’’لوگ‘‘ کون ہیں
ان کے کندھوں میں بلائیں ہاتھوں میں پیچ کس اور پہلو میں پولیس والے بھی ہوتے ہیں
یہ ہم اہل پاکستان پر خدا کا کرم ہے کہ ہمارے ہاں اکثر ''بڑ ے بڑے '' ہی پیدا ہوتے ہیں یعنی وہ لنکا سا نصیبہ ہم نے بھی پایا ہے کہ یہاں باون گزے ہی پیدا ہوتے ہیں اور پھر یہ ''بڑے'' جو ہوتے ہیں وہ خاموشی کو کفر سمجھ سمجھ کر ''بڑا بڑا '' ہی بولتے ہیں چنانچہ یہ بات بھی ایک بڑے ہی کے بڑے منہ سے نکلی ہے کہ ... لوگ بل ادا کرنا شروع کردیں تو بجلی سستی ہوجائے گی،لیکن اس بڑے منہ نے یہ چھوٹی سی بات نہیں بتائی ہے کہ لوگ ...تو کون لوگ ؟
کیوں کہ جہاں تک ہمارا علم ہے ، تو جو لوگ ، اس ''لوگ'' کے زمرے میں آتے ہیں وہ تو ''بل'' برابر ادا کررہے ہیں اور ہماری بات مستند اس لیے ہے کہ ہم خود بھی ''لوگ'' ہیں یا وہ لوگ ہیں جو بجلی کے بل ادا کرتے ہیں وہ بل کے ساتھ ساتھ وہ ''بلائیں'' بھی ادا کرتے ہیں جو ان لوگوں کو اتنی لاحق ہیں کہ بیچارے بلبلانے پر مجبور ہیں یعنی بجلی کے بلوں کے ساتھ ساتھ بجلی والوں اوران کے اعزا و اقربا کے بل بھی ادا کرتے ہیں وہ بھی نقد اور ہاتھوں ہاتھ ۔ کیوں کہ وہ جو یکے بعد دیگرے یا ریپڈ فائرنگ کی شکل میں آتے ہیں۔
ان کے کندھوں میں بلائیں ہاتھوں میں پیچ کس اور پہلو میں پولیس والے بھی ہوتے ہیں اور ان سب کا ہلہ بول ان لوگوں پر ہوتا ہے جو بد قسمتی سے صرف لوگ ہیں اورلوگ کے سوا اورکچھ نہیں ، مطلب یہ کہ اس بڑے کو ہم یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ لوگ تو سادے کے سادے ڈبل ڈبل اورٹرپل ٹرپل بل ادا کرتے ہیں یا ان سے ادا کروائے جاتے ہیں، مسئلہ ان کا ہے جو لوگ نہیں ہیں اور جب لوگ نہیں تو بل کیوں ادا کریں۔ بات اس وقت تک آپ کی سمجھ دانی میں اچھی طرح نہیں آئے گی جب تک ہم آپ کو لوگوں کی پہچان نہیں کروائیں گے ۔
شادی کی تقریب تھی، ایک خاندان خوب خوب چرتا رہا ، آخر چرتے چرتے وہ مقام آگیا جب دولہا دلہن یا اہل خانہ کو کچھ دینا تھا ، اس خاندان کے لیے آزمائش کی گھڑی آگئی تھی لیکن اس خاندان کا بڑا ''لوگ ''تھا بس جو اتنی آسانی سے پکڑائی دیتا چنانچہ موقع کے انتظار میں تھا اور یہ موقع اسے مل گیا کیوں کہ بڑوں کو مواقع کی پہچان ہوتی ہے، اس کی خوش قسمتی سے اہل خانہ نے بلند آواز سے اپنے آدمیوں اور مدعوئین کی طرف اشارہ کرکے پوچھا یعنی لوگوں نے کھانا کھا لیا ہے ، وہ موقع شناس جو تا ک میں تھا اچانک بول پڑا ... اچھا تو اب ہم ''لوگ'' ہوگئے ہیں تو ہمارا یہاں کیا کام ؟ اہل خانہ نے بہت منانے کی کوشش کی لیکن وہاں سے صرف ایک جواب تھا ، ہاں ہاں ہم تو اب لوگ ہیں اور لوگوں کے سوا اورکچھ نہیں، یوں روٹھ کر سارا خرچہ جو متوقع تھا بچا لیا۔
ایک زمانے میں مشہور تھا کہ علاقہ غیر کے قبائل بجلی تو بے تحاشا استعمال کرتے ہیں لیکن بل نہیں دیتے، علاقہ غیر تو اب رہا نہیں لیکن وہ قبائل اب بھی موجود ہیں جو بل بھی ادا نہیں کرتے ہیں اور بجلی اتنی بے تحاشا استعمال کرتے ہیں کہ ایک ایک گھر میں ، لوگوں کے ایک گاؤں جتنی بجلی خرچ ہوتی ، ان ''نئے قبائل '' میں سب سے بڑا قبیلہ تو خود ''محکمہ'' والوں کا ہے اورخود محکمہ والے بجلی کے ساتھ کیا ، بلکہ کیا کیاکرتے ہیں اس کا اندازہ اس جملے سے لگایا جاسکتا ہے ...کہ ... محکمہ کو محکمہ والوں سے بچایئے۔
کیوں کہ عملی طور پر اس وقت ملک میں دو محکمے ہیں ایک تو وہ جو دفاتر میں بیٹھا ، فضل ربی سمیٹ رہا ہے اوردوسرا وہ جو تحریری بل نہیں بھیجتا بلکہ موقع پر نقد صورت میں وصول کرکے حصہ بقدر جثہ پہنچاتا ہے ۔ ایک ماہر سرکاریات ، جو سرکاری محکموں اوراداروں کا ڈسا ہوا ہے جس سے ہماری اکثر آئینے میں ملاقات ہوتی ہے اور وہ جو ایک مستند محقق بھی ہے۔
اس نے تحقیق کرکے بتایا ہے کہ سرکاری محکموں اوراداروں میں تھروپراپر چینل کا سلسلہ چل رہا ہے، چنانچہ محکمے کے افسر کا کیا ہوا شکار اوپر بہت دوردور تک پہنچتا ہے ، تھانیدار کا شکار بھی اسی طرح اوپر کے مقامات تک پہنچتا ہے محکمہ مال کا شکاری پٹواری ہوتا ہے اسی طرح ہرمحکمے اورادارے میں یہی تھروپراپر چینل جاری ہے ، ظاہرہے کہ ایسے میں پتھر لڑھکتے لڑھکتے اس خدا مارے کے سر پر ہی پڑے گاجو بدقسمتی سے ''لوگ'' ہے ویسے تو انوری نے بھی ہربلائے کہ زآسمان بود کیا ہے۔