پاکستان ایک نظر میں منزل

یہاں ہر شخص دوسرے پر الزام تھوپ کر بری الذمہ ہو جاتا ہے اور اپنی ذمہ داریوں سے مبراً ہونے کی کوشش کرتا ہے۔


نعمان شاہ July 06, 2014
یہاں ہر شخص دوسرے پر الزام تھوپ کر بری الذمہ ہو جاتا ہے اور اپنی ذمہ داریوں سے مبراً ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ فوٹو نعمان شاہ

سڑک کنارے چلتے ٹریفک کی بندش اور تجاوزات کے اژدھام کی وجہ سے فٹ پاتھ سے ملحقہ ریڑھی کے عقب سے گزرنے کی کوشش کی تو اچانک نظر ایک چھابڑی فروش پر پڑی جو اپنے ساتھ گرمیوں کے مرغوب پھل آڑووں کی پیٹیاں رکھے،اور پینٹ کی خالی بالٹی میں سرخ محلول گھولنے میں مگن دکھائی دیا۔

تھوڑی سی جانچ پڑتال کے بعد معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں دیر نہ لگی کہ موصوف چھابڑی فروش کچے آڑووں کو ''پکا'' کرنے کیلئے ان پر رنگ چڑھا رہے ہیں۔ کافی دیر سوچ میں مگن رہا کہ ریڑھی بان شاید کسی وزیر، مشیر کا رشتہ دار، جاگیردار، وڈیرہ، کسی اعلیٰ عہدے پر فائز سرکاری افسر، محکمہ پولیس کا جوان، حساس اداروں کا ریٹائرڈ ملازم، کسی مذہبی جماعت سے تعلق تو نہیں رکھتا، لیکن بازپرس پر پتہ چلا کہ وہ تو صرف ایک ''غریب ریڑھی'' والا ہے۔ اس کا تعلق کسی سیاسی، مذہبی، لسانی جماعت سے بھی نہ ہے، اس بات نے کافی تشویش میں مبتلا کردیا۔
پھر آنکھیں کھول کر چاروں تک دیکھا تو پتا چلا کہ معاشرتی برائیوں میں مصروف اور دوسروں کے منہ پر تھوکنے والے ہر طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، ان کو کسی کی آشیر باد، کوئی سرکاری عہدہ، کوئی منصب درکار نہیں، یہ تو صرف مردہ ضمیر ہونے کا وصف لئے معاشرے میں ہڑبونگ مچا رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس ''غریب چھاپڑی والے'' کا اختیار صرف اسی بات پر چلتا ہے کہ وہ اپنے حصے کے رزق کو ''داغدار'' کر سکے۔ اگر یہی ''غریب'' کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہو تو اپنی ''حیثیت'' کے مطابق اپنا حصہ وصول کرے گا۔

ہمارے ارد گرد مشاہدہ کرنے یہ جاننے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ ہمارے معاشرہ کے ہر طبقہ، ہر مکتبہ فکر، مذہب، فرقے، سیاسی جماعت سے بالاتر ہو کر معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹنے میں مصروف ہیں اور اس کیساتھ ساتھ ''چور مچائے شور'' پر بھی بضد ہیں۔ ہر شخص یہی چاہتا ہے کہ اسے معاشرے میں امتیازی مقام حاصل ہو، اسے کسی لائن میں نہ لگنا پڑے، اس کی باری سب سے پہلے آ جائے، اسے کسی قسم کی سرکاری دستاویزات حاصل کرنے کیلئے انتظار کی کوفت نہ اٹھانی پڑے۔ اگر اسے کسی کام کے سلسلے میں تھانے کا رُخ کرنا پڑتا ہے تو حولدار اپنی کرسی سے اُٹھ کر اسے سلام کرے اور فوراً اس کا مسئلہ حل ہو۔ اگر وہ سرکاری دفاتر کی جانب منہ موڑے تو اعلیٰ سرکاری افسران اس کی راہ تکتے ہوں، گاڑی کے کاغذات اور لائسنس نہ ہونے کے باوجود اسے سڑک پر کھڑا کر کے اسکی ''تذلیل'' نہ کی جائے ،اگر کوئی پولیس اہلکار غلطی سے اسے روکنے کی جرات کر بھی لے تو ''تعارف'' کروانے پر اسے اپنی راہ لینے کی اجازت کیساتھ اس سے معذرت بھی کی جائے۔

لیکن اگر یہی ''مراعات'' کوئی دوسرا لے رہا ہے تو ہمارا خون کھول اُٹھتا ہے اور ہم سارا ملبہ نظام، حکومت، سرکاری اداروں پر ڈال پر بری الزمہ ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ سب کچھ ہمارا ہی تخلیق کردہ ہے۔ ایک پولیس چوکی کے رشوت خور رضا کار سے لیکر ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ملازمین اور سیاستدان ہمارے ہی قبیلہ، خاندان، محلہ، شہر سے تعلق رکھتے ہیں جن کی اشتراکیت سے معاشرہ تشکیل پایا ہے، جب کسی چیز میں شامل عناصر ہی صحیح نہ ہوں گے تو اس کا مرکب کیسا تشکیل پائے گا اس کا اندازہ ہمارے معاشرے کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ ہر شخص دوسرے پر الزام تھوپ کر بری الذمہ ہو جاتا ہے اور اپنی ذمہ داریوں سے مبراً ہونے کی کوشش کرتا ہے۔

آخر کب تک ہم تمام تر برائیوں کا ذمہ دار معاشرے، افراد، محکموں، سیاستدانوں، اداروں کو ٹھہراتے رہیں گے۔ ایک نہ ایک روز ہمیں ان تمام مسائل کی ذمہ داری قبول کرتے ہی معاشرے میں اصلاح کا کام اپنے آپ سے شروع کرنا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں راستہ جتنا طویل ہوگا واپسی اُتنی ہی مشکل ہوگی۔ تو راستے کو مزید طویل کرنے کی بجائے ہمیں ابھی سے منزل کی طرف جلد سے جلد لوٹ جانا چاہیے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں