دہشت گردوں کے خلاف آپریشن
پاکستان نےافغانستان سےمطالبہ کیا ہےکہ وہ تحریک طالبان پاکستان کےسربراہ ملا فضل اﷲ کو گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کرے،
پاکستان نے افغانستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اﷲ کو گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کرے، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ اور حکومتی وزرا نے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو شمالی وزیرستان آپریشن پر تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے کہاہے کہ جہاں ضرورت پڑی وہاں آپریشن ہوگا، وزیرستان کے بعد ملک بھر میں دہشت گردوں کا تعاقب کریںگے اور ان کے ٹھکانے اور پناہ گاہیں تباہ کردی جائیں گی۔
بریفنگ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ آپریشن کے لیے امریکی ڈرون یا غیر ملکی امداد کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومتی عمل داری ہر صورت میں قائم کی جائے گی۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے بھی صاف لفظوں میں کہا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے دوران ملکی و غیر ملکی ہر دو قسم کے دہشت گردوں کا بلا امتیاز خاتمہ کیا جائے گا، پاک فوج دہشت گردوں کا کوئی ٹھکانہ باقی نہیں رہنے دے گی۔ ریاست اپنی رٹ قائم کرے گی اور آپریشن کے بعد قبائلی علاقوں کی ترقی کا منصوبہ بنالیا گیا ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ سانحے 9/11 کے بعد امریکی سرپرستی میں دہشت گردی کے خلاف شروع ہونے والی جنگ میں بیرونی دباؤ کے باعث پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی بننا پڑا، امریکا اور اس کے اتحادیوں نے عراق بالخصوص افغانستان کے خلاف جنگ میں القاعدہ کے جنگجوؤں کی تلاش میں اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے پاکستان کا کاندھا استعمال کیا، حکومت وقت نے تمام تر مشکلات، مسائل اور مخالفتوں کے باوجود امریکی جنگ میں اس طرح اس کا ساتھ نبھایا کہ امریکا سمیت پوری عالمی برادری نے برملا اس کا اعتراف بھی کیا۔
امریکا اور اس کے اتحادی تو اپنے اہداف حاصل کرتے رہے لیکن دوسری جانب اس جنگ کے منفی اثرات نے پاکستان کو بڑے گہرے زخم لگائے اور ناقابل تلافی نقصان پہنچایا کیوں کہ افغانستان اور پاکستان کے بارڈر پر نگرانی کا موثر نظام نہ ہونے کے باعث جنگ کا دائرہ پاکستان کے قبائلی علاقوں تک پھیلنا شروع ہوگیا۔
امریکا کے خلاف برسر پیکار افغانستان میں وہ عسکری جھتے، جن میں غیر ملکی جنگجو بھی شامل تھے، ا ن کے بطن سے نئے انتہا پسند گروپوں نے جنم لیا، رفتہ رفتہ ان کی تعداد اور شدت پسندانہ عزائم میں اضافہ ہوتا رہا اور وہ پناہ کی تلاش میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منتقل ہونے لگے جن کو ختم کرنے کے لیے امریکا نے پاکستان پر ڈرون حملے شروع کردیے، پاکستان کے انتہا پسند جنگجو عناصر نے غیر ملکی و افغان جنگجوؤں کے ساتھ مل کر نہ صرف قبائلی علاقوں بلکہ پورے پاکستان پر بندوق کے ذریعے اپنا مخصوص ایجنڈا مسلط کرنے کے لیے بھیانک جنگ شروع کر رکھی ہے۔
جب سوات ودیگر علاقوں میں پاک فوج نے آپریشن کے ذریعے جنگجوؤں کی مزاحمت کچلنے کی کارروائیاں شروع کیں تو شدت پسند عناصر نئی پناہ گاہوں کی تلاش میں ملک کے دیگر علاقوں میں پھیلنا شروع ہوگئے اور اپنے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کے لیے خودکش حملوں، بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے کراچی تا خیبر آگ و خون کا الاؤ روشن کردیا، گزشتہ ایک دہائی سے ملک کے طول و ارض میں قتل و غارت کا گھناؤنا کھیل جاری ہے اس عرصے میں وطن عزیز کو بھاری نقصانات اٹھانا پڑے، ہماری معیشت کو 70ارب ڈالر سے زائد خسارے کا سامنا ہے، بیرونی سرمایہ کار پاکستان آنے سے گریزاں ہیں بلکہ ملکی سرمایہ بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے۔
عوام کی جان و مال، قومی املاک، حساس ملکی تنصیبات، ہوائی اڈوں کو دہشت گرد تواتر کے ساتھ نشانہ بناتے چلے آرہے ہیں، پچاس ہزار سے زائد فوجی جوان و سیکیورٹی اہلکار اور ہزاروں بے گناہ و معصوم نوجوان، بچے، بوڑھے، عورتیں، ڈاکٹر، انجینئرز، وکلاء، ماہرین تعلیم، سماجی کارکن، علمائے دین، تاجر، صنعت کار اور سیاست دان اس جنگ میں دہشت گردوں کا نشانہ بن چکا ہیں، عاقبت نا اندیشوں نے کروڑوں عوام کی مقبول سیاست داں بے نظیر بھٹو کو بھی شہید کرکے ملکی سیاست کو گہرا زخم لگایا، پوری قوم شدید عدم تحفظ کا شکار اور خوف و ہراس کے عالم میں ہے۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں ملک و قوم کو انتہا پسندی و دہشت گردی سے نجات دلانے کے لیے شروع کیے گئے آپریشن ''ضرب عضب'' کے بعد 18 کروڑ عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے، قوم کا ایک ایک فرد جنرل راحیل شریف اور آپریشن میں شامل تمام جوانوں کے عزم و حوصلے کو نہ صرف سلام پیش کر رہا ہے بلکہ ان کی کامیابی کے لیے سر بہ سجود اور دست بہ دعا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق فضائی حملوں کے بعد آپریشن ضرب عضب کا دوسرا مرحلہ یعنی زمینی کارروائی کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، پاک فوج کے ترجمان کے مطابق آپریشن کے باعث دہشت گرد اپنی کمین گاہوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں، ان کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے اور بچ نکلنے کے راستہ مسدود ہوچکے ہیں۔
آپریشن کے دوران اب تک تین سو پچاس سے زائد دہشت گرد مارے جاچکے ہیں، 19 نے ہتھیار ڈال دیے اور 24 دہشت گرد فرار ہوتے ہوئے پکڑے گئے، پاک فوج نے دہشت گردوں کے چالیس سے زائد ٹھکانے تباہ کردیے ہیں اس دوران 10فوجی جوانوں نے ملک و قوم کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرکے جام شہادت نوش کیا، زمینی کارروائیوں کے دوران بھی پاک فوج کو دہشت گردوں کے خلاف بڑی کامیابیاں ملی ہیں، میران شاہ سے چار سو بم ، بارود سے بھرے دو سو سلنڈر ودیگر اسلحہ برآمد کیا اور بارودی سرنگیں بنانے والی فیکٹری تباہ کردی۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سیاچن کے دورے کے دوران جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک فوج ہر طرح کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے، مادر وطن کے دفاع کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریںگے۔ فوج جنگی ماحول سے پوری طرح آشنا ہے اور سخت موسم اور مشکل و چیلنجز سے بھرپور ماحول میں جوانوں کا حوصلہ لائق تحسین ہے۔ آرمی چیف کا خطاب فوجی جوانوں کے لیے ٹانک کا درج رکھتا ہے۔
بلا شبہ پوری قوم کو آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قائدانہ حربی صلاحیتوں، عزم مصمم اور بلند حوصلوں پر مکمل اعتماد و اعتبار ہے، عوام کو پاک فوج کی حربی تکنیک، جرأت و بہادری اور تاریخ رقم کردینے والی ولولہ انگیز داستانیں آج بھی یاد ہیں اور انھیں یقین ہے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں ملک کے ہر گوشے سے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کا خاتمہ ہوجائے گا، ہر گلی، محلہ، بازار ، قصبہ اور شہر امن کا گہوارہ بن جائیں گے۔
نہ صرف شمالی وزیرستان بلکہ کراچی تا خیبر جگہ جگہ چھپے دہشت گرد و انتہا پسند عناصر کا قلع قمع کیے جانے تک ''ضرب عضب'' کا مشن جاری رہے گا شمالی وزیرستان میں حکومتی رٹ کی بحالی کے بعد دہشت گردوں کے مزید ٹھکانوں کا خاتمہ بھی ضروری ہے ، کیوں کہ آپریشن کے آغاز کے بعد شر پسند دہشت گرد عناصر متاثرین کے قافلوں میں شامل ہوکر سندھ، پنجاب و بلوچستان کے مختلف علاقوں میں منتقل ہوکر پھر سے منظم ہوسکتے ہیں اس لیے ان کی تلاش اور خاتمہ بھی از بس ضروری ہے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ موجودہ حالات سے پیدا ہونیوالے نتائج وعواقب پر بھی گہری نظر رکھی جائے۔