راجہ بیوپاری پرجا بھکاری
سیاست ایک باقاعدہ سائنس اور علم ہے جس کا مقصد اور مشن ہے۔ سیاست دان صرف وہ شخص ہی نہیں کہلا سکتا
لاہور:
دنیا کے بیشتر جمہوری و ترقی یافتہ ممالک میں یہ اصولی اور اخلاقی پابندی موجود ہے کہ کاروباری افراد ملک کے سیاسی عمل از قسم الیکشن و حکومت سازی میں شمولیت سے گریز کرتے ہیں اور اگر ایسا ارادہ کر بھی لیں تو اپنے بزنس سے دستبردار ہو کر قطعی سیاسی حیثیت سے الیکشن مقابلوں میں اترتے ہیں کیونکہ حکومت میں آنا یا حزب مخالف میں رہ کر سیاست کرنا ان کے نزدیک ایک ایسا قومی فریضہ ہوتا ہے۔
جس میں ملک و عوام کی بہتری اور ترقی مقصد اول و آخر ہوتا ہے نہ کہ ذاتی یا خاندانی خوشحالی و پرورش اس لیے اگر کسی ملک میں حکمران اپنے سابق کاروبار کی ترقی میں ملوث پایا جاتا ہے تو ملکی قانون فوراً اسے گرفت میں لے کر تادیبی کارروائی میں تاخیر نہیں کرتا اور اس کی بیشمار مثالیں موجود ہیں کہ وزراء بلکہ وزیر اعظم کو بھی عدالتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بدعنوانی و اقربا پروری ثابت ہونے پر انھیں پس زندان بھی دیکھا جاتا ہے ان دنوں فرانس کے سابق صدر کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔
اس کے علاوہ کئی دیگر ممالک کی مثالیں بھی موجود ہیں۔وہ لیڈر جو اپنے ملک کے عوام اور ملک کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں عموماً خود غریب ہوتے ہیں اور جو حکمران امیر سے امیر تر ہوتے دیکھے جاتے ہیں ان کے ملک کے عوام ہمیشہ غربت زدہ اور پسماندہ ہی رہتے ہیں آپ خود اس حقیقت کا مشاہدہ اپنے اور اپنے جیسے دوسرے ممالک میں آج بھی کر سکتے ہیں اور یہ اتنی واضح اور نمایاں حقیقت ہے جس کی تردید ممکن ہے نہ اسے جھٹلایا جا سکتا ہے۔
سیاست ایک باقاعدہ سائنس اور علم ہے جس کا مقصد اور مشن ہے۔ سیاست دان صرف وہ شخص ہی نہیں کہلا سکتا جو لوگوں کے ووٹ لے کر پارلیمنٹرین بن بیٹھے۔ یہ درست ہے کہ ہمارے جیسے ممالک میں صرف ووٹ حاصل کر لینے والا اس نام سے پکارا اور مانا جاتا ہے لیکن قانون سازی کرنے اور ملک و عوام کی ترقی و خوشحالی لانے کے اسرار و رموز سے نابلد شخص محض ووٹوں کی بوری کندھے پر لاد کر پارلیمنٹیرین کی Definition پر کسی صورت پورا نہیں اترتا اور یہی ہمارے ہاں خرابی کی جڑ ہے۔
برطانوی سامراج سے پاک و ہند نے اکٹھے آزادی حاصل کی۔ پاکستان کو اسلامک ری پبلک اور ہندوستان کو سیکولر بننا پسند آیا دونوں کس حد تک ان دعووں پر پورے اترے یہ سوچنے کی بات ہے لیکن ایک حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ دونوں کی طویل سرحدیں آپس میں ملتی ہیں یعنی پڑوسی ملک ہیں اور سرحدوں کو ایک دوسرے سے فاصلے پر لے جانا ممکن نہیں۔ دو جنگیں اور پھر دونوں کا ایٹمی طاقتیں ہونا بھی حقیقت ہے ۔
ایسی صورت حال کا فائدہ پاک فوج نے یوں اٹھایا کہ ملک سچ یا غلط ''مُلا ملٹری الائنس'' کے نتیجے میں فلاحی کی بجائے سیکیورٹی اسٹیٹ بن کر عوامی ترقی کی راہ کھو کر ترقی معکوس کی راہ پر گامزن ہے۔ سول حکومت ملک کے تمام ادارے بشمول آرمی کی راہ معتین کرنے کی پابند ہے اگرچہ ہماری ریاست اسلامی جمہوریہ کہلاتی ہے لیکن کل مدت آزادی کا زیادہ عرصہ آرمی کی حکومت کے تحت چلتی پائی گئی ہے۔ ہماری جمہوریہ کے ستون یعنی انتظامیہ' عدلیہ اور پارلیمنٹ بھی بعض اوقات اصل حکمرانوں کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔
اصل بات یوں ہے کہ پولیٹیکل سائنس کا علم نہ ہونے اور اسلامی کے علاوہ جمہوریہ ہر دو سے بغاوت یا لاتعلقی کے سبب جمہوریت یرغمال ہے۔ پارلیمنٹ موجود ہے لیکن اپنے اختیارات و فرائض سے یا تو ناواقف ہے یا اس کا شعور ہی نہیں رکھتی۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ ہر کوئی اپنی ذات اور ضروریات کا گھر بھرنے میں مگن ہونے کی وجہ سے اپنے فرائض سے غافل یا پھر نظریں پھیرے دونوں ہاتھوں سے اپنا حصہ سمیٹنے میں مصروف ہے۔
کل رات میرے منہ سے بے ساختگی میں نکل گیا ''راجہ بیوپاری پرجا بھکاری'' میرے سامنے بیٹھے قاضی آفاق نے اسے سنجیدگی سے لیا اور بتایا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ چونکہ کپڑے کے تاجر تھے خلیفہ کے منصب پر فائر ہونے کے بعد حسب سابق کندھے پر بیش قیمت کپڑا لے کر مارکیٹ میں فروخت کے لیے نکلے۔ یہ بات حضرت عمرؓ کے علم میں آئی تو وہ حاضر ہوئے اور عرض کی کہ حضور اس سے قبل لوگ آپ سے کپڑا خریدتے تھے کہ آپ ابوبکرؓ تاجر ہیں لیکن اب لوگ بخوشی اور خواہش کے تحت آپ ہی کی طرف رجوع کریں گے کہ ہم خلیفۂ اول حضرت ابوبکر ؓ سے کپڑا خریدیں اور شاید یہ امر دوسرے تاجروں کی حق تلفی کا باعث ہو اس لیے مناسب ہو گا کہ آپ اپنے مقررہ شدہ وظیفے ہی پر گزر اوقات کریں۔
یہ واقعہ سن کر میں نے اپنے اردگرد نظر دوڑائی تو یقین آ گیا کہ آج کل تو اکثر صاحبان اقتدار چاہے وہ شیروانی والے ہوں یا یونیفارم میں اپنے اصل فرائض جو عوام نے ان کے سپرد کیے انھیں اپنے تجارتی معاملات سے دستبردار ہوئے بغیر انجام دے رہے ہیں بلکہ وہ عوامی فلاح و بہبود کے فرائض پر اپنے تجارتی و کاروباری معاملات کو خود اور اپنی اولاد کے ذریعے فوقیت دے رہے ہیں۔ مجھے یقین آ گیا کہ جس ملک کے حکمران یعنی ''راجہ'' بیوپاری ہوں ان کے عوام یعنی ''پرجا'' بھکاری نہ ہوں گے تو کیا ہوں گے۔