمعہ کی نماز کے لیے نکلے تو عارف نے میری خواہش پر گاڑی بیت المکرم کی طرف موڑدی ، درجنوں سیڑھیاں چڑھ کر بیت المکرم کے صحن میں پہنچنا پڑتا ہے۔ خطیب صاحب کی آواز دور تک سنائی دے رہی تھی۔ ابھی ہم چند سیڑھیاں ہی چڑھے تھے کہ کانوں میں بنگالی کے بجائے اردو کے الفاظ پڑنے لگے، ہمارے پاؤں رک گئے اور ہم توجہ سے سننے لگے۔ خطیب صاحب نے بنگالی لہجے میں شعر پڑھا ''علّامہ اقبال آچھن
؎ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر
عارف نے میری طرف دیکھ کر کہا ''آپ کو دوسری بات کا بھی جواب مل گیا ہوگاکہ دو قومی نظریہ ڈوب گیا یا زندہ وتابندہ ہے!! (جاری ہے)